گزشتہ کالم میں اس داغدار تاریخ کا اجمالی سا جائزہ لیا گیا جو قائداعظم کے پاکستا ن کو رواداری کے نخلستان سے شدت پسندی کے خارستان میں بدلنے کا سبب بنی ۔ غیر نمائندہ گروہوں نے پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیا جو کسی کو علم و عمل تو کیا ، سوچ تک کی آزادی دینے کو تیار نہیں ۔ سوال کیاجاتا ہے کہ ان نامساعد حالات میں عام آدمی کیا کرے ؟
جواب یہ ہے کہ کالم میں یہی عرض کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس ملک کے کروڑوں باشندے دودھ پیتے بچے نہیں کہ خود کو انتہا پسندوں کے چنگل سے آزاد کرا کے ایک وسیع النظر سماج قائم نہ کر سکیں ۔ اگر ہم نے کسی نام نہاد مذہبی یا لبرل انتہا پسند گروہ کے مقاصد کی تکمیل کی خاطر اکیسویں صدی کے گلوبل ویلیج کا حصہ نہیں بننا اور دور اپنی کچی ڈھوک پر بیٹھے جہالت اور علم دشمنی کے پرچم بلند رکھنے ہیں تو اس کا تو کوئی علا ج نہیں ۔ البتہ اگر ہم میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی تڑپ ہے تو یقین مانئیے کہ کوئی طاقت ہماری منزل کھوٹی نہیں کر سکے گی۔تاہم یاد رہے کہ قائداعظم کے خوشحال اور علم دوست پاکستان کی جانب تنگ نظری اور شدت پسندی کے پتھریلے رستے نہیں جاتے ۔ یہ منزل سر کرنے کے لیے ہمیں علم ،رواداری ، انسان دوستی ، وسیع القلبی ،معقولیت ، مکالمہ ، آزادی اظہار ،دلیل اور منطق کے رستوں کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ انہی گل پوش راہوں کے مسافر آج دنیا میں مہذب اور ترقی یافتہ بھی کہلاتے ہیں اور دنیا پر حکومت بھی کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں نے تجربے سے ثابت کیا ہے کہ جب اجتماعی شعور اجاگر ہو جائے تو چند سادہ سے اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر اس دشتِ وفا کی تسخیر مشکل نہیں رہتی ۔
پہلے بھی کبھی عرض کیا تھا اور باردگر عرض ہے کہ بڑی سادہ اور عام فہم سی بات ہے صاحب ! اگر میرے گھر کی خواتین پردہ کرتی ہیں تو مجھے مبارک۔ اگر پڑوسی کے ہاں یہ رواج نہیں تو وہ جانے اور اس کا خدا۔ ریاست کی منتخب پارلیمان نے اس بارے اگر کوئی قانون بنایا ہے تو اس کا نفاذ بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے ۔ مجھے قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ پڑوسی پر تلوار سونت لوں ۔ کیا خبر کہ وہ کلین شیو مجھ سے زیادہ با ضمیر، مہذب ،دیانتدار اور حقوق العباد ادا کرنے والا ہو اور کیا عجب کہ میرے نورانی چہرے کی اوٹ میں بخل ، منافقت ،حرص اور ریا پھن لہرائے بیٹھے ہوں۔ یہ فیصلہ تو روزِ محشر خالق نے خود کرنا ہے کہ ہم دونوں میں سے کون جزا کا حقدار ہے اور کون سزا کا۔ دوسروں پر اپنا موقف ٹھونسنا اور انہیں جبراً ہانکنے کی خواہش رکھنا پرلے درجے کا غیر مہذب رویہ ہے ، جو معاشرتی بگاڑ اور انتشار کا سبب بنتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں قانونی دائرے میں رہ کر ذرائع ابلاغ، وعظ و تبلیغ اور مکالمے کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کرنے کا ہر کسی کو حق حاصل ہے ۔
جذبات کے بگولوں پر سوار ہوکر کسی کے گروہی مفادات کا ایندھن بننے کی بجائے ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر ہمیں اپنی تہذیبی اقدار پر اعتماد کیوں نہیں کہ جو محض عورتوں کی میراتھن ریس سے خطرے میں پڑ جاتی ہیں ؟ ہمارا ایمان اتنا کمزو رکیوں ہے کہ ٹی وی کے اشتہارات یا فیشن شو دیکھ کر ڈگمگا جاتا ہے ؟ ہمارے جذبات اتنے شتر بے مہار کیوں ہیں کہ موسیقی کا کوئی پروگرام دیکھ کر مجروح ہونے لگتے ہیں؟ ہماری غیرت اتنی جاں بلب کیوں ہے کہ اپنی کسی اداکارہ کا غیر ملکی فلم میں کوئی سین فلمانے سے اس کا جنازہ نکل جاتا ہے ؟ ہمارے ہاں ایک خون آشام مخلوق اور ان کے سفاکانہ نظریات کے خاتمے کے مطالبات کو بے حیائی کے فروغ سے کیوں جوڑا جاتا ہے ؟ لبرل ازم اور سیکولر ازم ایسی معتبر اصطلاحات کو فحاشی کیوں قرار دیا جاتا ہے اور منطق ،دلیل اور مکالمے کو دین سے دوری سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے ؟ آخر ہمارے پاس یہ جانچنے کا کیا معیار ہے کہ خدا کے نزدیک جینز پہننا زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے یا آمریت کی چاکری؟ اپنی تہذیبی روایات سے روگردانی بڑا گناہ ہے یا اشرف المخلوقات کی تذلیل اور قتل و غارت کرنے والوں سے ہمدردی؟ اپنے گلے میں گٹار ڈالنا قابل گرفت ہے یا دوسروں کے گلے کاٹنا؟ کیٹ واک زیادہ حیا سوز حرکت ہے یا تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑاناـ؟
صحت مند اور مثبت رویہ یہ ہے کہ ہم کھلے دل سے خود کو گلوبل ویلیج کا مکین اور اس کے تقاضوں کو تسلیم کرلیں اور نان ایشوز پر اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے اپنے آپ میں جدید دنیا کے ساتھ چلنے کا شعور پیدا کریں۔ ہمیں جدید علوم ، غوروفکر ، برداشت ، توازن ، اعتدال ،وسیع النظری اور باہمی و قانون کے احترام جیسے مہذب اور مثبت رویوں کی طرف جانا ہوگا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم و تربیت کی کمی اور جہالت کی فراوانی ہے ، ہمارے ہاں صحت کی سہولتیں ناپید ہیں ، انصاف اور بنیادی حقوق ہم سے کوسوں دور ہیں ، شخصی آزادیوں کاہم نے منہ نہیں دیکھا، لاقانونیت اور کرپشن ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی ہے ، عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ، بے تحاشہ بڑھتی آبادی ہمارے محدود وسائل کو گھن کی طرح کھا رہی ہے اور آمریت نے ہمیں بین الاقوامی سطح پر بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ دریں حالات ہمارا مسئلہ فحاشی نہیں ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا طوفان ہے ۔ہمارے لیے فیشن شوز یا موسیقی کے کنسرٹ نہیں بلکہ پینے کا گندہ پانی زہر قاتل ہے ۔ کوئی دوسری تہذیب اپنانا نہیں بلکہ کم ترین شرح خواندگی ہمارے لیے شرمناک ہے ۔ ہمیں کسی میراتھن ریس پر گریہ نہیں اپنے حقوق اور وسائل غصب ہونے پر ماتم کرنا چاہیے ۔ ہمیں بے حیائی کے خاتمے سے زیادہ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ اور جعلی ادویات کے خاتمے کی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مذہبی رجحان رکھناجرم ہے نہ لبرل تہذیب اپنانا۔ قابل گرفت اور قابل مذمت جرائم اپنی قانونی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرنا ، جبرو تشدد کے ذریعے مخلوق خدا پر اپنے نظریات مسلط کرنا،مقدس ہستیوں کی توہین کرنا ،ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کرنا، دوسروں کے حقوق غضب کرنا، ٹیکس چوری اور خیانت ہیں،چاہے ان میں کوئی لبرل ملوث ہو یا مذہبی رحجان رکھنے والا۔
حرف آخر یہ ہے کہ جس دن ہم نے خدا اور بندے کے درمیان تعلق میں دخل اندازی ترک کردی اور دوسروں کے افعال اور ایمان کا مشاہدہ کرنے کی خو چھوڑ کر اپنے گریبان میں جھانکنے کی روش اپنا لی ، اسی دن قائداعظم کے وسیع النظر پاکستان کی جانب ہمارا سفر شروع ہو جائے گا۔ ہم بہت پہلے اس سفر کا آغا زکر سکتے تھے مگر ہمارا المیہ اشرفؔ نقوی والا ہے کہ :
فاصلہ دل کا تھا دہلیز سے دو چار قدم
میں نے رستے میں مگر عمر فنا کر دی