براہِ کرم دیگچیو ں سے بم برآمد نہ کریں

یہ چودہ اگست 2009ء کو معاصر میں چھپنے والا ایک کالم ہے ۔ اپنے عہد کے دبنگ اور بیدار مغز صحافی عباس اطہر مرحوم نے جیدایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی ایک تقریر کا وہ حصہ نقل کیا ہے ، جس میں انہوں نے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے دوران رونما ہونے والا ایک ایمان افروز واقعہ سنایا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ واقعہ کا خلاصہ کچھ یوں ہے ۔
'' جب خاران میں آخری ایٹمی تجربہ ہوا تو دن کے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت اور درجہ حرارت 50یا55ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ریگستان میں ایئر کنڈیشنڈ کنٹینر میں ہم 25،30سائنسدان اور انجینئر تھے ۔ میں نے اپنے ایڈمنسٹریٹر سے پوچھا کہ کھانے کا کیا انتظام ہے ؟ اس نے بتایا کہ قریبی چھوٹے سے قصبے ''یخ مچ‘‘ سے بمشکل پانچ مرغیاں ہی حاصل ہو سکی ہیں جو ہم نے پکا دی ہیں ، باقی بلوچستان کے اس ریگستان میں تین تین سو کلومیٹر تک کوئی انسان نہیں ہے ۔ لہذا جو بنا ہے وہ کھا لیں ۔ باورچی نیچے بیٹھ کر کھانا ڈالتا گیا، ہم کھاتے گئے اور کھانا کھا کر اٹھ گئے ۔ مجھے کسی نے بتایا کہ باہر اسکول کے بچے اور ان کے والدین آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ میں باہر آیا تو ایک درخت کے نیچے 25، 30لوگ کھڑے تھے ۔ جب میں ان کا شکریہ ادا کر کے واپس آ رہا تھا تو ہمارے کنٹینر سے کچھ مقامی لوگ کھانا کھا کر نکل رہے تھے ۔ میں نے باورچی سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ اپنا کھانا لے کر آئے تھے ؟ وہ بولا کہ نہیں ۔ میں نے کہا کہ تم شوربے میں پانی ، نمک اور مرچ ڈال ڈال کر ان کو کھلاتے جا رہے ہو۔ اس سے ہماری بد نامی ہو گی ۔ جواب میں باورچی نے مجھے اپنی جگہ فرش پر بٹھایا اور کہا کہ دیگچی میں چمچا ہلائیں ۔ میں نے چمچا ہلایا تو دیگچی مرغی کی بوٹیوں سے اتنی بھری ہوئی تھی کہ چمچا نہیں ہل رہا تھا ۔ تب باورچی بولا کہ ابھی تک 183لوگ کھانا کھا چکے ہیں اور کھانا ویسے کا ویسا ہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اللہ کا نظام ایسا ہے کہ جب آپ اس پاک وطن کے دفاع کے لیے ایک قدم بڑھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ چار قدم آگے بڑھ کر آپ کی مدد کرتا ہے ‘‘۔
عباس اطہر نے اس واقعہ پر یہ تبصرہ کیا کہ کوئی شک نہیں ڈاکٹر ثمر مبارک مند ایٹمی سائنسدان ہیں ۔ اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھنے کے بعد شاید وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں کہ لمبے چوڑے آلات اور لیبارٹریاں وغیرہ استعمال کرنے کی بجائے وہ کوئی ایسی دیگچی بھی تلاش کر سکتے تھے جس سے بنا بنایا ایٹم بم نکل آئے ۔ شاہ جی نے ڈاکٹر صاحب سے درد مندانہ اپیل کی کہ وہ یہ واقعہ اپنے تک ہی محدود رکھیں ورنہ آنے والی نسلوں سے کوئی ایسا سائنسدان بھی برآمد ہو سکتا ہے جو ٹوکری کے نیچے مرغی کا انڈہ رکھے اور باہر نکالنے پر وہ ایٹم بم بن چکا ہو۔ 
یہ گیارہ اپریل 2017ء کو معاصرمیں چھپنے والا ایک اور کالم ہے ۔ اس دور کے نامور محقق اور تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود نے ملک کے معتبر دانشور اوریا مقبول جان کے ایک ٹی وی پروگرا م کے حوالے سے ایک روح پرور واقعہ لکھا ہے ۔ پروگرا م کے شرکاء علامہ اقبال کی بیٹی منیرہ اور ان کے دو صاحبزادگان نے تصدیق کی کہ انہوں نے یہ واقعہ اقبال کے ملازم علی بخش سے سنا تھا ۔ علی بخش نے انہیں بتایا کہ ایک رات تین بجے اسے علامہ نے اٹھایا ۔ وہ کیا دیکھتا ہے کہ کمرے میں ایک نہایت نورانی اور مقناطیسی باریش شخصیت علامہ اقبال سے محو گفتگو ہے ۔ علامہ نے علی بخش سے دو گلاس لسی لانے کو کہا تو علی بخش نے جواب دیا کہ اس وقت تو بازار بند ہے ۔ اقبال نے کہا کہ تم بازار جائو کوئی نہ کوئی دکان مل جائے گی ۔ علی بخش بازار گیا تو پر نور چہرے والا ایک دکاندار اپنی دودھ دہی کی دکان کھولے بیٹھا تھا ۔ علی بخش نے لسی لے کر ادائیگی کرنا چاہی تو دکاندار نے کہا کہ پھر لے لیں گے ، ہمارا اقبال سے حساب چلتا رہتا ہے ۔ بعد ازاں علی بخش کے پر زور اصرار پر علامہ اقبال نے بتایا کہ جو ہستی اس وقت میرے کمرے میں تشریف فرما تھی ، وہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒتھے اور جو شخصیت رات تین بجے دودھ دہی کی دکان کھولے بیٹھی تھی ، وہ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒتھے ۔ یاد رہے کہ علی بخش نے اقبال کی ہدایت کے مطابق ان کی رحلت کے بعد اس راز سے پردہ اٹھایا تھا ۔ 
ہمیں ان ایمان افروز روحانی واقعات کی حقانیت میں رَتی برابر شبہ نہیں ۔ یقینا ایسا ہی ہوا ہو گا...مگر ہم نے ابھی شعور کی منازل طے نہیں کیںاورایسے سچے واقعات سے ایک نیم خواندہ قوم جو اثرات لیتی ہے اس پر غور کرنے سے روح کانپ جاتی ہے ۔ ہمارا المیہ عباس اطہر والا ہے کہ ہماری نسلیں توہم پرستی ، پیر پوجا ، تعویذ دھاگے ، کالے علم ، جن نکالنے اور ڈالنے جیسے چکروں میں پکڑ کر بربادہوتی رہی ہیں اور برباد ہو رہی ہیں ۔ ہم جعلی پیروں کی جعلی کرامات کو بھی حقیقی روحانیت کے اسی پلڑے میں رکھ کر اپنی بربادی کا ساماں کرتے ہیں ۔ دو نمبر پیر اور بہروپیے روحانیت کی آڑ میں جس طرح ہمارا جذباتی استحصال کرتے ہیں ، اس کی حالیہ خوفناک مثال سرگودھا کے سفاک جعلی پیر عبدالوحید کے مظالم ہیں، جس نے بیس بے گناہ سادہ لوح ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیئے ۔ ہمارے ایسے سادہ دل دور دراز سے سائیں مستی سرکار علی محمد گجر کی درگاہ پر آتے ، مزار پر سلام کرتے اور خلیفہ سرکار سائیں عبدالوحید قلندر سے اپنے گناہ جھڑوا کر واپس جاتے ۔ وہ مردوزن کو بے لباس کر کے ، چھڑیاں مار مار کر ان کے گناہ جھاڑتا تھا ۔ پھر اس نفسیاتی مریض نے آخری خونی روحانی تجربہ کیا اور بے گناہوں کو قتل کر کے انہیں دوبارہ معصوم بچوں کی طرح پاک صاف حالت میں زندہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ التباسات کی اس ''روحانی دنیا‘‘ ہی نے انتہا پسندی اور کافر گری کو فروغ دیا ہے اور خود کش بمباروں کی مینو فیکچرنگ انڈسٹری کی اساس بھی یہی ہے ۔ مفاد پرست ہمیں غیر حقیقی دنیا میں جا بساتے ہیں اور ہم سوچ کی آزادی ان کے پاس رہن رکھ کر روبوٹ بن جاتے ہیں۔ شدت پسندی کے اس خونی عفریب کا تازہ شکار مردان یونیورسٹی کا خوبصورت نوجوان مشال خان بنا ہے ۔ 
بلا شبہ اولیائے کرام نے رشد و ہدایت کے نہ بجھنے والے چراغ جلائے ہیں مگر ان چراغوں کی غلط توجیہہ ہمیں اندھیروں کی طرف لے جا رہی ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے زودفہم دانشوروں سے اپیل کریں کہ اولیائے کرام کی صحیح تعلیمات اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اکیسویں صد ی کے ڈیجیٹل زمانے میں ہمارے بچوں کو جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کی بھی اشدضرورت ہے ، جس کے بغیر ہماری پاکیزہ زندگیوں کا ایک لمحہ بھی گزارنا محال ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے مگر صرف ان بندوں کی ،جو علم و عمل کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ ہم نے یہ قدم بڑھایا تو ایٹم بم حاصل کیا، ورنہ دم درود سے تو تاقیام قیامت کسی دیگچی سے بم تو کجا ،ابلا انڈہ بھی برآمد نہیں ہو سکتا تھا ۔ 
اب ہم اور کیا عرض کریں۔ اپنے جید سائنسدانوں ، معتبر دانشوروں اور نامورمحققین سے دست بستہ درخواست ہے کہ ہم ایک ضعیف الاعتقاد قوم ہیں ، جس نے خود فریبی سے شغف پایا ہے ۔براہِ کرم ہمیں اولیائے کرام کی حقیقی تعلیمات سے ضرور آگاہ کریں مگر خدارا اپنی دیگچیوں سے ہمارے لیے اتنے بڑے بڑے بم برآمد نہ فرمائیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں