انسانی خصلت کا ایک عجیب پہلو ہمارے لیے ہمیشہ سے معمہ رہا ہے۔ دماغ کھپایا، اخبارات کے صفحات بھی کالے کیے مگر سچی بات ہے کہ انسانی نفسیات کا یہ گوشہ ہم پر آشکار نہیں ہو سکا کہ اچھا خاصا آدم زاد ذرا سا عارضی اقتدار، اختیار یا طاقت ملنے پر توازن کیوں کھو بیٹھتا ہے؟ وہ اپنے جیسے انسانوں کو کمتر خیال کرنا شروع کر دیتا ہے، ان کی توہین کرتا ہے اور خود کو ناگزیر، عقل کل اور اپنی بات کر حرفِ آخر سمجھنے لگتا ہے۔
اس کام میںچھوٹے بڑے کی کوئی تخصیص نہیں۔ کوئی تخت نشیں ہو کر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے اور کوئی کسی افسر کے در پر دربان تعینات ہو کر کپڑوں سے باہر ہو جاتا ہے۔ کوئی وزیر بن کر اپنے اندر کے چھوٹے پن کو طشت از بام کرنا شروع کر دیتا ہے تو کوئی کلرک کی کرسی پر بیٹھ کر اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ کوئی ممبر اسمبلی بن کر لوگوں کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرتا ہے تو کوئی ٹریفک پولیس کی وردی پہن کر چوک میں جگا بدمعاش بن جاتا ہے۔ کہیں کوئی رہنما چند لوگوں کی حمایت دیکھ کر ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے تو کہیں کوئی نودولتیا بونگیاں مارنے لگتا ہے۔ کوئی مولوی بن کر دوسروں کو اپنے اشارے پر چلانا چاہتا ہے تو کوئی اعلیٰ افسر ہو کر ہم وطنوں کو اپنی رعایا خیال کرنے لگتا ہے۔ کئی عہدے دار لوگوں کو انتظار میں کھڑا رکھنا اور ان سے تضحیک آمیز سلوک روا رکھنا اپنے عہدے کی شان سمجھتے ہیں تو تھانیدار سائلوں کو اپنے سامنے کھڑا کرکے بات کرنے میں اپنی آن دیکھتا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ گوشت پوست کا بنا عام انسان چند عارضی اختیارات یا کچھ ٹکوں کا مالک بنتے ہی اکڑ جاتا ہے۔ حالانکہ تاریخ قانون فطرت کی گواہ ہے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کے جسم بھی قبر میں کیڑوں نے بھنبھوڑے اور گداگر بھی رزقِ خاک ہوئے۔ پھر بھی ہر کوئی آپے سے باہر ہو رہا ہے اور تجربے کی شاخ پر عقل کی کوئی کونپل پھوٹتی نظر نہیں آتی۔ لوئی 14 ہی کو دیکھیے جو انقلاب سے قبل فرانس کا بادشاہ تھا۔ اس بے وقوف کے دماغ میں یہ کیڑا سما گیا کہ سورج کو اس کے قدموں میں طلوع ہونا چاہیے‘ لہٰذا اس کی خواب گاہ کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ سوتے وقت اس کے پائوں مشرق کی طرف ہوتے، جہاں ایستادہ کھڑکی سے طلوعِ آفتاب کے وقت پردے ہٹائے جاتے اور سورج اس کے ''قدموں میں‘‘ طلوع ہوتا۔ پھر 1745ء کی ایک صبح سورج تو حسب معمول طلوع ہوا مگر لوئی 14 اس دنیا میں نہیں تھا۔ کتنے ہی احمق لوئی کی بیمار سوچ لیے دنیا سے چلے گئے کہ سورج ان کی اجازت سے طلوع ہوتا ہے۔ ایسے کتنے شاہ ایرانوں کو کوئے یار میں قبر کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی اور ضیاء الحق کے پیروکاروں کی ہڈیاں تک دستیاب نہ ہو سکیں۔ ہمیں خوب یاد ہے کہ ضیاء الحق نے اپنے آخری دنوں میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ پانچ پانچ سال کے وقفے سے اگلے پانچ انتخابات غیر جماعتی ہوں گے۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ یہ انتخابات کون کرائے گا؟ انہوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ''آپ کا یہ خادم‘‘۔ سمجھ نہیں آتی کہ جب بے رحم تاریخ نے کسی فرعون، کسی نمرود، کسی شداد، کسی اموی، کسی عباسی، کسی مغل، کسی تغلق، کسی تاتاری، کسی سوری، کسی عثمانی، کسی سکندر، کسی ہٹلر، کسی نپولین، کسی صدام، کسی قذافی یا کسی حسنی مبارک کو سورج نکلنے کے لیے ناگزیر نہیں بننے دیا تو ہم کیوں کپڑوں سے باہر ہو جاتے ہیں؟ جوش ؔ ملیح آبادی کے یہ اشعار کیسے رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں:
جا گورِ غریباں پہ نظر ڈال بہ عبرت
کھل جائے گی تجھ پر تری دنیا کی حقیقت
عبرت کے لیے ڈھونڈ کسی شاہ کی تربت
پوچھ اس سے کدھر ہے وہ تیری شانِ حکومت
کل تجھ میں گھڑا تھا جو غرور آج کہاں ہے
اے کاسہء سر بول، تیرا تاج کہاں ہے؟
پرویز مشرف صاحب کا دور یاد کیجئے۔ انہوں نے کیسی فرعونیت سے اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کو گھر بھیج کر فیملی سمیت قید کر دیا تھا۔ تب عدلیہ کی بحالی کے لیے پوری قوم یکجا ہو گئی تھی اور معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس کے ہیرو قرار پائے تھے۔ اس عوامی تحریک نے مشرف کا تکبر خاک میں ملایا اور آخرکار وہ عہدہء صدارت چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ افتخار چودھری بحال ہو گئے مگر بدقسمتی سے عوام کی بیکراں محبتیں سمیٹنے کے لیے ان کا ظرف
چھوٹا پڑ گیا اور وہ اختیارات ملتے ہی پرویز مشرف کی راہ پر چل نکلے کہ سورج کو ان کی اجازت سے طلوع ہونا چاہیے۔ وہ عوام کو تو کوئی ریلیف نہ دے سکے مگر خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے منتخب حکومت، ملکی سیاست اور اداروں کو اپنے انگوٹھے تلے رکھنے پر بضد ہو گئے۔ ان کے انصاف کی ''لازوال داستانوں‘‘ اور بیٹے کی کرپشن کے قصوں نے دنیا میں بہت شہرت پائی۔ سادہ لوحوں نے افتخار چودھری کو سر آنکھوں پر بٹھا کر ان سے بہت سی توقعات وابستہ کی تھیں مگر موقع ملنے پر انہوں نے اپنی اسی جبلت کا مظاہرہ کیا جو ہمارا آج کا موضوع ہے۔ حاصل یہ ہے کہ آج وہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی قصہء پارینہ ہیں۔
ان ناقابل رشک حالات میں امید کی کرن یہ ہے کہ ہماری موجودہ عدلیہ تاریخ کی ایسی کوئی غلطی دہرانے نہیں جا رہی۔ اگرچہ کچھ حلقوںنے پانامہ کیس کی حالیہ سماعت کے دوران فاضل ججز کے چند ریمارکس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم واضح اشارے مل رہے ہیں کہ عدلیہ کو اپنے وقار کا خوب احساس ہے۔ کسی کو ہاتھ جوڑ کر سپریم کورٹ سے بلا تفریق احتساب کی درخواست کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ عدالت عظمیٰ نہ صرف بلا امتیاز انصاف کرے گی بلکہ منتخب حکومت کے خلاف کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے دنیا میں ہماری سبکی ہو۔ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ افتخار چودھری دور کے برعکس اب عدالت کے فقط فیصلے ہی بولیں گے۔ یقینا عدالت عوامی توقعات پر پورا اترتے ہوئے جہاں نہال ہاشمی کے معاملے سے قانون کے مطابق نمٹے گی، وہاں حسین نواز کی تصویر کے معاملے کی تہہ تک جا کر ذمہ داروں کو سزا بھی دے گی۔ اس ملک کے عوام کو قوی امید ہے کہ عدالت سے شریف خاندان اور عمران خان کی آف شور کمپنیوں کے مقدمات کے یکساں میرٹ اور برابری کی بنیاد پر فیصلے آئیں گے۔ شریف خاندان عدالت کے حکم پر عدالت اور جے آئی ٹی میں برابر پیش ہو رہا ہے۔ توقع ہے کہ عدلیہ اب اپنے ادارے کی توقیر کی بحالی کی خاطر پرویز مشرف کو بھی پیش ہونے پر مجبور کر دے گی جو تیس سے زائد مرتبہ عدالتوں میںطلب کیے جانے کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔ نیز قرائن بتاتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ عوا م کے اصل مسائل پر توجہ دیتے ہوئے ماتحت عدلیہ میں بدعنوانی کے خاتمے اور شہریوں کو فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے گی کیونکہ اب منصبِ قضا پر افتخار چودھری جیسا خود پسند نہیں بلکہ میاں ثاقب نثار جیسی انصاف پسند شخصیت متمکن ہے جو ہرگز اپنا مستقبل افتخار چودھری جیسا نہیں چاہتے۔ ان کی قیادت میں ہمارے فاضل جج صاحبان خوب ادراک رکھتے ہیں کہ متنازعہ ریمارکس کی بجائے بلا امتیاز اور شفاف انصاف ہی میں ان کی بقا ہے اور ایسے جرأت مندانہ اقدامات ہی ججوں کو تاریخ میں زندہ رکھتے ہیں، ورنہ یہ اختیارات اور جاہ و جلال سب مایہ ہی تو ہے۔ سورج تو قانون فطرت کے تحت ازل سے طلوع ہو رہا ہے اور ابد تک ہوتا رہے گا۔ والد مرحوم کی ڈائری میں ان کے قلمی معرفت سے لبریز ایک شعر درج ہے:
میں عاجز اک عرض کراں، سن میاں سلطاناںؔ
بھلیاں دی بھلیائی رہسی، ویسی گزر زمانہ