سروس روشنی ، پیغام اندھیرا

میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بجلی کے حالیہ بحران کے حوالے سے تواتر سے خبریں آ رہی ہیں کہ ملک بھر میں شہروں میں 8 اور دیہات میں 12 گھنٹے تک کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیہات میں اس لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16 سے 18 گھنٹے تک کا ہے۔ گاہے اس سے بھی زیادہ... حسبِ معمول، حسبِ روایت، حسبِ عادت اور حسبِ وعدہ۔ حسبِ وعدہ اس لیے لکھا ہے کہ ہمارے وہ بزرگ جنہوں نے بجلی کے انتظار میں آنکھیں سفید کی ہیں، انہیں جب کوئی اس بحران کے خاتمے کی نوید دیتا ہے تو وہ اسے لوڈ شیڈنگ جاری رکھنے کا پکا وعدہ سمجھتے ہیں۔ 
کیا ستم ظریف سا لطیفہ ہے کہ ''روشنی‘‘ کے نام سے واپڈا نے ایک دلچسپ موبائل میسج سروس متعارف کرائی ہے۔ صارفین کو ہر دوسرے دن میسج آتا ہے کہ بجلی بند رہے گی۔ گویا سروس ''روشنی‘‘ اور پیغام ''اندھیرا‘‘... ہمارا علاقائی دکھڑا مشتے از خروارے ہے کہ ہمارے بیس سے زیادہ بدقسمت دیہات بھگوال گائوں کے گرڈ اسٹیشن سے منسلک ہیں، جہاں ایاز امیر صاحب کا دولت خانہ بھی واقع ہے۔ ہمارا عاجزانہ سا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں یہ سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کرنے والا گرڈ اسٹیشن ہے، کبھی بنام لوڈ منیجمنٹ، کبھی بحیلہ مرمتِ تاراں، کبھی بحوالہ بندش مین سپلائی اور کبھی بروئے خرابی بجلی۔ تاہم سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن
سنگھ کا آبائی گائوں ''گاہ‘‘ اس گرڈ اسٹیشن کی حدود میں ہونے کے باوجود اس کی چیرہ دستیوں سے بڑی حد تک محفوظ ہے کہ انڈین حکومت نے وہاں سولر انرجی کے پلانٹ نصب کر رکھے ہیں۔ ویسے تو بارہ مہینے ہی لوڈ شیڈنگ کبھی ہم سے منہ نہیں موڑتی اور ''ہر اک رُت میں تری آہٹوں کی بارش ہے‘‘... لیکن گرمیوں میں تو اس کی جولانیاں اور رعنائیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ ہر سال بہار اور بجلی کا بحران ساتھ ساتھ آتے ہیں تو ماحول کیف آفریں سا ہو جاتا ہے۔ آج ایک دفعہ پھر جانفزا بہار کا حسن بھی عروج پر ہے اور اودھم پرور لوڈ شیڈنگ بھی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ لالہ و گل کی شادابیاں بھی سحر آگیں ہیں اور بجلی کی مسلسل بندش بھی نشاط قلب کا ساماں کیے جا رہی ہے۔ بادِ بہاری بھی دلوں کو لبھاتی ہے اور بجلی کی نگاہِ شریر بھی قلوب کو گرمائے جاتی ہے۔ اس دلفریب رُت میں کلیاں بھی چٹخ رہی ہیں اور مچھروں کے کاٹنے سے ہاتھ اور پائوں بھی '' پھولے نہیں سما رہے‘‘ بلبل بھی حسن گل پر نغمہ سرا ہے اور الیکٹرک سپلائی کی معطلی بھی دلوں کے تار چھیڑتی ہے، گویا ''چاند بھی عین چیت کا، اس پر ترا جمال بھی‘‘...
بجلی کے اس مایہ ناز بحران کو کیسے کیسے جوہر کامل سے شفقت نصیب ہوئی... 2012ء میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے... 2017ء میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی... چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے... دو سال میں یہ کر دکھائیں گے... ہم نے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا کبھی وعدہ نہیں کیا... لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے قوم بارش کی دعا مانگے... ہم نے بجلی کی پیداوار میں پانچ ہزار میگاواٹ کا اضافہ کیا ہے... ہمارے بجلی کے منصوبوں سے ملک میں انقلاب آ جائے گا... آج ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ اس سال کے آخر تک لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی تو دوسری طرف وزیر مملکت برائے پانی و بجلی کہتے ہیں کہ آئندہ سال مارچ تک یہ معجزہ کر دکھائیں گے۔ تیسری طرف وزیر مملکت برائے اطلاعات دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم روشن پاکستان بنا رہے ہیں۔ چوتھی طرف عوام جو کچھ کہتے ہیں، وہ ناقابل اشاعت ہے۔ کسی نامعلوم طرف سے جناب عابد شیر علی آ کر لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کہیں بھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی۔ ایک اور سمیت سے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کی آواز آتی ہے کہ اضافی لوڈ شیڈنگ جاری رہے گی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس لوڈ شیڈنگ زدہ ملک میں جو چند ایک روشنیاں باقی رہ گئی ہیں، وہ انہیں مضبوط اعصاب لوگوں کی وجہ سے ہیں، جو تاریک رات کو دن ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ 
جرمنی کے ایک انجینئر نے کٹاس راج مائننگ کالج کے سیمینار میں ذمہ داری سے کہا تھا ''اگر پاکستان کوئلے کا صحیح استعمال سیکھ لے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ترقی یافتہ ممالک میں شامل نہ ہو سکے‘‘۔ 2013ء میں برطانوی جریدے ٹائمز نے کہا کہ پاکستان پانی اور ہوا سے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ صوبہ سندھ میں ہوا کی وہ پٹی موجود ہے جو پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا پوٹینشل رکھتی ہے... مگر یہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، آئی پی پیز کو عدم ادائیگیاں ہیں، یونس ڈھاگوں کی تبدیلیاں ہیں، قدیم المیعاد اور دائم المیعاد پاور پلانٹس پروجیکٹ ہیں، سروس روشنی اور پیغا م اندھیرا برانڈ لطیفے ہیں اور ہم ہیں دوستو... وائے حسرتا! مریخ پر آلو کاشت کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹ بھی دور ہو گئی مگر ہماری بجلی پوری نہ ہو سکی۔ باقرؔ وسیم کی ایک نظم سنیے۔ اپنے اور ٹرالی کے دو دو پہیوں پر مشتمل چین کی اس چھوٹی سی عجیب الخلقت ٹریکٹر نما لوڈر گاڑی کا اصل نام تو پتہ نہیں کیا ہے مگر کثرت استعمال سے ''ڈانگ فانگ‘‘ مشہور ہو گیا ہے۔ باقر ؔ کہتے ہیں:
بے سلیقہ چل رہا ہے زندگی کا ڈانگ فانگ 
پُلس کی چالان بک کی دسترس سے بے خطر 
بے تحاشہ دھواں اگلتی جا رہی ہے زندگی 
اور سفر کی یہ طوالت جلد کٹنے کی نہیں 
دل کی سڑکوں پر رواں ہیں زرد پیلی نفرتوں کے چِنگچِی 
پیار تانگے کی طرح مفقود ہے 
شہر میں تو روشنی کا حال کافی ٹھیک ہے 
گائوں پہلے کی طرح تاریک ہے 
اوج کے گہنے کسی بھی گائوں نے پہنے نہیں 
اور تنز ل کے جھل تھڑے اترے نہیں 
اس زبوں حالی پہ اپنے من کا ستیاناس ہے 
رہنمائوں کو مگر ترقی کا احساس ہے 
اسمبلی کا آج پھر اجلاس ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں