سرکاری ایوانوں سے دعوے کیے جا رہے تھے کہ ن لیگ کی حکومت کا پانچواں بجٹ عوام دوست ہو گا مگر معاشی ترقی اور عوام کے معیارِ زندگی کو بڑھانے کے پر شور دعووں میں جناب اسحاق ڈار ایک مرتبہ پھر دائیاں انڈیکیٹر جلا کر بائیں طرف کو مڑ گئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حالیہ بجٹ میں انہوں نے ایسا کوئی ٹیکس نہیں لگایا جس کا اثر عام آدمی پر پڑے اور نہ کوئی چیز مہنگی کی ہے۔ یقینا ایسا دعویٰ کوئی مضبوط اعصاب شخص ہی کر سکتا ہے۔
بجٹ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں، عوامی فلاح و بہبود اور ملکی تعمیر و ترقی کے لیے اس کی ترجیحات اور منصوبہ بندی کا عکاس ہوتا ہے، جبکہ عام آدمی کے لیے تو میزانیہ آمدن اور اخراجات کے لحاظ سے اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہی ہے، جس کے اسرار اس پر بازار کا رخ کرنے پر ہی کھلتے ہیں۔ البتہ نسل در نسل ریلیف زدہ غریب اور لوئر مڈل طبقہ اتنا سمجھدار ضرور ہو گیا ہے کہ جب کوئی وزیر خزانہ کہتا ہے کہ بجٹ میں کوئی نیا یا خفیہ ٹیکس نہیں لگایا گیا تو اسے اپنی دھوتی اور بنیان کی فکر پڑ جاتی ہے۔ اب جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نئے مالی سال 2017-18 کے لیے 47 کھرب 53 ارب روپے کے حجم پر مشتمل 1480 ارب روپے خسارے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے تو اس پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالتے ہیں۔
ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے جو بڑھتی مہنگائی اور عام آدمی کی آمدن اور اخراجات میں فرق کے تناظر میں اونٹ کے منہ میں زیرہ نظر آتا ہے۔ مزدور کی کم از کم اجرت 14 ہزار سے بڑھا کر 15 ہزار روپے کر دی گئی ہے جبکہ وزیر اعظم ہائوس کے بجٹ میں 5.26 فیصد اور ایوانِ صدر کے بجٹ میں 5.8 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی وزیر اعظم ہائوس کے
اخراجات کے لیے 91 کروڑ 67 لاکھ روپے اور ایوانِ صدر کے لیے 95 کروڑ 96 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اخراجات میں 72 کروڑ 80 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح پارلیمنٹ کا مجموعی بجٹ 6 ارب 17 کروڑ 91 لاکھ روپے مختص کیا گیا ہے۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی کے اخراجات کے لیے ایک کروڑ کے اضافے کے ساتھ 7 کروڑ 20 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ وزارتِ مذہبی امور کے اخراجات کے لیے 45 کروڑ 55 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں (خدا معلوم اس طرح کی وزارتیں کس کام آتی ہیں) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے لیے 31 کروڑ اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے لیے 47 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کے فنڈز میں ایک کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے لیے بھی ایک کروڑ 72 لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس بجٹ میں دفاعی اداروں کے لیے 920 ارب روپے رکھے گئے ہیں... جبکہ مزدور کی اجرت 15 ہزار اور ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ 10 فیصد، گویا ؎
سودا چمن کا ہوا تو گُل ہی گنے گئے
خود کو سمجھتی تھیں یونہی سرخاب تتلیاں
یہ اس ملک کے سرکاری اداروں کے شاہانہ اخراجات کی مختصر سی جھلک ہے، جس کی لگ بھگ آدھی آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے اور جس نے قرضوں پر سود کی مد میں 1366 ارب روپے سالانہ ادا کرنے ہیں۔ ہم نے طوالت کے خوف سے وی آئی پیز کی سیکورٹی اخراجات اور وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے اربوں کی نت نئی گاڑیوں کی خریداری اور دفتروں اور رہائش گاہوں کی تعمیر و آرائش پر قومی خزانے سے اڑائی جانے والی رقوم کا ذکر نہیں کیا۔ ہم دودھ، سیمنٹ، سریا، سگریٹ، پان، چاکلیٹ، فش فیڈ، برقی اشیا، پرس اور جوتے وغیرہ مہنگا ہونے کی تفصیل میں بھی نہیں گئے کہ ہم ایسا کمزور اعصاب بندہ وزیر خزانہ جیسے مضبوط اعصاب شخص کو چیلنج نہیں کر سکتا، جنہوں نے فرمایا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا نہ کوئی چیز مہنگی کی گئی۔ ویسے بھی ہم جمہوریت کے حامیوں کو منتخب حکومت پر تنقید زیبا نہیں کہ اس کارِ خیر کے لیے ہماری جمہوریت خود کفیل ہے۔ البتہ ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اگر اراکین اسمبلی اور اکابرین حکومت ہمارے وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں تو اس میں ملک کے عوام بھی اس حد تک قصوروار ہیں کہ انہیں اپنے قیمتی ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔ ہم لاچاروں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں کہ ہم آمریت کے مقابلے
میں بہرحال منتخب حکومت کو ہزار درجے بہتر خیال کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ معتبر مستقبل کے چراغ اسی نظام کا تسلسل ہی جلائے گا۔ تاہم ہم اپنے منتخب نمائندوں سے یہ تو عرض کر سکتے ہیں کہ وہ جمہوری ارتقا کے اس مرحلے میں ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھا کر خود قومی وسائل سے کھلواڑ کریں مگر کم از کم اتنا تو کرم کریں کہ جنگل کی خود رو جھاڑیوں کی طرح پھیلے لا تعداد اداروں کو ختم کر دیں، جو ہمارے لیے سراسر سفید ہاتھی ہیں اور جو ہمارے ہی ٹیکسوں کے دستر خوان سے سیر ہو کر ہمارے اندر انتشار پھیلاتے ہیں۔ آخر ہماری حکومتیں اپنی بقا کی خاطر ایک مخصوص طبقے کو نوازنے کی بجائے اپنے عوام پر اعتماد کیوں نہیں کرتیں؟ ہم جمہوریت میں عام انتخابات کے مرحلے پر اپنے نمائندوں کا احتساب تو کر سکتے ہیں اور انہیں مسترد کر سکتے ہیں مگر قومی خزانے پر بوجھ بہت سے ایسے اداروں کا احتساب ہمارے اختیار میں نہیں۔ یہ ریلیف تو منتخب حکومت ہی ہمیں دے سکتی ہے۔
ٹیکس کی وصولی وہ کارِ خیر ہے، جس میں حکومت سنجیدہ ہو تو لاغر معیشت کو اچھا خاصا سہارا دیا جا سکتا ہے اور وہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں فقط آٹھ نو لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب سرکاری ملازم کی تنخواہ سے پورا ٹیکس کٹ جاتا ہے اور ہمارے ایسے قلم کے مزدور اپنی محدود آمدنی سے 15 فیصد ٹیکس دے رہے ہیں تو بڑے صنعتکار، جاگیر دار، سرمایہ دار، ٹرانسپورٹرز اور سیاستدان پورا ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ یہ ممکن ہی نہیں کہ حکومت ٹیکس وصولی میں سنجیدہ ہو اور کوئی با اثر آدمی ٹیکس چوری کر سکے۔ یہی صورت بیرون ملک چھپائی گئی دولت کی ہے۔ کسی بھی حکومت نے یہ رقوم واپس لانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ورنہ بجٹ کے بعد اپنی دھوتی اور بنیان بچانے والے خوب جانتے ہیں کہ ٹیکس کلچر اور یہ دولت واپس لائے جانے کی صورت میں انہیں تن کے پورے کپڑے اور باعزت روٹی آسانی سے مل سکتی ہے۔ بجٹ میں توانائی کے منصوبوں پر 401 ارب روپے خرچ کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 2018 تک دس ہزار میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائے گی، جس سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس دعوے کو تو ''مذاق رات‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ پاکستان عالمی کساد بازاری سے اتنا متاثر نہیں ہوا، جتنا داخلی سطح پر کوتاہیوں نے اسے کمزور کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آمریت کے مقابلے میں عوام اپنی منتخب حکومت سے فطری طور پر بجٹ میں زیادہ ریلیف کی توقع رکھتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستا ن کے پاس اپنی اقتصادی بنیادیں مستحکم کرنے کے لیے ابھی مہلت باقی ہے۔ اگر تین، چار اور پانچ برسوں کی منصوبہ بندی کے تحت چھوٹے اور بڑے ڈیموں پر تیزی سے کام کیا جائے، ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار بڑھائی جائے، صنعتی و زرعی ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے، مالیاتی ڈسپلن سخت کیا جائے، وی آئی پیز کے اخراجات کم اور غریبوں اور محنت کشوں کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دی جائے اور آبادی کے عفریب کو کنٹرول کیا جائے تو معیشت میں بہتری آ سکتی ہے۔ عوام کیلئے اب تک تو ہر بجٹ پر وہ مصرع صادق آتا ہے کہ:ع
دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب