ماسٹر صاحب: (کلاس میں داخل ہوتے ہوئے ) کیا سارے بالغ پہنچ گئے ہیں؟
شیرو مستانہ: کلاس میں تو پہنچ گئے ہیں ، بلوغت کو نہیں پہنچے ۔
ماسٹر صاحب: خاموش...بال سفید ہو گئے ، ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے کم بخت ۔
فیقا ٹیڈی: ابھی تو ملک چلانے والے بالغ نہیں ہوئے ماسٹر جی ! ہم کیسے ہو گئے (قہقہہ)
شیدا جہاز: ماسٹر جی ! یہ پھٹیچر کھلاڑی کیا ہوتا ہے ؟
خانو خاکسار: یہ بالکل پھٹیچر لیڈر جیسا ہوتا ہے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: خاموش ہو جائو سب اور اپنے سبق پر دھیان دو ...ہاں تو پیارے بالغو ! کل ہم نے فعل اور اس کی اقسام پڑھی تھیں۔ گامے تم بتائو کہ فعل کسے کہتے ہیں؟
گاما کوچوان: کرتوتوں کو فعل کہا جاتاہے۔ انتخابات میں جھرلو پھیرنا بھی ایک فعل ہے اور لوڈ شیڈنگ کرنا بھی۔
خیرو بھاگوان: دھرنا دینا بھی ایک فعل ہے اور کھوکھلے نعروںکی جگالی کرنا بھی۔
جمالا شرمسار: عوام تک بنیادی سہولتیں پہنچانے میں فیل ہونا بھی ایک فعل ہے اور اس میں سارے کے سارے ہی فیل ہیں(قہقہہ)
ماسٹر صاحب : غلط ، بالکل غلط تعریف ہے فعل کی ۔ تم لوگ کچھ بھی پڑھ کر نہیں آئے ۔اچھا نورے تم فعل ماضی اور اس کی اقسام بیان کرو۔
نورا دیوانہ: فعل ماضی سے مراد ماضی کے کارنامے بھی ہو سکتے ہیں اور کرتوت بھی ۔
فیقا ٹیڈی: ایک قسم داغ داغ ماضی بھی ہے (قہقہہ)
خانو خاکسار: سب سے مشہور قسم شاندار ماضی ہے ۔ جس قوم کا مستقبل تاریک ہو وہ اس صیغے کا کثرت سے استعمال کرتی ہے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ارے کم بختو ! لغویات بکنے کے علاوہ بھی تمہیں کوئی کام آتا ہے کیا؟ میں کہتا ہوں سنجیدہ ہو جائو ،ورنہ بہت پچھتائو گے ۔
فیقا ٹیڈی: ابھی تو ملک چلانے والے سنجیدہ نہیں ہوئے ، ہم کیوں ہوں ماسٹر جی (قہقہہ)
ماسٹر صاحب : ابے تو ملک چلانے والوں کے پیچھے کیوں پڑگیا ہے ۔ اپنی چونچ بند رکھ ...ہاں ! شیدے تم فعل ماضی کا کوئی جملہ سنائو ۔
شیدا جہاز: ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: تُف ہے تم پر ۔ خانوتم بتائو کہ فعل حال کسے کہا جاتا ہے ؟
خانو خاکسار:ـفعل حا ل کو مندا حال بھی کہتے ہیں ۔ ناکے، ڈاکے ، دھماکے ، فاقے ، کاکے اور اندھیرے سب فعل حال ہیں۔
ماسٹر صاحب: شاوش ہے بھئی ، شاوش اے ...اچھا تم میں سے کون فعل حال کا کوئی جملہ بنائے گا؟
خیرو بھاگوان: ہم ایک ایسے دور میںجی رہے ہیں ، جہاں جھوٹ کی حکمرانی ہے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: یہ فعل حال نہیں ہے بے وقوف۔ جمالے تم فعل حال کا کوئی خوبصورت سا جملہ سنائو ۔
جمالا شرمسار: سنیں ...میں ملک ہوں کسی اور کا ، مجھے چلاتا کوئی اور ہے ۔
ماسٹر صاحب: بند کرو یہ واہیات باتیں ۔غور سے سنو ، میں ایک جملہ سناتا ہوں،تم لوگ بتائو کہ یہ کس زمانے کا فعل ہے ... ''بندر اچھل اچھل کر شاخیں بدل رہے ہیں‘‘
شیدا جہاز: کیا کہابندر اچھل اچھل کر پارٹیاں بدل رہے ہیں؟
ماسٹر صاحب: پارٹیاں نہیں جاہل۔ شاخیں ، شاخیں ...بندر پارٹیاں نہیں بدلتے ۔
نورا دیوانہ: تو پھر کون پارٹیاں بدلتے ہیں ماسٹرجی!
ماسٹر صاحب:کوئی بھی پارٹی نہیں بدلتا یہاں ...کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑ گئے ہو کم بختو ۔ فضول باتیں مت کرو اور بتائو کہ فعل مستقبل کیا ہوتا ہے ؟
شیرو مستانہ: مستقبل تو مشغلہ بازوں کی بھینٹ چڑھ گیا ماسٹر جی (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: آفریں ہے بھئی ۔ میں فعل مستقبل کی بات کرر ہا ہوں اور تمہیں مستقبل کی فکر پڑ گئی ہے ۔
جمالا شرمسار: مستقبل کی فکر کرنی چاہیے ماسٹر جی ! آپ ہی تو کہتے ہیں ۔
ماسٹر صاحب: کہتا ہوں ، ضرور کہتا ہوں اورپھر کہہ رہا ہوں کہ دیکھو میرے بچو ! اب تم سب بالغ ہو ۔ اپنے آنے والے سالوں کے بارے میں سوچو۔
گاما کوچوان: میں تو اپنے آنے والے سالوں کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوں ماسٹر جی ۔ میرے اکٹھے تین سالے اگلے ہفتے میرے گھر میں رہنے کے لیے آ رہے ہیں۔
ماسٹر صاحب : ابے جاہل ! میرا مطلب ہے کہ آنے والے برسوں کے بارے میں سوچو۔
شیدا جہاز: ہم تو آنے والے کل کا نہیں سوچتے ، برسوں کی کیا اوقات ہے بھلا(قہقہہ)
شیرو مستانہ: ماسٹر جی آپ مستقبل کے بارے میں سوچنے کو کہہ رہے ہیں مگر میرا ماما کہتا ہے کہ سوچنے سے صحت خراب ہوتی ہے ۔
فیقا ٹیڈی : ویسے بھی ماسٹر جی ! ہمارے ہاں سوچنے کا رواج ہی نہیں ۔ اب دیکھیں ناں، جب ملک چلانے والے نہیں سوچتے تو ہم کیوں یہ جھک ماریں ؟
ماسٹر صاحب : خبردار فیقے جو تو نے آئندہ ملک چلانے والوں کے بارے میں ہرزہ سرائی کی تو ۔ کیوں میری روزی کے پیچھے پڑ گیا ہے بے شرم...دیکھو بالغو!تمہیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ بہتر مستقبل کے لیے کون سے راستے پر چلنا ہے ؟
خیرو بھاگوان: پہلے منزل کا تعین ہو تو پھر راستہ چنا جاتا ہے ماسٹرجی (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ارے کم بختو بات فعل مستقبل کی ہو رہی ہے اور تمہاری گز گز بھر زبانیں کہاں جا پہنچیں۔ جمالے ، تم سنجیدگی سے فعل مستقبل کے بارے میں بتائو
جمالا شرمسار: مستقبل اور سنجیدگی ؟(قہقہہ)
ماسٹر صاحب : خاموش ...پھر اپنی اصلیت پر آ گئے تم...خانو تم بولو ۔
خانو خاکسار: فعل مستقبل کا مطلب ہوتا ہے آج کا کام کل پر چھوڑنا۔ جیسے '' کالا باغ ڈیم ضرور بنائیں گے ‘‘
نورا دیوانہ: فعل مستقبل جمہوریت کا ایجاد کردہ فعل ہے ۔ یہ کر دوں گا ، وہ کر دوں گا ...گا،گی ،گے ...اس کو سبز باغ دکھانا بھی کہتے ہیں۔
ماسٹر صاحب: غلط، سب غلط ۔ میرا دل کرتا ہے کہ بڑا سا گڑھا کھودوں اور تم سب کو اس میں دھکا دے کر اوپر مٹی ڈال دوں۔
فیقا ٹیڈی: زحمت نہ کریں ماسٹر جی ! ہم پہلے ہی زندہ درگور ہیں (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: اچھا اب بس کرو اور شیرو تم فعل ماضی قریب کی تعریف کرو۔
شیرو مستانہ: ماضی قریب تعریف کے قابل کہاں ہے ماسٹر جی ! اعلیٰ عدالتوں میں دو بوتلوں جیسے ایشو پر بحث ہوتی رہی ہے ۔
ماسٹر صاحب : تم سے یہی امید تھی ۔ خیرو تم فعل ماضی بعید کی تعریف کرو۔
خیرو بھاگوان: ماضی بعید کے فعل تو اور بھی زیادہ شرمنا ک ہیں ماسٹر جی ! مارشلائوں اور ایمرجنسیوں والے ماضی کی تعریف کرنا تو سفید جھوٹ ہوگا(قہقہہ)
ماسٹر صاحب: گامے تم فعل ناقص کے بارے میں بتائو؟
گاما کوچوان: یہ وہ فعل ہے جس میں ٹھیکیدار سرکاری کام میں گھپلا کرتا ہے اور ناقص میٹریل استعمال کرتا ہے ۔ اس فعل میں سب مل کر کھاتے ہیں،پھر بھی اسے فعل ناقص کہا جاتا ہے ، خدا جانے کیوں؟
ماسٹر صاحب : جھوٹ ، سب جھوٹ ۔ ارے جاہلو کبھی سچ بھی بول لیا کرو۔
فیقا ٹیڈی: ماسٹر جی ! سچ تو کبھی ملک چلانے والوں نے ...
ماسٹر صاحب : (جوتا اتار کر فیقے کی طرف لپکتے ہوئے ) ارے کم بخت ، ناہنجار، بے حیا ، پھٹیچر...تیرا بگاڑا کیا ہے ملک چلانے والوں نے ؟ ...ٹھہر تیری خبر لیتا ہوں...!