سلمیٰ: (حشر گلفشانی کی بہو) کیا فائدہ ابا جی! گھر میں نوکروں کی فراوانی ہے مگر ...
حشر گلفشانی: ہائیں، ضمیروں کی نیلامی ہے، آج پھر ضمیروں کی نیلامی ہے؟ بھئی واہ! اس منڈی میں کبھی مندا نہ ہوا۔
سلمیٰ: (اونچی آواز میں) ضمیروں کی نیلامی نہیں ابا جی! ملازموں کی فراوانی کہا ہے، ملازموں کی فراوانی۔
حشر گلفشانی: اچھا اچھا جھوٹوں کی راجدھانی۔ صحیح کہا بیٹا، بالکل صحیح۔ یہ ہے ہی جھوٹوں کی راجدھانی۔ جلسوں میں جھوٹ، میڈیا میں جھوٹ، عدالتوں میں جھوٹ۔ عدالتی فیصلوں کی تشریح پر ہی کیا موقوف، ہم تو دس دس ارب کے جھوٹ بھی آسانی سے بول جاتے ہیں۔ بجلی کے منصوبوں کے جھوٹ دہراتے ہوئے بھی ذرا نہیں شرماتے۔ ارے ہم تو اپنے بچوں کو بھی جھوٹی تاریخ پڑھاتے ہیں بیٹا۔
سلمیٰ: خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ابا جی! ہمارے ہاں ہمیشہ کی طرح سچائی مقبول ہے۔
حشر گلفشانی: سچ کہا، سچائی مقتول ہے، یہاں ہمیشہ کی طرح سچائی مقتول ہے۔
انتظار علی: (حشر گلفشانی کا بیٹا) ایک تو آپ کان سے اپنا آلہ سماعت اتار دیتے ہیں ابا جی اور پھر بات کا ایسا خطرناک مطلب نکالتے ہیں کہ اللہ معافی۔ سلمیٰ کہہ رہی ہے کہ گھر میں نوکروں کی بہتات ہے مگر سب کام چور ہیں۔ بے شرم اور بے کار لوگ۔
حشر گلفشانی: ہیں، درہم اور دینار کے لوگ؟ پھر آ گے درہم و دینار؟ ڈالر بھی آئے ہوں گے۔ تبھی تو میں کہوں کہ 77ء جیسی احتجاجی تحریک کی دھمکیاں کیوں مل رہی ہیں؟
سلمیٰ: خدا کا خوف کریں ابا جی! میں کہہ رہی ہوں کہ آپ قالین پر اتنا گند ڈالتے ہیں مگر ملازم اسے صاف تک نہیں کرتے۔ اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ اسے کسی لانڈری میں دھلنا چاہیے۔
حشر گلفشانی: لانڈری میں دھلنا چاہیے؟ نہیں بیٹا نہیں، یہی تو کہا ہے عدالت نے کہ سیاسی گند عدالتی لانڈری میں نہیں دھلنا چاہیے۔ یہاں بہت گند ہے بیٹا سب اداروں میں۔ ادارے اپنا گند دھوئیں یا دوسروں کا؟
سلمیٰ: اسے چھوڑیں ابا جی! یہ قانون کا معاملہ ہے۔
حشر گلفشانی: نون کا معاملہ ہے، بالکل نون کا معاملہ ہے۔ اصل معاملہ ہی نون کا ہے بیٹا! باقی سب تو لانڈریوں میں دھل کے آئے ہیں۔
انتظار علی: (اونچی آواز میں) قالین کے گند کی بات ہو رہی ہے ابا جی! اس قالین کے گند کی۔
حشر گلفشانی: یہی تو میں کہہ رہا ہوں بیٹا کہ یہاں لوگ اپنا گند دھونے کی بجائے قالین کے نیچے چھپا دیتے ہیں یا پھر اپنا گند دوسروں پر اچھال دیتے ہیں۔
انتظار علی: حکمران کہتے ہیں کہ یہ گند دھونے کی کوشش کی گئی تو ترقیاتی کام رک جائیں گے۔
حشر گلفشانی: کون رک جائیں گے؟ کوئی بھی نہیں رکے گا اب بیٹا! تم دیکھ لینا جے آئی ٹی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گی۔
سلمیٰ: جے آئی ٹی پر ہی مستقبل کا دار و مدار ہے۔
حشر گلفشانی: اصطبل کا کاروبار ہے؟ کیا پھر اصطبل کا کاروبار شروع ہونے والا ہے؟
انتظار علی: ابا جی آپ کا دماغ بھی منفی باتوں پر یوں چلتا ہے، جیسے پن چکی۔
حشر گلفشانی: ہائیں، ضیاء الحقی؟ ارے کیا پھر کوئی ضیاء الحقی ہو گئی ہمارے ساتھ؟ یا اللہ خیر! ویسے پلان کیا ہے؟
سلمیٰ: ہمیں کیا پتہ ابا جی! کوئی نیا پلان ہو گا۔
حشر گلفشانی: نیا پاکستان ہو گا؟ پھر ایک نیا پاکستان ہو گا؟ کمال ہے بھئی آخر ہم اتنے سارے پاکستانوں کا کریں گے کیا؟ میرا تو خیال ہے کہ قائد اعظم والا پرانا پاکستان ہی بحال کر دیں تو ایک یہی کافی ہے ہمارے لیے۔
انتظار علی: مقدر سے کس کو مفر ہے ابا جی!
حشر گلفشانی: کیا کفر ہے؟ انتظار علی کیا تم بھی کفر کے فتوے دینے لگے ہو، شاوش اے بھئی۔
سلمیٰ: آپ سے بات کرنا بھی نری خجالت ہے؟
حشر گلفشانی: عدالت ہے؟ عدالت کہاں سے آ گئی بیچ میں؟
انتظار علی: توبہ توبہ! عدالت کا خجالت سے کیا تعلق ابا جی؟ یہ عدالت نہیں خجالت کہہ رہی ہے، خجالت۔
حشر گلفشانی: اچھا جہالت۔ صحیح کہہ رہی ہے۔ بہت جہالت ہے یہاں۔
سلمیٰ: (اونچی آواز میں) خجالت، ابا جی خجالت۔
حشر گلفشانی: اچھا اچھا ایک ہی بات ہے بیٹا! جہالت کی وجہ ہی سے تو ہمیں دنیا میں خجالت کا سامنا ہے۔
سلمیٰ:مجھے تو معاف ہی رکھیں ابا جی۔ آپ اپنے بیٹے سے باتیں کریں، میرے ہسبینڈ سے۔
حشر گلفشانی: ڈسٹ بِن سے؟
سلمیٰ: (اٹھ کر آلہ سماعت گلفشانی کے کان میں لگاتے ہوئے) ویسے میری ساس محترمہ آپ کو ٹھیک ہی ڈسٹ بِن کہتی تھیں۔
حشر گلفشانی: (ہنستے ہوئے) کیا یاد دلا دیا۔ مرحومہ نیم خواندہ تھیں مگر میرا کی طرح انگریز ی بولنے کی شوقین۔ ان سے عمر بھر لفظ ہسبینڈ یاد نہ ہو سکا۔ مجھے ہمیشہ ڈسٹ بِن ہی کہا کرتیں۔ میں انہیں کہتا کہ ڈسٹ بِن کا مطلب ردی کی ٹوکری ہے تو جواب میں فرماتیں کہ مجھے تو یہی لفظ یاد ہے اور یہی تمہارے لیے مناسب ہے۔
سلمیٰ: آپ کی ان سے ہمیشہ اَن بَن ہی رہی، کیا وجہ ہے؟
حشر گلفشانی: (کان سے آلہ سماعت اتارتے ہوئے) بات یہ ہے بیٹا کہ تمہاری ساس دائیں بازو سے تعلق رکھتی تھیں اور میں بائیں بازو سے۔ مرحومہ دائیں ہاتھ سے ہر کام کرتی تھیں اور میرا انہیں بائیں ہاتھ سے چیزیں پکڑنا بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ ایک دن میں نے ان سے بحث کرنے کی کوشش کی کہ بندہ جس ہاتھ سے مرضی کام کرے، دوسرے کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ بس اتنی سی بات پر مرحومہ نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا لکڑی کا چمچہ اس زور سے میرے منہ پر مارا کہ میرا سامنے والا دانت ٹوٹ گیا اور میں اپنے بائیں ہاتھ سے ان کی اس حرکت کو کئی دن تک چھپاتا رہا۔ بس یاد رکھو بیٹا! کبھی بھی کسی دائیں بازو والے سے عقلی بحث نہ کرنا، ورنہ دانتوں کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
سلمیٰ: (ہنستے ہوئے) ابا جی آپ کی باتیں بھی پھولوں بھرا گلدان ہیں، قسم سے۔
حشر گلفشانی: بالکل منصوبہ بندی کا فقدان ہے بیٹا! ورنہ ملک کی یہ حالت ہوتی؟