ماسٹر صاحب: ہاں تو پیارے بالغو! کل میں نے پڑھایا تھا کہ کوئی فعل کسی فاعل کے بغیر واقع نہیں ہو سکتا اور کوئی جملہ فعل، فاعل اور مفعول کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ فیقے، تم کوئی جملہ سنائو۔
فیقا ٹیڈی: ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے والوں کے خلاف جے آئی ٹی نے کارروائی کی سفارش کر دی۔
گاما کوچوان: بہت خوب! اس جملے میں جے آئی ٹی فاعل، کارروائی کی سفارش فعل اور اثاثے بنانے والے مفعول ہیں۔
جمالا شرمسار: اچھا تو اس جملے میں فاعل جے آئی ٹی ہے؟ میری اردو کمزور ہے، میں سمجھا تھا کہ شاید فاعل کوئی اور ہے۔
ماسٹر صاحب: جے آئی ٹی ہی اصل فاعل ہے بے وقوف اور اس نے میرٹ پر تفتیش کرکے عدالت میں رپورٹ پیش کی ہے۔
شیرو مستانہ: عجلت میں رپورٹ پیش کی ہے؟ تبھی تو میں کہوں کہ دو ماہ میں اتنی مفصل رپورٹ کیسے تیار ہو گئی؟
ماسٹر صاحب: اپنے کانوں کا علاج کرا جاہل۔ عجلت میں نہیں عدالت میں پیش کی ہے، عدالت میں۔
خیرو بھاگوان: لیکن ماسٹر صاحب! کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ عدالتیں میرٹ پر کام کرتی ہیں۔ آج آپ یہی بات جے آئی ٹی کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ آپ کے اندر کا کھلا تضاد نہیں؟
ماسٹر صاحب: میرے اندر کوئی تضاد نہیں ہے احمق۔ یہاں کہیں بھی کوئی تضاد نہیں، اندر نہ باہر، کھلا نہ بند۔ تم لوگ خوش قسمت ہو کہ ہمارے سب ادارے میرٹ پر کام کرتے ہیں، بلا خوف و خطر، بلا جبر و اکراہ، بلا تفریق و تعصب اور اپنی اپنی حدود میں رہ کر۔
نورا دیوانہ: لیکن ماسٹر صاحب! آج صبح تو آپ بس میں آتے ہوئے اپنے ساتھ بیٹھے بزرگ سے بالکل مختلف باتیں کر رہے تھے۔ میں آپ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔
ماسٹر صاحب: (چونک کر) ہُش ہُش، اپنی چونچ بند رکھ دیوانے۔ میں نے کوئی مختلف بات نہیں کی۔ میں تو بس میں آیا ہی نہیں اور نہ میرے ساتھ کوئی بزرگ بیٹھے تھے۔ شرم کر جھوٹ کے پلندے، کیوں مجھے آخری عمر میں اندر کرانے پر تُلا ہے تُو۔
شیدا جہاز: رومال سے پسینہ پونچھ لیں ماسٹر جی! جھوٹ کے پلندوں کی باتوں میں آ کر گھبرایا مت کریں۔ (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: فضول باتیں بند کرو اور اپنے سبق پر دھیان دو۔ ہاں تو بالغو! کل ہم نے قواعد اردو میں زبان کے بارے میں پڑھا تھا۔ خانو، تم بتائو کہ زبان کیا ہوتی ہے؟
خانو خاکسار: زبان وہ ہے جو ہم بولتے ہیں، مثلاً اردو، پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی وغیرہ۔ ان زبانوں کی مدد سے ہم جھوٹ بولتے ہیں، شوروغل بپا کرتے ہیں، دوسروں پر الزام تراشیاں کرتے ہیں، طعن و تشنیع کا کام لیتے ہیں اور دنگا و فساد اور عدم استحکام کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
ماسٹر صاحب: اور ایک زبان وہ ہے جو اس وقت تمہارے منہ میں ہل رہی ہے۔ اس میں ہڈی نہیں ہوتی مگر یہ ہڈیاں تڑوا سکتی ہے اور تمہاری زبان تمہاری ہڈیاں تڑوائے گی انشاء اللہ۔
فیقا ٹیڈی: غصہ تھوک دیں ماسٹر جی، آپ ہمیں سبق پڑھائیں۔
ماسٹر صاحب: سبق تو تمہیں تاریخ پڑھائے گی بچُو، جس غیر سنجیدگی سے تم لوگ پڑھ رہے ہو، ایسے لوگوں کو تاریخ گریبان سے پکڑ کر خوب سبق سکھاتی ہے ۔
گاما کوچوان: مگر ماسٹر جی! تاریخ کسی کو گریبان سے کیسے پکڑ سکتی ہے بھلا؟
ماسٹر صاحب: پکڑتی ہے بیٹا! تاریخ تم جیسوں کا گریبان ضرور پکڑتی ہے اور گھسیٹتے ہوئے اپنے کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے۔
جمالا شرمسار: (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) اللہ معافی!
ماسٹر صاحب: تاریخ معاف نہیں کرتی بچُو۔ اس کی عدالت میں کوئی معافی نہیں ہے۔
شیرو مستانہ: مگر میں نے تو سنا ہے ماسٹر جی کہ تاریخ کی عدالت کچھ نامور ملزموں سے صرفِ نظر بھی کر جاتی ہے۔
ماسٹر صاحب: بالکل غلط سنا ہے تم نے۔ اس عدالت میں کوئی رعایت، کوئی سفارش اور کوئی دبائو نہیں چلتا۔
شیدا جہاز: آپ ہمیں تاریخ کی عدالت سے اتنا بھی نہ ڈرائیں ماسٹر جی‘ ہم تو وہ پُرعزم لوگ ہیں کہ تاریخ کا رخ موڑ دیں گے۔ ہم نئی تاریخ رقم کرکے رہیں گے۔
ماسٹر صاحب: ابے لینڈ کر جا شیدے جہاز، لینڈ کر جا۔ تم سے تو سائیکل کا ہینڈل نہیں مڑتا، ہمیشہ موڑ پر اوندھے منہ جا پڑتے ہو۔ اپنا سبق یاد ہوتا نہیں اور چلے ہیں تاریخ کا رخ موڑنے۔
نورا دیوانہ: یہاں سائیکل کے ہینڈل کے مقابلے میں تاریخ کا رخ موڑنا زیادہ آسان ہے ماسٹر صاحب، جب مرضی، جیسے مرضی، اپنی خواہشات کے مطابق تاریخ لکھ کر اس کا رخ موڑ دو (قہقہہ)
خیرو بھاگوان: ماسٹر صاحب میں نے سنا ہے کہ جس قوم کے مسیحا اپنے اصل مسائل کو چھوڑ کر نان ایشوز پر وقت ضائع کرتے ہیں، تاریخ انہیں بھی معاف نہیں کرتی۔
ماسٹر صاحب: صحیح کہا بیٹا! شکر کرو کہ خدا کے فضل سے تمہارے چارہ گر ایسے نہیں ہیں۔ اگر تم نالائقوں کے مسیحا بھی ذمہ دار کے بجائے مشغلہ باز ہوتے تو آج قوم سمیت تاریخ کے پچھواڑے رینگ رہے ہوتے... (غصے سے) دانت مت نکال فیقے ناہنجار، ورنہ میں مکا مار کر انہیں ہمیشہ کے لیے نکال دوں گا (قہقہہ)
فیقا ٹیڈی: معافی چاہتا ہوں ماسٹر صاحب! مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا تھا۔
ماسٹر صاحب: سارے لطیفے کلاس ہی میں آ کر یاد آتے ہیں کم بختوں کو۔ پیدائشی نان سیریس سارے۔
خیرو بھاگوان: وہ لطیفہ ہمیں بھی تو سنائو فیقے۔
فیقا ٹیڈی: پھر مجھے نئی بتیسی تم لگوا کر دو گے؟ (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: اچھا اب لطیفہ بازی کو چھوڑو اور اپنے سبق کی طرف آئو۔
جمالا شرمسار: جو حکم ماسٹر جی، ویسے اس ملک میں لطیفہ بازی، جگت بازی، پتنگ بازی، رنگ بازی، آتش باز ی اور بیان بازی جیسے مشاغل ہی سے تو وقت پاس ہو رہا ہے۔ (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: دیکھو، کیسے کیسے مفروضے گھڑ لاتے ہیں کم بخت۔ ابے جاہل، یہ ملک انتہائی سنجیدگی سے چلایا جا رہا ہے۔ (قہقہہ)
خانو خاکسار: ماسٹر صاحب! آپ ہمیں تو لطیفے سنانے پر بتیسی نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں اور خود...
ماسٹر صاحب: (میز پر ڈنڈا مارتے ہوئے) خاموش ہو جائو سب۔
شیرو مستانہ: ماسٹر جی مفروضوں سے یاد آیا، یہاں مفروضوں کے سہارے ہی تو نظام چل رہا ہے۔ جمالے نے کوئی مفروضہ گھڑ لیا تو کون سی قیامت آ گئی؟ (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: جھوٹ بالکل جھوٹ۔ ارے کم بختو! کبھی سچ بھی بول لیا کرو۔
خیرو بھاگوان: یہ سچ کہاں سے آ گیا بیچ میں؟ (قہقہہ)
گاما کوچوان: ماسٹر جی! آج میں نے ایک بس کے پیچھے وزیر اعظم کے متعلق لکھا ایک شعر دیکھا ہے۔ لکھا تھا ''تُو کون ہے اور کیا ہے تِرا داغِ قبا بھی... لوگوں نے تو مریم پہ بھی الزام تراشے‘‘۔
ماسٹر صاحب: (دونوں ہاتھوں میں سر پکڑ کر) دھت تیرے کی۔ ابے جاہل یہ شعر تو تاریخ کے تناظر میں ہے، وزیر اعظم کہاں سے آ گئے یہاں؟ (غصے سے) بس اب میں ایسے احمقوں کو مزید نہیں پڑھا سکتا۔ دی کلاس از اوور۔
ساری کلاس مل کر: دی پارٹی از اوور (قہقہہ)