بہتر اور خوب تو مالک حقیقی ہی جانتا ہے مگر درویش کی چشم تصور مستقبل کا ایک منظر دیکھتی ہے ۔ چاند پر بنی نوع انسان کو آباد ہوئے نصف صدی بیت چکی ہے ۔ اب وہاں کے پر امن اور خوشحال معاشرے میں بتدریج بڑھتے جرائم اور امن و امان کے بگاڑ نے حکام چاند کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔ ایسے ناخوشگوار حالات کے محرکات کا کھوج لگانے اور ان کے تدارک کے لیے اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیاجاتا ہے ، جو اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے :
''آج سے پچاس برس قبل زمینی سائنسدان چاند کی آب و ہوا کو انسانی آباد کاری کے قابل بنانے میں کامیاب ہوئے اور اہل زمین پہلی غیر زمینی ریاست میں آکر بسنا شروع ہو گئے ۔ اس جمہوری اور فلاحی ریاست کے ابتدائی آئین میں صرف تہذیب یافتہ اقوا م کے افراد ہی کویہاں آنے کی اجازت تھی۔ تاہم ربع صدی بعد جب ایک جنت نظیر معاشرے کی جڑیں گہری ہو گئیں تو آئین میں ترمیم کر کے ہر ملک کے باشندوں پر چاند کے دروازے کھول دیئے گئے ۔ اس وقت دنیا کے کئی ممالک سے لوگ چاند پر آنا شروع ہوئے ، جن میں مستحکم تہذیبی روایات کے حامل ایک جنوب ایشیائی ملک ( چاند پر جس کا کوڈ P-007ہے ) کے باشندے بھی شامل ہیں ۔ ہماری تحقیقات سے مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے ہیں ۔
1۔P-007کے اکثر تارکین وطن جعلی ویزوں ،ٹمپرڈ پاسپورٹس ، خلائی جہازوں کے پہیوں میں چھپ کر اور دیگر دو نمبر طریقوں سے چاند پر آئے ۔ ان لوگوں نے یہاں آ کر سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں دیں ۔ اگرچہ چاند پر ایسا کوئی قانون نہیں تھالیکن بحیثیت انسان دوست ریاست یہاںکے قوانین میں نرمی کر کے انہیں سیاسی پناہ دی جاتی رہی ۔ اس مملکت سے آنے والے اصلی ویزوں اور امیگریشن کے حامل افراد کے کاغذات کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے بھی زیادہ تر نے جعلی ڈگریوں اور جعلی بینک سٹیٹمنٹس کے ذریعے یہ سہولت حاصل کی۔ کئی لوگوں نے چاند کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا اور یہاں آ کر غائب ہو گئے ۔ تاہم یہ لوگ ہم میں رچ بس نہ سکے ۔
2۔ یہاں کی شخصی آزادیوں اور قوانین کی نرمی کا فائدہ اٹھا کر مہمان آباد کاروں نے اپنے جوہر دکھانے شروع کیے تو معاشرے میں جرائم کی شرح اور صحت و صفائی کے مسائل بتدریج بڑھتے چلے گئے ۔ عجیب لوگ ہیں کہ بلدیہ کے اہلکار ان کے گھروں کے سامنے کوڑا ڈالنے کے لیے خوبصورت ٹوکرے لٹکاتے ہیں اور یہ انہیں اتار کر اندر لے جاتے ہیں،جبکہ گھر کا کوڑا بے تکلفی سے گلی میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ اپنے ملک سے نسوار اور پان نام کی کچھ عجیب سی چیزیں لاتے ہیں اور انہیں کھاتے ہوئے پیک کے انمٹ نقوش چمکتی دیواروں اور فٹ پاتھوں پر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ اپنے ملک میں منعقد ہونے والے عرسوں اور عظیم الشان کانفرنسوں کے بڑے بڑے اشتہارات رات گئے ٹریفک اور کمرشل سائن بورڈوں پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ کچھ عجیب و غریب سے معالج بھی یہاں قدم جمانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو چاند کی خوبصورت عمارتوں کی دیواروں کو طرح طرح کے پوشیدہ امراض کے اشتہارات لکھ کرگندہ کر دیتے ہیں۔ صفائی ان کانصف ایمان ہے مگر یہ اپنی دو گھنٹے کی کسی تقریب کے لیے کمیونٹی سنٹر حاصل کرتے ہیں تو انتظامیہ کو اس کی صفائی کے لیے دو دن درکار ہوتے ہیں۔ یہ ٹیکس چوری کے ایسے ایسے گر جانتے ہیں ، جنہیں جان کر پلوٹومیں مصروف عمل سائنسدان بھی ان کی ذہانت کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں۔
3۔ یہ جدید اے ٹی ایم مشینوں کے کمپیوٹر زکو دھوکہ دے کر جعلی کارڈوں کے ذریعے رقم نکلوانے کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ ان کے ملک سے شکایات موصول ہوئی ہیں کہ یہاں سے جانے والے کچھ لوگ چاند کے دونمبر ویزوں کے ذریعے لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ وہ انسانی سمگلنگ کے ذریعے اپنے ملک سے چاند سے چہرے چاند پر لاتے ہیں اور ان سے زبردستی دھندہ کراتے ہیں۔ اس فلاحی ریاست میں پیدا ہونے والے ہر بچے کی خوراک اور تعلیم کے لیے سرکاری وظیفہ مقرر ہے ۔ P-007سے آنے والے پانچ چھ بچے پیدا کرتے ہیں اور وظیفے کی رقم سے گھر بیٹھے مفت کی روٹیاں
توڑتے ہیں۔ یہ خود کو بے روزگار ظاہر کر کے بے روزگاری الائونس حاصل کرتے ہیں اور سرکار کی آنکھوںمیں دھول جھونک کر چپکے سے دیہاڑی بھی لگا لیتے ہیں۔ یہ خود کو فرشتہ سیرت کہتے ہیں مگر معذوروں کے لیے مختص جگہوں پر گاڑیاں پارک کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ سمجھتے ہیں مگر اپنی بچیوں کو دھوکے سے اپنے ملک لے جا کر ان کی زبردستی شادیاں کرتے ہیں۔ یہ حیا کے پتلے ہیں مگر دوسرے ممالک کی خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ان کے سیاستدان اور کاروباری شخصیات منی لانڈرنگ کے ذریعے یہاں کالا دھن لاتے ہیں اور بینکوں میں جمع کروانے کے علاوہ جائیدادیں بھی خریدتے ہیں ۔ ان کے لیڈر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے یہاں آتے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں سے مراعات اڑاتے ہیں۔
4۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ P-007سے آنے والے لوگ مختلف انتہا پسند لسانی ،سیاسی اور مذہبی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ ان کے سیاسی و مذہبی پیشوایہاں آتے ہیں اوران کے درمیان اختلافات کو خوب ہوا دے کر جاتے ہیں۔ اس فرقہ ورانہ اور سیاسی کشیدگی کے مہلک اثرات تیزی سے معاشرے پر اپنے اثرات چھوڑتے جا رہے ہیں۔ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ کوئی بھی گرو ہ پرائیویسی اور شخصی آزادیوں کا قائل نہیں۔ ہر گروہ خود کو پارسا اور دوسرے کو اخلاق باختہ قرار دے کر ان پر اپنے نظریات اور کلچر ٹھونسنے میں جتا ہوا ہے ۔ یہ لوگ ریلو کٹا اور پھٹیچر کی پھبتیاں کس کر ایک دوسرے کی بھد اڑاتے ہیں اور باہم دست و گریبان تک ہوتے ہیں ۔ ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ چاند پر رہتے ہوئے بھی اپنے گریبان سے زیادہ مخالفین کی زمین پر موجودہمشیرگان کے کردار کا زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ماضی میں چاند پر انسانی قدم پڑنے کو ناقابل عمل قرار دیا تھا مگر آج ہر گروہ چاند کو فتح کر کے اس پر اپنا جھنڈا گاڑنے کا فسادی عزم رکھتا ہے ۔ حیرت ہے کہ یہ چاند پر پہنچ گئے ہیںمگر آج بھی اہل زمین سے رابطہ کر کے عید کا چاند نظر آنے کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ان کا ایک گروہ چاند کے ممنوع علاقوں کی خاک چھان کر کسی بڑھیا کو تلاش کرتا ہے ، جو بقول ان کے ایک مینویل آلے سے سوت کات رہی ہے ۔ چونکہ سوشل میڈیا کے متعلق ان کا علم شر انگیزی اور فحاشی کے پہلوئوں تک محدود ہے اور بیش بہا علمی ، تحقیقی اور اخلاقی پہلو ان سے مخفی ہیں لہٰذا غیر ذمہ دار عناصر کی طرف سے کسی شر انگیز حرکت کو جواز بنا کر یہ لوگ پورا سوشل میڈیا ہی بند کرنے کے مطالبات کرتے ہیں۔ عجب مردانِ آزاد ہیں کہ چاند کاکھاتے ہیں اور اسی پر تھوکتے ہیں۔
5۔ ایسے غیر تہذیب یافتہ رویوں کی بنا پریہاں امن و امان کے علاوہ معاشی اور معاشرتی صورتحال خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے فقط ایک نکاتی ٹھوس تجویز دی جا رہی ہے کہ بجٹ کا کثیر حصہ مختص کر کے انقلابی اور مشنری طور پر ان لوگوں کی مستحکم تہذیبی روایات میں نقب لگائی جائے اور ان کی تعلیم و تربیت اور انہیں اخلاقی قدروں سے روشناس کرانے کا بندوبست کیاجائے ۔ اس دوران یہاں ان کے ہر نوع کے پیشوائوں کا داخلہ ممنوع قرار دیاجائے ،جب یہ لوگ شعورو و آگہی سے بہرہ مند ہونگے تو خود ہی ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے اور چاند دوبارہ جنت نظیر معاشرہ بن جائے گا‘‘