زمانے کی تیز رفتار ٹرین سے چھلانگ مت لگائیں!

آپ نے سنا ہو گا، جاٹ کی بکری نے اپنا سر مٹی کی ہانڈی میں پھنسا لیا تو وہ گھر بھر کی سر توڑ کوششوں کے باوجود نہ نکل سکا۔ جاٹ بکری کو گائوں کے لال بجھکڑ کے پاس لے گیا، جس نے حالات و واقعات کے گہرے مشاہدے کے بعد بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بکری ذبح ہو چکی تو لال بجھکڑ نے کہا کہ اب ہلکی ضرب سے ہانڈی توڑ دو۔ اس طرح بکری کا سر ''آزاد‘‘ ہو گیا۔ آپ نے یہ بھی سنا ہو گا کہ انیسویں صدی میں اسٹاک ٹون سے ڈالنگٹن تک چلنے والی دنیا کی پہلی پسنجر ٹرین کی رفتار دس میل فی گھنٹہ تھی، جو لوگوں کو بہت تیز لگتی تھی۔ پھر جب اس رفتار میں اضافہ کیا گیا اور 1829ء میں یہ ٹرین تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑی تو بہت سے مسافروں نے ڈر کے مارے ٹرین سے چھلانگ لگا دی۔ کچھ لوگ اب بھی یہی کرتے ہیں۔ 
اس وقت امریکی ہفت روزہ ''نیو ز ویک‘‘ کی 7 جون 2006ء کی ایک رپورٹ ہمارے سامنے پڑی ہے۔ لکھا ہے کہ عنقریب ایسا موبائل آنے والا ہے جو محض فون نہیں، مکمل کمپیوٹر ہو گا۔ مائیکرو ٹیکنالوجی کے متعلق اس رپورٹ کا ایک جملہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس موبائل کے کیمرے میں مناظر محفوظ کرکے براہِ راست دنیا کے کسی بھی کونے میں دوسرے شخص کے ساتھ شیئر کر سکے گا... یقینا اس وقت یہ رپورٹ لوگوں کو عجیب اور کئیوں کو تو ناقابل یقین لگی ہو گی مگر پچاس کروڑ کلومیٹر دور دمدار ستارے سے روشنی کی رفتار سے 27 منٹ میں تصویریں زمین پر پہنچانے والوں نے یہ سب کچھ بھی کر دکھایا ہے۔ 
ابھی کل کی بات ہے، ہمارے گھروں میں ٹیپ ریکارڈر ہوا کرتے تھے، ایک گھنٹے کی آڈیو کیسٹ والے بڑے بڑے ٹیپ ریکارڈر۔ اپنی پسندیدہ موسیقی، اصلاحی خطبات اور دیگر صوتی مواد کی آڈیو کیسٹس سے الماریاں بھری رہتی تھیں۔ پھر تین گھنٹے کی بڑے سائز کی حامل ویڈیو کیسٹس کے انبار لیے وی سی آر آیا۔ اس کے بعد جدید فلاپیز، سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور یو ایس بیز آئیں؛ تاہم، ہم لوگ صرف اسی سمعی اور بصری مواد سے استفاد ہ کر سکتے تھے جو ان آلات میں محفوظ ہوتا تھا۔ 
وقت کا پہیہ گردش میں رہا اور اغیار کی جدید سائنس بنی نوع انسان پر حیرت و استعجاب کے جہاں کھولتی چلی گئی۔ وہ محیرالعقول انفارمیشن ٹیکنالوجی جس نے پوری دنیا کے علوم اور تاریخ کو انٹرنیٹ میں سمیٹ لیا تھا، اب ٹیپ ریکارڈر کی کیسٹ جتنے اس سمارٹ فون کے دامن میں سمو لی گئی ہے، جسے معصوم بچہ محض ایک کھلونا سمجھ کر اس پر لپکتا ہے۔ اس جیبی آلے کے پیچھے کار فرما سائنس و ٹیکنالوجی نے ایک طرف زمین کی طنابیں کھینچ کر رکھ دی ہیں اور فاصلے کے تصور کو قصہ پارینہ بنا ڈالا ہے تو دوسری طرف دنیا کی تمام کیسٹس اور سی ڈیز کا مواد تو کیا، جہاں بھر کے علوم اور فنونِ لطیفہ کو اس ڈبیا میں سمیٹ دیا ہے۔ اب کائنات اور اس میں موجود ہر ذی روح پر ناقابل یقین تحقیق کے در ہماری انگلی کی ایک جنبش سے وا ہوتے ہیں۔ 
اس انقلاب کی ابتدا کب ہوئی؟ تاریخ کہتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں عروج پانے والی پاپائیت کا اختتام اس علمی اور صنعتی انقلاب کا نقطہ آغاز تھا۔ تب احیائے علوم کی تحریک نے شعور و آگہی کے اس انقلاب کی بنیاد رکھی، جب جستجو اور تحقیق کے فکری دھارے رواں ہوئے؛ تاہم تاریخ کفِ افسوس بھی ملتی نظر آتی ہے کہ پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ کو تاریکیوں سے نکال کر آگہی کے راستے پر گامزن کرنے والی اس تحریک کی روشنی مسلم ساحلوں تک نہ پہنچ سکی ۔ آج کی اس عقل شکن انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے بل پہ سوشل میڈیا نے جہاں دنیا کو حقیقتاً گلوبل ویلج میں بدل دیا ہے وہاں مٹھی بھر ان گھڑ اپنے اندر کا گند بھی اس میں انڈیلتے رہتے ہیں۔ آج ہم شرپسند اور شیطان صفت عناصر کی طرف سے گستاخانہ مواد پر مبنی چند ویب سائٹس اور پیجز سے جذباتی ہو کر پورا سوشل میڈیا ہی بند کرنے کے مطالبات کرتے ہیں‘ گویا ہم اپنے بچوں پر جدید علوم کے دروازے مقفل کرنا چاہتے ہیں۔ 
جناب والا! دست بستہ عرض ہے کہ براہِ کرم اکیسویں صدی میں ایسے نفرت انگیز مواد کے خالقوں سے قانون کے مطابق نمٹیے مگر خدارا اپنی نسلوں پر علم و آگہی کے دریا بند کرنے کی مت ٹھانئیے۔ گستاخوں کی ہانڈی توڑنے کے لیے لال بجھکڑوں کا اسلوب نہ بنائیں۔ اسے قانون کی ضرب سے توڑیں مگر بکریوں کے سر آزاد کرانے کی خاطر ہمیں ذبح نہ فرمائیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ جب کبھی ہماری سر زمین پر تاریکیوں کے بادل چھٹیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں ہماری قبروں سے پوچھیں گی کہ ہم نے چھاپہ خانے، بلڈ ٹرانسفیوژن، انسانی اعضا کی پیوند کاری، لائوڈ سپیکر، انٹرنیٹ اور دیگر جدید سائنسی ایجادات کو حرام قرار دے کر ان کا علمی و تعمیری سفر کیوں کھوٹا کیا؟ اور پھر انہی اشیا سے بھرپور استفادہ کر کے اپنے لیے جگ ہنسائی کا ساماںکیوں کیا؟ یاد رہے کہ تاریخ نے ہماری نسلوں کو بتانے کی خاطر اپنے دامن میں محفوظ کر لیا ہے کہ 2005ء میں ڈنمارک میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد ہم نے جذباتی ہو کر اہل مغرب کی مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا مگر عملاً بجلی سے لے کر لائف سیونگ ڈرگز تک، ان کی ایجادات کے بغیر کبھی زندگی کا ایک لمحہ بھی نہیں گزارا۔ یو ٹیوب کا بھی یہی معاملہ ہے۔ 
حضور والا! ہماری لاعلمی سے محبت اپنی جگہ مگر جدید سائنس و ٹیکنالوجی نے گلوبل ویلج کی برق رفتار ٹرین میں ہمیں بھی کھینچ کر اپنے ساتھ لٹکا لیا ہے۔ زمانہ اب خلائوں کو مسخر کرنے کے سفر پر ہے۔ علم و تحقیق اور شعور و آگہی کی اس ٹرین کی رفتار آسماں کو چھو رہی ہے۔ اس کی تیز رفتاری سے خوفزدہ ہو کر چھلانگ مت لگائیں۔ یقین فرمائیں کہ ہر نئی سائنسی ایجاد کو اپنے نیزے کی اَنی پر رکھنے سے اس ٹرین کا کچھ نہیں بگڑے گا، البتہ ہمارا دولت خانہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا پچھواڑہ رہ جائے گا... یہ بھیڑ بکریوں کے باڑے سے بھی بد تر ہوتا ہے۔ 
زمانہ اب خلائوں کو مسخر کرنے کے سفر پر ہے۔ علم و تحقیق اور شعور و آگہی کی اس ٹرین کی رفتار آسماں کو چھو رہی ہے۔ اس کی تیز رفتاری سے خوفزدہ ہو کر چھلانگ مت لگائیں۔ یقین فرمائیں کہ ہر نئی سائنسی ایجاد کو اپنے نیزے کی اَنی پر رکھنے سے اس ٹرین کا کچھ نہیں بگڑے گا، البتہ ہمارا دولت خانہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا پچھواڑہ رہ جائے گا... یہ بھیڑ بکریوں کے باڑے سے بھی بد تر ہوتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں