گزشتہ سات دہائیوں میں اس ملک کے باشندوں پر کیا بیتی؟... احمد فرازؔ کے دو شعر اس تاریخ کا مکمل احاطہ کرتے ہیں:
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
آواز دے کے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
ہمیں یاد ہے، ہم سادہ دل تحریک آزادی کے وقت بھی سرِ بازار آئے تھے۔ تب ہمیں ایک آزاد، مہذب ، روشن خیال، جمہوری اور سماجی انصاف کی حامل ریاست کا خواب دکھایا گیا تھا۔ ہم زندگی کی اس آواز پر دیوانہ وار آئے تھے مگر وہ زندگی تو ماڑی پور کے فٹ پاتھ پر ہی روپوش ہو گئی ، جہاں قائد اعظم کی ایمبولینس خراب ہوئی تھی۔ ایمبولینس اکیلے خراب نہیں ہوئی، کمبخت ہماری بھی قسمت پھوڑ گئی۔ پہلا خواب سراب ہوا۔ معقولیت، رواداری اور وسیع النظری جیسی عزا دار آج بھی اسی فٹ پاتھ پر بال کھولے بین کر رہی ہیں۔ ہم بھی اس عزا خانے میں معتدل جمہوری ریاست کے ہجر میں گریہ کرنا چاہتے تھے مگر ہمیں اس کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہمارے غم کے نئے خریدار آ گئے تھے۔
ہم نہیں بھولے ، ہم سادہ دل پھر آ گئے تھے، جب محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کے برعکس تصورِ ریاست کے خوابوں کے بیوپاریوں نے ہمیں آواز دی۔ ہمارا یہ خواب بھی عذاب ہوا ۔ نظریہ پاکستان اور قرارداد مقاصد کی خوشنما آوازیں تو حقیقت میں شخصی و طبقاتی و مطلق العنانیت کی راہ ہموار کرنے کی مساعی جمیلہ نکلیں۔ لیاقت علی خان کا قتل، غلام محمد کا اسمبلی توڑنا، جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت تخلیق کر کے اس غلیظ عمل کو جائز قرار دینا اور سکندر مرزا کا مارشل لا لگوانا... کیسے کیسے غموں کے خریدار آئے اور ہمیں لوٹ کر چلتے بنے۔
ہمیں خوب یاد ہے، ہم 27 اکتوبر 1958ء کو بھی ایک نئی زندگی کے بلانے پر آئے تھے ۔ تب ایوب خان نے فوجی حکمرانی کی داغ بیل ڈال کر ہمیں ایک نئے سفر پر روانہ کیا تھا ۔ صدارتی آئین، کرپٹ سیاستدانوں پر عرصہ حیات کی تنگی، ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت کی شکست اور 65ء کی پاک بھارت جنگ اس زندگی کے کارہائے نمایاں تھے۔ دنیا میں بے توقیری اور ملکی معیشت کی تباہی نے نئے آسمان کی طرف اڑان بھرنے کا ہمارا یہ خواب بھی مٹی میں ملا دیا۔ ہم دوسرے آمر یحییٰ خان کا مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن بھی نہیں بھولے جس کے نتیجے میں 71ء کی پاک بھارت جنگ ہوئی اور ملک دو لخت ہوا۔
ہاں‘ ہمیں یاد ہے وہ ذرا ذرا، ہم ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کی حرارت سے بھرپور آواز پر بھی بے اختیار نکلے تھے ۔ ہم محروموں نے غم کے اس خریدار کے ہاتھ جی بھر کے اپنے خواب بیچے تھے۔ ہم جمہوری ریاست، 73ء کے متفقہ آئین، ایٹمی پروگرام کی بنیاد، سٹیل ملز ، واہ فیکٹری ، کامرہ کمپلیکس اور اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے علاوہ سیاسی شعور کی منازل طے کر کے دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام بنا رہے تھے کہ آمرِ سوم ضیا الحق نے آ کر ہمارے سارے خواب چکنا چور کر دیئے۔ زندگی ہمیں آواز دے کے پھر چھپ گئی تھی ۔ اس نے ہمیں، ہماری ریاست ، ہمارے آئین اور ہمارے منتخب نمائندوں کو اس خشوع و خضوع کے ساتھ بے توقیر کیا کہ ہم آج تک سر اٹھانے کے قابل نہیں ہو سکے۔
ہماری لوحِ یادداشت پر نقش ہے کہ ہم 16 نومبر 1988ء کے عام انتخابات کے دن بھی باہر آئے تھے، جب معتبر زندگی نے ایک بار پھر ہمیں آواز دی تھی ۔ ہم نے ایک مرتبہ پھر اپنے سارے خواب غم کی ایک خریدار کے حوالے کر دیئے تھے ۔ مگر اٹھارہ ماہ بعد ایک مردِ جری نے ہمارے خوابوں پر 58-2B کا کلہاڑا چلا دیا تھا۔ اس پاک صاف اور پارسا ہستی نے ہمارے نمائندوں پر کرپشن کے الزامات عائد کیے تھے ۔ ہمارے خوابوں نے دوبارہ سر اٹھایا ہی تھا کہ اسی مردِ جری غلام اسحاق خان نے 8 اپریل 1993ء کو بارِ دگر اپنا یہ کلہاڑا ان خوابوں سے لہولہان کر لیا۔ یہی عمل 1996ء میں فاروق لغاری نے کیا۔ 1999ء میں پرویز مشرف نے اپنے پیش روئوں کی سنت میں ہمارا خوابستان ہی لپیٹ دیا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ ہر دفعہ کرپشن کے الزامات کی رسی سے نئی زندگی کا گلا گھونٹا گیا۔
ہم کب بھولے ہیں کہ افتخار محمد چودھری کے بے لاگ انصاف نے بھی ہمیں آواز دی تھی ۔ ہم سادہ دل اس آواز پر بھی جوق در جوق آ گئے تھے، مگر وہ تو ارسلان افتخار کو باعز ت بری اور یوسف رضا گیلانی کو سزاوار ٹھہرانے والا انصاف نکلا۔ اس بے رحم انصاف نے ہمیں کوئی ریلیف دینے کے بجائے ہماری منتخب حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے ہی کو اپنا فرضِ اولین سمجھا۔ ہمیں 2014ء اور 2016ء کے دھرنوں نے بھی نئی زندگی کی نوید دی تھی مگر ہم حرماں نصیبوں کو ہر دفعہ اپنے خوابوں کی پوٹلیاں باندھے شرمندہ ہو کر واپس پلٹنا پڑا۔
آج ہمیں ایک اور نئی اور توانا زندگی نے پکارا ہے ۔ قانون کی نظر میں ہمارے منتخب وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے ، لہٰذا انہیں نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ یقینا یہ ہماری تاریخ کا اہم ترین موڑ ہے، جس کی اوٹ سے ایک معتبر، صادق اور امین پاکستان جھانک رہا ہے ۔ اب کے ہم اس یقین کے ساتھ خواب بیچنے آئے ہیں کہ اس دفعہ زندگی ہمیں مایوس نہیں کرے گی اور ہمارے سارے سنہرے خواب شرمندہ تعبیر ہوں گے۔ ایک ایسے صاف ستھرے پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی ہے جس میں کوئی خائن کسی عہدے پر نہیں رہے گا۔ ہمیں قوی یقین ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل بلا تفریق احتساب اور انصاف کے ذریعے منتخب اسمبلیوں کے تمام خائن چن چن کر نااہل اور جیلوں کی نذر کر دیئے جائیں گے۔ حتیٰ کہ 2018ء کے عام انتخابات کے وقت فقط آئین کے آرٹیکل 63,62 پر پورا اترنے والے صادق اور امین امیدوار ہی میدان میں رہ جائیں گے۔ لا محالہ یہ صادق اور امین امیدوار کامیاب ہو کر آئینی ترمیم کے ذریعے ان آرٹیکلز کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ملک کے تمام چھوٹے بڑے اداروں تک پھیلا دیں گے ۔ پھر کسی دوسرے ریاستی ادارے میں بھی کوئی خائن نہیں رہے گا۔ بے ایمان بیوروکریٹ ، پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے علمائے انصاف اور دیگر اداروں کے غیر ذمہ دار عناصر اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ یقینا اس کے بعد ان قوانین کا دائرہ نیچے تک پھیلا دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم سے لے کر چپڑاسی تک ہر عہدے پر پارسا اور خالص صادق و امین لوگ ہی متمکن ہوں گے۔ دنیا کے پاس یہ روحانی منظر دیکھ کر رشک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
ہمیں یقین ہے کہ اس دفعہ ایک توانا زندگی نے ہمیں آواز دی ہے ، جو ہم سے کبھی نہیں چھپے گی اور ہمارے سارے خوابوں کو تعبیر ملنے تک خم ٹھونک کر میدان میں کھڑی رہے گی... البتہ اگر خدانخواستہ اس دفعہ بھی ہم سے ہاتھ ہو گیا اور احتساب اور انصاف کا کمپیوٹر یہیں شٹ ڈائون ہو گیا تو ماضی کی طرح ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ :
خواب دیکھے سنہرے جتنے
زخم ہو گئے گہرے اتنے