سماعتوں ،قانونی موشگافیوں ، اثاثوں کی ملکیت، پائی پائی کا حساب ، 62,63کے تحت نا اہلیوں اور خود کش حملوں کی چنگھاڑتی شہ سرخیوں کے نیچے خاموش سی ایک کالمی اور ''غیر اہم‘‘ سی خبر بھی چھپی ۔ خبر کی حیثیت اس کم سن یتیم گھریلو ملازمہ جیسی ہے ، جو گھر کے کونے میں اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ گھر کے افراد کھانا کھا لیں تو بچے کھچے پر کسی کو اس کے حق کا خیال بھی آئے ۔ بتایا گیا ہے کہ وفاقی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے ایک بین الوزارتی اور بین الصوبائی اجلاس میں مون سون کی شجر کاری مہم برائے سال2017ء کے دوران ملک بھر میں 100ملین سے زیادہ پودے لگانے کے اہداف کی منظوری دی گئی ہے ۔ یقینا ایسا ہی کیا جائے گا۔
اب ہم اپنی کم علمی کا رونا کہاں تک روئیں کہ ہمیں آج ہی پتہ چلا ہے کہ ہمارے ملک میں وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی بھی موجود ہے ۔ نہ صرف موجود ہے بلکہ مکمل طور پر فعال بھی ہے ۔ آپ سے کیا پردہ ، ہمیں تو ق لیگ کی حکومت کے آخری ایام میں معلوم ہوا تھا کہ یہاں ایک وفاقی وزارت برائے امورِ نوجواناں بھی ہے ۔ جناب شوکت عزیز کے تیز رفتار ترقی کے اس دور میں وزارت ہٰذا نے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ریکارڈ قائم کیے تھے ۔ تاہم چونکہ ہم اس وزارت سے آشنا نہیں تھے ، لہذا جہاں یہ ریکارڈ کا م ہماری نظروں سے اوجھل رہے ، وہا ں ہم خود بھی مبینہ طور پر نوجوان ہونے کے باوجود اس سے استفادہ کرنے سے محروم رہے ۔ وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی بھی یقینا موسمی تغیرات کے آنے والی نسلوں پر اثرات کا بغور جائزہ لیتی ہو گی۔ اب وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ جنگلات زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے، درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھنے، آکسیجن پیدا کرنے، ماحول کو خوشگوار بنانے، بارشیں برسانے اور جنگلی حیات کے تحفظ ، حتیٰ کہ کرئہ ارض پر انسانی زندگی کی بقا کے لیے کتنے اہم ہیں۔ تبھی تو اس نے سو ملین نئے پودے لگانے کا بیڑااٹھایا ہے ، جیسے ہر سال دو دفعہ شجر کاری مہم کے دوران اٹھایا جاتا ہے ۔ البتہ خدا معلوم یہ کوئی گھنائونی غیر ملکی سازش ہے یا بدقسمتی کہ ان تمام تر کاوشوں کے باوجودوطن عزیز کے کل رقبے کے تقریباً 4.5فیصد پر جنگلات ہیںجبکہ متعدل زندگی کے لیے جنگلات کا رقبہ کسی ملک کے کل رقبے کا 25فیصد ضروری ہے ۔ اس سلسلے کا ایک افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ امسال پہلی شجرکاری مہم کے دوران کے پی کے حکومت کی طرف سے لگائے گئے اسی کروڑ پودوں کا بھی تاحال کوئی سراغ نہیں ملا۔
ممکن ہے کہ آج چار سو پھیلی معاشرتی آلودگی کو چھوڑ کر ماحولیاتی آلودگی کی بات کرنا آپ کو کچھ عجیب سا لگ رہا ہو ۔ کیا عجب کہ عدم برداشت، عدم استحکام اور انصاف کے قصوں سے صرف نظر کر کے گھنے پیڑوں کی مہرباں چھائوں کا ذکر آپ کو بے وقت کی راگنی لگے ۔ مانا کہ لہو لہو ساون میں سر سبز اشجار کی شادابیوں کا تذکرہ کچھ جچتا نہیں ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ آزادی تحریر کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں۔ کچھ ایسے بھی خونخوار جاندار ہوتے ہیں جن پر کھل کر نہیں لکھا جا سکتا ہے ۔ اب دیکھیے کہ لاہور میں ہونے والے حالیہ خونیں خود کش دھماکے کے بعد حسب معمول اس عزم کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ جہاں اور جس بھیس میں بھی ہوں ، دہشت گردوں کے سہولت کار اور مددگار بچ نہیں سکیں گے ۔ اب کون نہیں جانتا کہ دہشت گردوں کے سہولت کار اور مددگار کس کس بھیس میں اور کون کون سے مقامات پر بیٹھے ہیںمگر نام ان کا کسی نے نہیں لیا۔ پھر ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ سو کیکر ، شیشم ،چیڑ ،بیر ، پھلاہی، دھریک، پاپلر، سفیدہ ،نیم اور توت ایسے جانداروں کی بات کرتے ہیں ۔اگر انسانوں کے قاتلوں کا ذکر منع ہے تو پیڑوں کے قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کا ذکر ہی سہی ،جو ہم اور آپ بھی ہیں، ٹمبر مافیا بھی اور ہماری حکومتیں بھی ۔ انتہا پسندی کا خاتمہ مشکل ہے لیکن درختوں کی بیخ کنی سے تو ہمیں کسی نے نہیں روک رکھا۔
پوچھنے میں کیا حرج ہے کہ شجر کاری کا حالیہ موسم بھی ہماری طرح آپ کے پاس سے دبے پائوں گزر جائے گا یا آپ کوئی پودا شودا بھی لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کیا آپ نے کسی نوزائیدہ بوٹے کی جڑوں کو پانی دینے کا عزم کر رکھا ہے یا ہماری طرح اپنے مفادات کی آبیاری ہی میں مصروف رہیں گے ؟ سچی بات ہے کہ ہمارا بے رحم کلہاڑا تو شجر کاری کے اس موسم میں بھی سایہ دار درختوں پر چلتا رہے گا کہ ہم دیہاتیوں کے پاس گیس ہے نہ بجلی۔ ہم خود دوسروں کے مفادات کا ایندھن ہیں اور یہ شجر ہمارے چولہوں اور تندوروں کا ایندھن۔ پروین شاکرنے کیا دل سوز بات کہی تھی :
اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
البتہ اگرہم بارانی بھی چڑیو ں کی طرح بوڑھے اشجار سے پیار کرنے لگ گئے تو ہمارے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں گے ۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک جنگلات کا وہی مطلب ہے ،جیسے استاد نے شاگرد سے پوچھا کہ جنگلات کسے کہتے ہیں؟ شاگرد نے جواب دیا'' ایسی جنگ جو لاتوں سے لڑی جائے ‘‘ ...چونکہ ہمارا ٹمبر مافیا اور ہم اس کے سرکاری و غیر سرکاری سہولت کار لاتوں کے بھوت واقع ہوئے ہیں، سو لگتا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے ہوائی کے بجائے حقیقی شجرکاری مہم چلانے اور درختوں کے کٹائو سے ماحولیاتی آلودگی ، بارشو ں میں کمی، گلوبل وارمنگ میں اضافے اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرناک حالات سے آگاہی کے لیے ترغیب و تلقین کی بجائے لاتوں سے لڑی جانے والی کسی جنگ ہی سے قائل ہوں گے ۔ شاید انصاف کے تقاضے پورے ہونے اور ایک دوسرے کو فتح کرنے کی جنگ کے بعد کسی کو اس مسئلے کا خیال بھی آ ہی جائے کہ رُکھوں کی کمی دُکھوں میں اضافے کا سبب بنتی ہے ۔
ماضی میں انگریزسرکار نے سڑک کے کناروں اور سرکاری دفاتر کے احاطوں میں لا تعداد درخت لگائے تھے ۔ چالیس پچاس سالوں کے لوگوں کو ''سیہ تپتی سڑک پر یہ سر سبز پیڑوں کے سائے ‘‘ کے رومانوی مناظر یاد ہونگے ، مگر وائے حسرتا! قطار اندر قطار یہ گھنے درخت ہمارے چولہوں اور ان پیٹوں کا ایندھن بن گئے جو کبھی بھرتے ہی نہیں۔ زندہ قوم ہونا الگ بات ہے مگر رومانوی وابستگی کے بغیر ایسے قیمتی اثاثوں کی حفاظت ممکن بھی کس طرح ہے بھلا ؟ـ شیو کمار بٹالوی نے بستر مرگ پر درختوں سے ایسی وابستگی کا اظہار اپنی شاہکار نظم میں کیا تھا :
کُجھ رُکھ مینوں پُت لگدے نیں
کجھ رُکھ لگدے ماواں
کجھ رکھ نوہاں دھیاں لگدے
کجھ رکھ میرے دادے ورگے
پَتر ٹاواں ٹاواں
کجھ رکھ میری دادی ورگے
چُوری پائونڑ کاواں
کجھ رکھ میرے یاراں ورگے
میں چُماں تے گل لاواں
اِک رکھ میری محبوبہ ورگا
مِٹھا تے دُکھاواں
کجھ رکھ میرا دل کردا اے
میں چُماں تے مَر جاواں