1972-73ء کی بات ہے ۔ محمد افضل کہوٹ ڈپٹی کمشنر شیخو پورہ تعینات تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو صدر مملکت اور غلام مصطفی کھر گورنر پنجاب کی کرسی پر متمکن تھے ۔ مشہور واقعہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد پولیس کے ہاتھوں نظر بند ہوئے تو ان کے ساتھ ناروا رویے کی شکایات آئیں ۔ اس '' حسن سلوک‘‘ کے خلاف احتجاج پر سرکار نے ڈپٹی کمشنر شیخو پورہ کو انکوائری آفیسر مقرر کیا۔ اب ظاہر ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے خلاف رپورٹ بالواسطہ حکومت کے خلاف رپورٹ ہو تی ، سو لا محالہ انکوائری آفیسر پر دبائو تو ہو گا۔ تاہم انکوائری آفیسر نے شہادتوں اور حالات و واقعات کی روشنی میں میرٹ پر رپورٹ لکھی اور اس بات کو بعد ازاں اپنے ایک انٹرویو میں میاں طفیل محمد نے بھی تسلیم کیا۔
یقینا آپ کو یہ واقعہ پھیکا لگا ہو گا لیکن محرم راز جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کہوٹ صاحب نے سنسر کے بعد بھی بمشکل اتنی ہی اجازت دی ہے ورنہ قصہ تو بڑا ''توانا ‘‘ تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ تک اس دبنگ بیوروکریٹ کا سفر ہے تو بڑا پر پیچ اور معلوماتی مگر بد قسمتی سے وہ ان افسران میں سے نہیں ہیں جو اپنی سروس کے دوران قدم قدم پر جابر حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے اور انہیں بلا خوف صحیح رستے پر چلنے کے مشورے دینے کی اپنی داستانیں دراز کرتے نہیں تھکتے ۔ بلا شبہ آج بھی ایسے ایماندار اور نیک افسر موجود ہیں مگر بہت تھوڑے ۔ صدر یا گورنر کی بات کو نظر انداز کرنا تو دور کی بات ہے ، اب تو اکثر سول افسران مقامی ممبران اسمبلی کا حکم بھی نہیں ٹال سکتے کہ عوامی نمائندوں کی خوشنودی ہی ان کے عہدوں کی ضمانت ہے ۔ اس اخلاقی زوال کے پیچھے انتظامیہ میں بڑھتی سیاسی مداخلت کے کلچر کے علاوہ کچھ دوسرے عوامل بھی کار فرما ہیں ۔
فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے سی ایس ایس 2016ء کے نتائج کے مطابق مختلف آکیو پیشنل گروپس اور کیڈرز کی 199دستیاب اسامیوں پر صرف 202امیدوار ہی پاس ہو سکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ تحریری امتحان میں 9643امیدوار پیش ہوئے ، جن میں سے صرف 202ہی پاس ہو سکے اور انہوں نے انٹرویو بھی کلیئر کر لیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے برعکس مقابلے کی فضا ختم ہو رہی ہے اور جتنے امیدوار پاس ہو رہے ہیں ، ان سب کو ملازمت مل رہی ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2014ء میں مجموعی امیدواروں کی 3.3فیصد اور 2015ء میں 1.3فیصد تعداد ہی پاس ہو سکی ۔ ایک سینئر صحافی نے اپنے تجزیے میں ایک سینئر بیوروکریٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے 1990ء کے بیج میں سی ایس ایس کے امتحان میں تقریبا ً دس ہزار امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سے تحریری امتحان اور انٹرویو میں ایک ہزار امیدوار پاس ہوئے ۔ مقابلے کا یہ عالم تھا کہ پاس ہونے والے ایک ہزار امیدواروں میں سے صرف 126ہی ایسے تھے ، جو 12آکیو پیشنل گروپس میں دستیاب اسامیوں پر منتخب ہو سکے ۔ گویا 9سے10امیدوار ایک اسامی پر مقابلہ کر رہے تھے لیکن آج ہر اسامی پر تقریباً ایک امیدوار ''مقابلہ‘‘ کر رہا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو رہا۔
نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سنٹرل سپیریئر سروسز کے لیے مقابلے کی فضا برقرار نہیں رہی اور یہ بہترین سے بہترین افراد کے لیے مقابلے کے امتحان کی بجائے اوسط درجے کا امتحان بن چکا ہے ۔ سی ایس ایس کا امتحان کلیئر کر کے سرکاری ملازمتوں میں آنے والوں کو معاشرے کی کریم کہا جا تا ہے ۔اب جب کہ امتحان اوسط درجے کا بن چکا ہے تو ظاہر ہے کہ کریم بھی ایسی ہی ہو گی ۔ بارِ دگر عرض ہے کہ یہ فارمولا ہر افسر پر لاگو نہیں ہوتا۔ بلاشبہ آج بھی مختلف محکموں میں قابل اور فرض شناس افسران موجود ہیں ، جن کی وجہ سے اداروں کی کچھ ساکھ برقرار ہے ۔ البتہ اگر آپ کو سرکاری دفاتر سے واسطہ پڑتا ہے تو یقینا آپ مجموعی صورتحال کو قابل رشک قرار نہیں دیں گے ۔ کوٹ مومن کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر کا حالیہ افسوسناک رویہ مشتے نمونہ از خروارے ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ ایک کالج میں امتحانی سنٹر چیک کرنے گئیں تو پرنسپل کی کرسی پر بیٹھ کر کالج اساتذہ سے توہین آمیز سلوک روا رکھا۔یہی نہیں بلکہ ایک سینئر پروفیسر کے احتجاج پر انہیں گرفتار بھی کرا دیا۔ صحیح صورتحال تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اے سی صاحبہ کا موقف درست ہو کہ اساتذہ نے ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ تاہم پرنسپل کی کرسی پر بیٹھنا اور استاد کو گرفتار کرنے کا حکم دینا ان کے اپنے منصب کی بے توقیری ،اختیارات و فرائض سے عدم آگاہی اور کریم ہذا کی کوالٹی کا ثبوت ہے ۔
اعتراض کیا جا رہا ہے کہ جب ہر شعبہ ہی رو بہ زوال ہے تو فقط سول سروس کو نشانہ بنانا چہ معنی دارد؟ کیا ڈاکٹر، وکلاء ، جج اور اساتذہ مشنری جذبے سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں ، اگر ڈاکٹروں کا پیشہ ئِ مسیحائی اور ان کا رویہ دیکھا جائے ، قانون کی بالا دستی کے حوالے سے وکلاء کی ذمہ داریاں اور ان کی ترجیحات ملاحظہ کی جائیں ، انصاف کی فراہمی میں عدلیہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے یا تعلیم و تربیت کے میدان میں اساتذہ کی کاوشوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو کسی ذمہ دار اور مہذب معاشرے کا گماں نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ سول افسران کو معاشرے کے سپیریئر افراد اور کریم کہا جاتا ہے اور قومی خزانے کا ایک بڑا حصہ مراعات اور سہولیات کی صورت انتظامی مشینری چلانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے ان پر خرچ کیا جاتا ہے۔لہٰذا ان کی طرف سے اپنے منصف کے خلاف کوئی بھی روش، لغزش یا فرائض سے غفلت معاشرے کے زوال کی جلدی اور واضح عکاسی کرتی ہیں ۔ ماضی کے برعکس قابلیت کا معیار یہ ہے کہ خود سول سروس کے ایک آفیسر برادرم یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ اچھے بھلے گریڈ کے افسران ایک سادہ سے مسئلے پر پریزینٹیشن ڈھنگ سے نہیں بنا سکتے اور فائل پر قواعدکے مطابق نوٹنگ نہیں کر سکتے ۔ ہم نے ایسے افسران بھی دیکھے ہیں جو عام درخواستوں پر مناسب احکام لکھنے سے بھی قاصر ہیں ۔
مقابلے کی اصل فضا دوبارہ پیدا کرنے اور ملک کو قابل افسران مہیا کرنے کے لیے تو طویل المدتی منصوبہ بندی درکار ہے ۔ البتہ مختصر المدتی پالیسی کے تحت اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ آج جب آزادی کو سات عشرے ہو چکے ہیں تو بیوروکریسی کو بھی اب انگریز کے جاہ و جلال کو خیر باد کہنے کی تربیت دی جائے ۔ وقت آ گیا ہے کہ سول سروس اکیڈمی اور دیگر اداروں میں اب سول افسران کی تربیت عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم کی حیثیت سے کی جائے تاکہ وہ اپنے لوگوں سے آزاد ملک کے شہریوں کا سلوک کر سکیں۔ اگر حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہو تو کوٹ مومن کی اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ جیسے افسران کو ڈیپوٹیشن پر محکمہ تعلیم میں بھیج کر انہیں کسی کالج میں لیکچرر کی آسامی پر اپنی گرانقدر خدمات انجام دینے کی ہدایت کر دی جائے ۔ یہ بھی ان کی تربیت کا خاص حصہ ہو گا جو انتظامی مشینری میں بہتری کا سبب بنے گا۔