جناب اسلم رئیسانی کا قول زریں ضرب المثل بن چکا ہے۔ آپ آج بھی یُو ٹیوب پر ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ نواب صاحب نے میڈیا کے سامنے دوٹوک اور پُراعتماد لہجے میں فرمایا ''میرا موقف صاف ہے، ڈگری ڈگری ہوتا ہے، وہ اصلی ہو یا جعلی ہو‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کا اشارہ تعلیمی ڈگریوں کی طرف تھا؛ تاہم آج ہم ایک اور ڈگری کی بات کریں گے، جو تعلیمی نہیں، عدالتی ڈگری ہوتی ہے اور قسمت والوں ہی کو اپنی زندگی میں نصیب ہوتی ہے؛ البتہ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ کچھ لوگ ان ڈگریوں کی تیاری میں بھی نواب رئیسانی کے قول کو مشعل راہ بناتے ہیں۔
2 مارچ کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے دنیا نیوز کی اس تحقیقاتی خبر پر اعلیٰ سطح کا کمیشن تشکیل دیا، جس میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اراضی سکینڈل کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ دنیا نیوز کے اشفاق احمد نے گزشتہ برس دسمبر میں اس سکینڈل کی نقاب کشائی کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں جعلی عدالتی فیصلوں اور ڈگریوں کے ذریعے ایک لاکھ 93 ہزار کنال اراضی کی ملکیت میں ہیر پھیر کیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ ارشد چوہدری نامی سرغنہ کا گروہ پچاس سال پرانے جعلی عدالتی احکامات تیار کرکے شہریوں کی لاکھوں کنال زمین ہڑپ کر چکا ہے۔ متاثرین برسوں سے عدالتوں اور دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں مگر ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ خبر پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے فوراً رپورٹ طلب کر لی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی اسی روز اعلیٰ افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی تھی۔ ڈی جی اینٹی کرپشن نے بھی ہنگامی طور پر ریجنل افسروں کو شہریوں کے ساتھ فراڈ کرنے والے گروہ کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دیا۔ امید واثق ہے کہ بہت جلد ملزمان کے گرد قانون کا گھیرا تنگ کر دیا جائے گا، جائیدادیں قبضہ مافیا سے واگزار کرا کے حقداروں کو دے دی جائیں گی اور مجرم عبرتناک سزائیں پائیں گے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک کی تاریخ میں فراڈ کے ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔
تعلیمی جعلی ڈگریوں کا تو آپ کو بخوبی علم ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں جب اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے بی اے کی شرط لازم قرار دی گئی تو اس صنعت نے خوب فروغ پایا۔ نواب رئیسانی کے قولِ زریں کا پس منظر بھی یہی ہے ۔ آج ہم آپ کی خدمت میں جعلی عدالتی ڈگری کی تیاری کا طریقہ اور افادیت عرض کریں گے، جن کا ہم نے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے مقدور بھر مطالعہ کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں ستر کی دہائی کے آخر اور اَسی کے آغاز میں چوہدری نبی احمد نام کے ایک سول جج صاحب اپنی گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ موصوف کی ان خدمات کے متاثرین آج بھی ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ چوہدری صاحب اپنے دست مبارک سے جعلی ڈگریاں تیار فرمایا کرتے تھے۔ بعد ازاں جب متاثرین نے اعلیٰ عدالتوں میں جا کر ان کے فیصلوں کو خراج تحسین پیش کیا تو ان عدالتوں نے موصوف کے ہنر کی شاہکار کئی ڈگریاں منسوخ کیں اور ڈگریداروں کے خلاف فراڈ کے فوجداری مقدمات درج کرنے کے احکامات بھی جاری کیے (ہم دستاویزی ثبوت پیش کر سکتے ہیں)۔
عدالتی جعلی ڈگری کی تیاری کے لیے ضرور ی نہیں کہ عدالتی اہلکار ہی یہ کارِ خیر انجام دیں، کوئی غیر عدالتی ہنرکار بھی ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ دیوانی عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کیا جاتا ہے، نہ اس کی سماعت ہوتی ہے۔ وکالت نامہ نہ وکیل، دعویٰ نہ جوابِ دعویٰ، مسل نہ کورٹ فیس، شہادت نہ جرح، ثبوت نہ بحث، بلکہ ڈائریکٹ عدالتی فیصلہ اور ڈگری۔ اس ''عدالتی فیصلے‘‘ میں باضابطہ طور پر فریقین کے نام، واقعات کا خلاصہ، فیصلہ طلب امور کا تعین، متنازعہ امور پر فیصلہ اور فیصلہ کی وجوہ کے علاوہ ڈگری صادر کرنے کے محرکات بھی درج ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی عدالت کا قطعی حکم یعنی ڈگری بھی جاری کی جاتی ہے۔ اس طرح جہاں عدالتوں، وکلا اورسائلان کا قیمتی وقت بچتا ہے وہاں ''ڈگریدار‘‘ کو گھر بیٹھے سستا اور فوری انصاف میسر آ جاتا ہے اور ''مدیون ڈگری‘‘ بھی گھر بیٹھے اپنی جائیداد سے محروم ہو جاتا ہے۔ نہایت مختصر وقت میں ایک فریق کے حق میں ڈگری جاری ہوتی ہے اور وہ ''جائیداد متدعویہ‘‘ کا مالک بن جاتا ہے۔ یہ فیصلہ اور ڈگری محکمہ مال کے اہلکاروں کے پاس پہنچتی ہے تو وہ ڈگریدار کے حق میں منتقلی اراضی کے امور بجا لاتے ہیں۔ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دو نمبر دھندے میں متعلقہ پٹواری بھی ملوث ہیں‘ حالانکہ پٹواری اور تحصیلدار تو فقط کچھ نذرانے کے عوض '' ڈگری ڈگری ہوتا ہے، وہ اصلی ہو یا جعلی ہو‘‘ کے زریں اصول کے تحت ڈگری پر عملدرآمد کرتے ہیں۔
زمینوں پر قبضہ مافیا نے جو گل کھلائے ہیں، اس کی مہک ہماری نسلیں بھی محسوس کرتی رہیں گی۔ ارشد چوہدری نے کوئی نیا کام نہیں کیا۔ اس مافیا کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی اس ملک کی۔ قیام پاکستان کے بعد متروکہ املاک کی الاٹمنٹ کا مرحلہ آیا تو مافیا ہٰذا نے جعلی کلیمز کے ذریعے جائیدادیں حقداروں کی بجائے اپنے نام کروا لیں۔ وہاں جن کے پودینے کے باغ تھے، یہاں آ کر آموں کے باغ کے مالک بن گئے۔ سرحد کے اس پار سے آنے والے مہاجرین بورڈ آف ریونیو میں اپنے کلیم داخل کرتے تھے، جنہیں مختلف اضلاع میں جائیدادوں کی الاٹمنٹ کے لیے بھیج دیا جاتا۔ پٹواری کے پاس اس کے بے پناہ اختیارات کا منبع ایک رجسٹر IR-7 ہوا کرتا تھا۔ وہ آنے والے کلیمز کے مطابق اس میں کسی زمین کی الاٹمنٹ کی تجویز درج کرتا، گرداور تائیدی دستخط کرتا اور تحصیلدار اسے منظور کر لیتا۔ جب اس طریقے میں گھپلوں کی شکایات زیادہ ہو گئیں تو الاٹمنٹ کا طریقہ تبدیل کر دیا گیا۔ اب ایک اور رجسٹر RL-2وجود میں آیا۔ ڈپٹی کمشنر (سیٹلمنٹ آفیسر) شہری اور اسسٹنٹ کمشنر (اسسٹنٹ سیٹلمنٹ آفیسر) دیہی جائیدادیں الاٹ کرتے تھے۔ رجسٹر RL-2 کے صفحات پر سیریل نمبر لکھے ہوتے تھے اور ہر صفحے پر الگ الگ کلیمز کے مطابق الاٹمنٹ کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ گڑ بڑ سے بچانے کے لیے یہ رجسٹر پٹواری سے لے کر تحصیل آفس کے محافظ خانہ میں رکھ دیا گیا۔ الماری کی ایک چابی تحصیل آفس اور دوسری ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوتی تھی، تاکہ صفحات میں ہیر پھیر ممکن نہ رہے۔ مافیا نے محکمہ سے مل کر اس سختی کا حل یہ نکالا کہ رجسٹر سے کوئی باضابطہ نقل لینے کی درخواست دی جاتی، جو شہریوں کا قانونی حق ہے۔ اب نقل کی تیاری کے لیے دونوں چابیاں حسب ضابطہ آ جاتیں۔ اس پُرمسرت موقع پر رجسٹر نکال کر کمال مہارت سے اس میں کوئی نیا جعلی کلیم یا کسی کلیم کا صفحہ نکال کر اپنے معتمد خاص مہاجر کے دو نمبرکلیم کا صفحہ جوڑ دیا جاتا۔ جائیداد کی الاٹمنٹ کے بعد معتمد خاص سے جائیداد کا انتقال یا رجسٹری اپنے نام کروا لی جاتی۔ ایسی جعل سازیوں سے وطن عزیز میں کھربوں کی جائیدادوں میں ہیرا پھیری ہوئی۔
ہم پورے وثوق سے عرض کر رہے ہیں کہ اگر کبھی جعلی کلیمز، جعلی ڈگریوں اور دیگر دو نمبریوں کے ذریعے غیر منقولہ جائیدادوں میں گھپلوں کی شفاف تحقیقات ہوئیں تو اس مظلوم ملک اور اس کے بے نوا شہریوں پر رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم کی داستانیں منظر عام پر آئیں گی۔ ہم نے محکمہ مال اور اس میں روا رکھی جانے والی بے ضابطگیوں اور سیاہ کاریوں جیسے خشک موضوع پر پہلے بھی اخبارات کے کئی صفحات سیاہ کیے ہیں اور اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ: ؎
کاتب تقدیر کا لکھا نہ بدلا اور ہم
لکھتے لکھتے لکھتے لکھتے تھک گئے