مایانکہ شہریان ریاست المعروف بھیڑ بکریا ں تعدادی بیس کروڑ مالکان و ساکنان اسلامی جمہوریہ پاکستا ن ہیں ، جو حسب ذیل بیان کرتے ہیں :
یہ کہ ہم سائیں لوگ اور لائی لگ قسم کی مخلوق واقع ہوئے ہیں اور جدھر کوئی ہانکے چل پڑتے ہیں ۔ نیز رہبر اور رہزن ،سادھ اور چور ، سچ اور جھوٹ میں کما حقہ‘ تمیز نہیں کر سکتے اور ہر جھوٹے سچے پروپیگنڈے کی لپیٹ میں آ کر جذبات کے گھوڑے پر سوار ہو جاتے ہیں ۔ پس بر بنائے معذوری ہائے ہذا اپنے ملک کا انتظام و انصرام کرنے سے قاصر ہیں ۔ لہذا بخوشی خود، برضا و رغبت اپنی جانب سے با اختیار ریاستی اداروں اور جملہ سیاسی و مذہبی رہنمائوں کو مختارِ عام مقرر کر کے اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہماری مملکت متذکرہ کا ہر طرح سے انتظام و انصرام بجا لاویں اور مطابق اپنی مرضی و منشا کے اسے چلاویں ۔ اپنی پسند کے لالہ و گل کھلاویں ، تجربہ گاہ بناویں ،پارلیمانی جمہوریت، صدارتی جمہوریت ، نیم جمہوریت، لولی لنگڑی جمہوریت ، گائیڈڈ جمہوریت ، مارشل لاء ، نیم مارشل لاء ، گورنر راج و ایمر جنسی وغیرہ جب چاہیں نافذ فرماویں ۔ آئین ، قوانین جیسے چاہیں بناویں ،بنواویں ، نافذ کراویں ،معطل کراویں ،بحال کراویں ، پامال کراویں ، ترامیم کراویں ۔
یہ کہ ہم فاضل مختاران کو اختیار دیتے ہیں کہ بذریعہ انتخابات یا بدون انتخابات جس طرح چاہیں ، جیسی چاہیں حکومت بناویں ، برطرف فرماویں ، انتخابی نتائج تبدیل کراویں ، لوٹے بنیں ، بنواویں ، اصلاح احوال کا تڑکا لگاتے ہوئے منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کراویں ، اسمبلیاں ، معاہدے ،وعدے ،آئین ، دل توڑیں ،مارشل لاء یا اپنی پسند کی عبوری حکومت90روز کے لیے بناویں ، دس سال تک چلاویں ، ریفرنڈم کراویں ،فرشتوں سے ووٹ ڈلواویں ، جزوی یا کلی یک طرفہ ، دو طرفہ ، سہ طرفہ یا چہار طرفہ احتساب کراویں ، جے آئی ٹیز بنواویں ، پیشیاں کراویں ، جسے چاہیں شکنجے میں کساویں ، جسے چاہیں معاف فرماویں ۔جسے مناسب سمجھیں ہیرو اور جسے چاہیں زیرو بناویں ۔ لیڈر بناویں ، گیدڑ بناویں ۔ گناہگار کراویں ، بے گناہ بناویں ۔ ہمارے اصل مسائل کو پس پشت ڈال کر کسی بھی نان ایشو کو ایشو بنا لیویں ، ہم سے دھرنے دلواویں ، ریلیاں نکلواویں ۔ ہم سے آوے ہی آوے یا گو گو کے نعرے لگواویں ۔ غیر حقیقی،جذباتی تجزیے سناکر ہمارا ذہنی و جسمانی توازن معطل کراویں۔ حکومت کے جانے کی پیشگوئیاں فرماویں ۔ استعفیٰ لیویں ، نا اہل کراویں ، برطرف فرماویں ، جلا وطن کراویں ۔ غرض جس ٹرک ،چھکڑے یا کھٹارے کی بتی کے پیچھے چاہیں ہمیں لگاویں ، ہم ہر قانونی و غیر قانونی حکم اور ہر جائز و ناجائز تبدیلی پر مٹھائیاں بانٹنے کو ہمہ وقت تیار رہیں گے ۔
یہ کہ مختارِ عام خواتین و حضرات کو ہماری جانب سے کلی اختیار ہوگا کہ وہ قومی خزانے کو شیرِ مادر تصور فرماویں ، ٹیکس چوری کریں ، ہمارے ٹیکسوں پر عیاشی کریں ، قرضے لیویں ، معاف کراویں ، ملیں ، فیکٹریاں وغیرہ لگاویں ، کمیشن لیویں ، مال بناویں ، ہمارے خون پسینے کی کمائی سے بیرون ملک مع اہل و عیال و رفقا دورے فرماویں ، شاپنگ کریں ، علاج کراویں ، حج و عمرے ادا فرماویں ، نشاط و سرو ر کی محفلیں سجاویں ، رنگین شامیں مناویں ، شگن مناویں ، دوہری شہریت اختیار فرماویں ، کرپشن کے ٹین کنستروں کی تھاپ پر ایمانداری کی قوالیاں سناویں ، منی لانڈرنگ یا کسی بھی ذریعے سے سرمایہ بیرون ملک منتقل کراویں ، جائیداد منقولہ و غیر منقولہ بناویں ۔ اپنی آف شور کمپنیاں بناویں ، دوسروں کی کمپنیوں پر شور مچاویں ۔ ہمارے حقوق سے کھلواڑ کریں ، بنیادی حقوق و شخصی آزادیوں کا قلع قمع کریں ، ہماری کھال سے جوتیاں بناویں ، ہمیں غائب ، لاپتہ کراویں ، عسکریت پسند ، ٹارگٹ کلرز ، ہتھیار بند جتھے جس نوع کے چاہیں تیار کراویں ، دہشت گردی کی تربیت دلاویں ، ہمیں ان کے رحم و کرم پر چھوڑیں ، ان کے خلاف آپریشن کراویں ، ان میں اچھے اور برے کی تمیز روا رکھیں ، ہم سوختہ بخت اختیار دہندگان ان کی مرضی اور خوشی میں ہر گز دخل نہ دیویں گے ۔
یہ کہ اختیار گرہندگان کو مکمل اختیار ہوگا کہ وہ ہماری ریاست کا جزوی یا سالم حصہ ، جس قدر چاہیں ،جسے چاہیں بذریعہ بیعہ ، رہن ، پٹہ ، ٹھیکہ ،ہبہ ، تقسیم وغیرہ منتقل کراویں ۔ ہم شہریان کو فروخت کریں ، آئی ایم ایف ، امریکہ یا جس کے ہاں چاہیں وطن عزیز اور ہمیں گروی رکھ دیویں ، نیلام کریں ، کشکول گردی کریں ، زرِ بیعہ ،زرِ پٹہ ، زرِ ٹھیکہ ، زرِ رہن وغیرہ وصول کر کے قبضہ حوالہ مشتریان ، پٹہ داران ، موہوب الیہان ،مفتوحان وغیرہ منتقل کریں ، ہماری عزت نفس اور جان و مال کو خاطر میں لاویں یا نہ لاویں، ان کی مرضی ۔ وہ ہمارے درمیان امداد ، انتشار ، بھوک ، ننگ یا موت جو چاہیں بانٹیں ۔ ہمارے مسائل پر مگر مچھ کے آنسو بہاویں ، پیٹ بھر کر کھاویں ، ہمارے لیے نانِ جویں بھی نہ چھوڑیں ۔ قدرتی آفات ، سیلاب، زلزلہ وغیرہ کے دوران ہماری بے بسی کے فضائی جائزے لیویں ، ہمارے کھانے کے لیے کچھ گراویں یا نہ گراویں ، ان کی خوشی۔ ان آفات کو ہم بھوکوں کے گناہوں کا شاخسانہ قرار دیویں ، سبسڈی دیویں ، واپس لیویں ۔ جعلی ادویات، ملاوٹ کرنے والوں ، ذخیرہ اندوزوں ، ناجائز منافع خوروں ، چوروں ، ڈاکوئوں کی سرپرستی فرماویں یا ان کو نکیل ڈالیں ۔ ہم سے ہماری زمینیں کوڑیوں کے بھائو یاجبراً و قہراً قبضہ کر کے حاصل کریں ، ہائوسنگ سوسائٹیاں بناویں ، واپس ہمیں ، سونے کے بھائو بیچیں ۔ ہم سے اپنے فقید المثال استقبال کراویں ، سڑکیں ، موبائل بند کراویں ، روٹ لگاویں ، گاڑیوں کی کہکشاں اور ہوٹروں کے شور میں آوک جاوک فرماویں ، ہمیں اپنے لانگ مارچوں ، جلسوں ، جلوسوں میں بھرپور شرکت کا حکم دیویں ، اپنی مرضی کی رائے عامہ بنواویں ، اپنی اپنی خواہشات بیمار کو ہماری امنگوں کا ترجمان بتلاویں ، ان پر ہم سے مہر تصدیق ثبت کراویں بلکہ خود ہی ہماری مہر لگا لیویں ، ہم ہر گز تردید یا انکار نہ کریں گے ۔
یہ کہ مختارِ عام چارہ گر ہستیوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہوگا کہ سیاسی عمل کو جتنا چاہیں بے توقیر فرماویں ، ہمیں نظام بدلنے کے جھانسے دیویں ، سیاست کے بازار میں ڈرامے ، ٹوپی ڈرامے، تھیٹر ،سرکس وغیرہ ہر رنگ و ہر نوع کے لگاویں ، اتحاد بین المسلمین کے درس دیویں ، فرقہ واریت کو ہوا دیویں ، اختلافات ، انتشار ، فساد کی تخم ریزی کراویں ، تنازعات کی آبیاری کراویں ، ہمیں آپس میں لڑاویں ، ہم پر کفر کے فتوے لگاویں ، جہنم کی بشارت دیویں،چاہیں تو دنیا ہی کو ہمارے لیے جہنم بنا دیویں ۔ ہمیں سادگی کے درس دیویں ، خود شاہانہ زندگی بسر فرماویں ، جعلی نظریات گھڑ کر ہم پر مسلط فرماویں ، قائداعظم کی جیب کے کھوٹے سکوں کو سکہ رائج الوقت بناویں ۔ ہم پر تعلیم، صحت یا سوچ کے دروازے بند کراویں ، جہالت کو فروغ دیویں ، اداروں میں تصادم کراویں ، اپنے صوابدیدی کوٹے ، پیٹ ، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں جب چاہیں ،جتنی چاہیں بڑھاویں ۔ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کراویں ۔ توانائی ، آئین اور قانون کے مصنوعی بحران در بحران پیدا فرماویں ، ہمارا ناطقہ بند کراویں ، ہمارے لیے روزگار کے دروازے بند کراویں ، اپنے لونڈوں لپاٹوں اور کھیلوں کو ایوانوں میں جا بٹھاویں ، وزارتوں کی بندر بانٹ فرماویں ، خو د بھی کھاویں ، نورتنوں کو بھی کھلاویں ، بد عنوان افسروں کو اعلیٰ عہدوں پر لگاویں ، ایمانداروں کو کھڈے لائن لگاویں ،اپنی مرضی و منشا کا انصاف کریں ، کراویں ۔ ہم اُف تک نہ کریں گے ۔
یہ کہ مختاران کو بروئے مختار نامہ عام ہذا اختیار ہے کہ وہ جب چاہیں ہمیں بنیاد پرست ، روشن خیال ، جمہوریت کے پروانے یا آمریت کے پجاری بنا دیویں، ہم مطابق ان کی مرضی و منشا کے یو ٹرن لیتے جاویں گے اور ہمیں جمہوریت کے پیاز یا آمریت کے جوتے دونوں بخوشی قبول و منظور ہوویں گے ۔ وہ ہمیں بنامِ وطن لوٹیں یا بہ حیلہ مذہب، جو مزاجِ یار میں آئے ، ہمیں چنداں اعتراض نہ ہوگا۔ حتیٰ کہ ہماری مملکت سے متعلق اختیار گرہندگان کو ہر وہ اختیار بھی حاصل ہوگا جو بطورِ مالک ہمیں بھی حاصل نہ ہے۔ لہذا مختار عام ہذا (General Power of Attorney)رو برو خدائے بزرگ و برتر تحریر کردیا ہے تاکہ سند رہے اور روزِ قیامت عندالحاجت ان کے کام آوے ۔
اختیار دہندگان ۔ شہریان پاکستان