خوشیوں پر ہمارا حق ہے ۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتنے کی خوشی میں ہم عشروں نہال رہیں گے ، جیسے 1992ء میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد آج تک ہیں ۔ تب ہماری کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں یہ معرکہ سر کیا تھا۔ عمران خان کے بارے میں ایک بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے شاندار کھیل اور پُرکشش شخصیت کی بدولت کرکٹ کیرئیر میں درون اور بیرون ملک محبتوں کے ایسے بیکراں سمندر سمیٹے ہیں ، جن کا کوئی دوسرا محض خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ بلا شبہ ان کی ذات دنیا میں پاکستان کی مثبت شناخت اور وجہ عزت و توقیر ٹھہری ۔ اس کرہء ارض پر جب بھی دنیائے کرکٹ کی تاریخ کی بات ہو گی، وہ عمران خان کے توصیفی تذکرے کے بغیر نا مکمل ہو گی۔
یقینا عمران خان کے دل میں ملک و قوم کے لیل و نہار بدلنے کی تڑپ تھی ۔ تبھی تو انہوں نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی بیکراں مقبولیت کے بل بوتے پر خارزار سیاست میں قدم رکھا۔ تاہم بدقسمتی سے وہ سیاست میں آ کر اپنی اس مقبولیت برقرار نہ رکھ سکے ، جو ان کی شخصیت کا خاصا تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کھیل اور سیاست کے میدانوں کے اصول اور تقاضے جدا جدا ہیں۔ جس طرح انہوں نے عوام کو گلے سڑے نظام سے نجات اور تبدیلی کی نوید دی تھی ، چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھ کر ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سر آنکھوں پر بٹھاتے مگر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیوں ممکن نہ ہو سکا؟ کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ وہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوامی طاقت پر بھروسہ کرنے کی بجائے آئین کو روند کر منتخب حکومت بر طرف کرنے والے پرویز مشرف کی طرف دیکھنا ان کی ایک بڑی سیاسی غلطی شمار کی جاتی ہے۔ پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت ان کے سیاسی کیرئیر پر ایسا داغ ہے جس نے انہیں دوسروں سے ممتاز کرنے کے تصور کو مٹا ڈالا۔ ریاستی رٹ چیلنج کرنے والی اس خوں آشام مخلوق جس کے ہاتھ اس ملک کے شہریوں اور فوجیوں کے خون سے رنگین ہے، اس کی حمایت نے بھی خان صاحب کی مقبولیت کو گہن لگایا ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قوم کے اصل مسائل کو چھوڑ کر ہمیشہ نان ایشوز پر سیاست کی ہے۔ احتجاجی سیاست بھی ہمیشہ سے ان کی پہچان رہی ہے ، جو کسی بھی صورت عوام کے درد کا درماں نہیں ہو سکتی۔ انہیں عوام نے پذیرائی بھی بخشی مگر وہ اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آبا د میں 126 روز تک دھرنا دیا ۔ جن لوگوں نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دھرنے میں شرکت کی ، وہ آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دھرنے کا مقصد کیا تھا اور اسے بغیر کچھ حاصل کیے ختم کیوں کیا گیا ؟ نیز ریاستی مشینری کا پہیہ جام کر کے ملک و قوم کو کیا فائدہ پہنچایا گیا؟ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے اس غلطی سے سبق حاصل کرنے کی بجائے 2016ء میں دوبارہ دھرنے کی کال دے دی' لیکن پچھلے دھرنے کے دوران حاصل ہونے والی عوامی پذیرائی میں تشویشناک حد تک کمی دیکھ کر دھرنا منسوخ کر دیا، جس سے ان کی شکست کا تاثر قائم ہوا ۔ اگر عوام عمران خان کی شخصیت میں متبادل اور بہتر قیادت کی جھلک دیکھتے ہوئے انہیں پذیرائی بخشتے بھی ہیں تو خان صاحب سے کوئی نہ کوئی ایسی سیاسی غلطی سرزد ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے انقلابی لیڈر ہونے کا تاثر کھو بیٹھتے ہیں۔ جیسے 2013ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کو 78 لاکھ ووٹ حاصل ہوئے مگر انہوں نے اگلے انتخابات کے لیے اپنا ووٹ بینک بہتر بنانے اور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی بجائے منتخب حکومت گرانے اور تبدیلی کے لیے ''امپائر‘‘ سے اپیلیں شروع کر دیں جو کسی بھی سیاستدان کی توقیر میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتیں کہ مہذب دنیا میں معتبر تبدیلی کا جن فقط بیلٹ باکس ہی سے نکلتا ہے ۔
تحریک انصاف میں حالیہ ''انقلابی تبدیلیوں‘‘ نے بھی اسے دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے ۔ 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے ایک بڑے کنونشن میں عمران خان نے کرپشن کے خاتمے اور تبدیلی کے پُر جوش عزم سے عوام کی قابل لحاظ تعداد میں اپنا مقام بنا لیا تھا؛ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے بدبودار نظام کے کرپٹ سیاسی رہنما قرار دیئے جانے والے ان کے ساتھ آ کر ملتے گئے اور وہ انہیں قبول کرتے گئے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب پیپلز پارٹی کے غلام مصطفی کھر ، نذر محمد گوندل ، فردوس عاشق اعوان، راجہ ریاض ، ن لیگ کے لیاقت جتوئی اور ق لیگ کے علیم خان سمیت کئی ایسے رہنما تحریک انصاف کے ہراول دستے میں نظر آتے ہیں ، جو یقینا خان صاحب کی کرپشن کے خلاف بیس سالہ جدوجہد کا ثمر ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں بدلنا کوئی اچنھبے کی بات نہیں مگر سوال یہ ہے کہ جب اقتدار کی خاطر نظریات کا روگ پالنے کی بجائے روایتی سیاست ہی کرنی ہے تو انقلاب اور تبدیلی کے نعرے چہ معنی دارد ؟ یا تو یہ رہنما کرپٹ نہیں یا پھر عمران خان کرپشن پر کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ شاید ان کی کرپشن دشمنی کا دائرہ نواز شریف اور آصف زرداری تک محدود ہے ۔ کل کا پتہ نہیں لیکن اب تک عمران خان کی سیاست سے عوام کی زندگیوں میں اتنی ہی تبدیلی آ سکی ہے کہ :
دھوپ کی تمازت تھی موم کے مکانوں پر
تم بھی لے کے آ گئے سائبان شیشے کا
اس کالم میں مختصراً تحریک انصاف کی سیاست کا جو اجمالی سا جائزہ لیا گیا ہے ، اس کے نتیجے میں عاجزانہ سی رائے ہے کہ عمران خان کی نظریاتی سیاست اور کرپشن کے خلاف ان کے عزائم کی ساکھ ختم ہو چکی ہے ۔ بلا شبہ اقتدار ان کی منزل ہے مگر اس کے لیے انہیں شارٹ کٹ ڈھونڈنا ترک کر کے عوامی عدالت میں اپنا مقدمہ لڑنے کی تیاری کرنا ہو گی کہ اکیسویں صدی کے گلوبل ویلج میں اقتدار دلانے کے لیے یہی عدالت معتبر ترین قرار دی گئی ہے ۔ اگر وہ کسی دوسری عدالت یا کسی امپائر کی مدد سے تاج پہننے کے انتظار میں ہیں تو یہ خیال ایسا لفافہ ہے کہ جس میں خط نہ ہو ۔ ایسا کوئی دھماکہ ہو گا نہ اس دھماکے سے کوئی انقلاب برآمد ہو گا کہ باقی سارے اس کے ملبے تلے دفن ہو جائیں اور عمران خان قوم کی رہنمائی کے لیے بچ جائیں۔ مراد یہ ہے کہ انہیں کسی خیالی دنیا میں رہنے کی بجائے آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کے لیے عوامی رابطے پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں سب سے آسان کام دوسروں پر الزام تراشی اور انہیں مطعون کرنا جبکہ سب سے مشکل کام اپنے گریبان میں جھانکنا اور غلطیوں سے سبق حاصل کرکے ان کی اصلاح حاصل کرنا ہے۔ اب تک عمران خان کی ناکامی کی وجوہات میں درج بالا حالات کے علاوہ ان کا عوامی مزاج نہ ہونا ، نچلی سطح پر پارٹی سیٹ اپ کی کمزوری اور عوامی رابطے کا فقدان بھی ہے۔ یاد رہے کہ عوامی مسائل کا صحیح ادراک ان کے قریب تر رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے، ڈرائنگ روموں یا کنٹینروں میں بیٹھ کر یہ کارِ خیر ممکن نہیں۔ اگر وہ ہیجانی اور احتجاجی سیاست کو چھوڑ کر طویل پلاننگ کے ذریعے ان خطوط پر کام کریں تو بہت ممکن ہے کہ عوامی بارگاہ سے انہیں قبولیت کی سند مل جائے۔ باقی حالات و واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے رفقاء کے ساتھ حکومت انہوں نے بھی روایتی انداز ہی میں کرنی ہے اور کسی قسم کی تبدیلی عوام کے لیے خواب ہی رہنی ہے کہ شیشے کے سائبانوں سے دھوپ کی تمازت بڑھتی ہے ، کم نہیں ہوتی۔