جمہوریت کا قافلہ اور چکوال یونیورسٹی کا سوال

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ عشاق جمہوریت کا قافلہء سخت جاں جی ٹی روڈ پر رواں ہے۔ ہماری جمہوری جدوجہد کا نیا باب رقم ہو رہا ہے۔ ماضی کے ایسے ہی ایک سفر کے دوران ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال یاد ہے اور آج جس جوش و خروش اور ولولے سے عوامی طاقت کا سیلاب نواز شریف کی پذیرائی کر رہا ہے، اس سے کم از کم ایک بات ثابت ہے کہ اس ملک کے عوام جمہوریت کے سوا کوئی دوسرا نظام قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ستر برس کے بالواسطہ اور بلاواسطہ جبر کے دوران انہوں نے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں، حتیٰ کہ اپنا خون تک دیا مگر یہ قافلہء سخت جاں اپنے حقِ حکمرانی سے کبھی دستبردار نہیں ہوا۔ آج کا یہ سفر بھی اسی نظریاتی مسافت کا تسلسل ہے۔ تاریخ گواہی دے گی کہ پاکستان کے شہریوں نے جی ٹی روڈ کے اس سفر میں بھی ملکی انتظام و انصرام کے حوالے سے انہی ترجیحات پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کی ہے جو تحریک پاکستان کے سفر میں قائد اعظم نے ان پر ہمیشہ کے لیے واضح کر دی تھیں۔ نواز شریف کے اس تاریخی سفر پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ یہ ادنیٰ قلمکار بھی مسافرانِ جمہوریت کو مقدور بھر خراج تحسین پیش کرتا رہے گا تاہم آج ہم نے ایک اہم مقامی مسئلے پر کچھ گزارشات پیش کرنا ہیں۔ 
ہمارے ایم ایل اے راجہ سرفراز خان کی کوششوں سے گورنمنٹ کالج چکوال کا قیام1949ء میں عمل میں آیا۔ 305 کنال کے رقبہ پر محیط اس کالج کے لیے راجہ سرفراز خان نے اراضی کے علاوہ ذاتی جیب سے کثیر رقم کا عطیہ بھی دیا تھا۔ تب چکوال ضلع جہلم کی پسماندہ سی تحصیل تھی اور قیام پاکستان کے بعد ملک کے کسی بھی دیہی علاقے کے لیے یہ پہلا گورنمنٹ ڈگری کالج قائم ہوا تھا۔ ہمارے علاقے کے نامور جرنیلوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبہ جات میں اپنی خدمات انجام دینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، جو اس کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس کالج سے فارغ التحصیل لوگوں کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک بھی وطن کا نام روشن کر رہی ہے۔ 
1989ء میں اس ڈگری کالج کو پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت 2200 سے زائد طلبا و طالبات یہاں انٹرمیڈیٹ، بی ایس اور ماسٹرز لیول کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بی ایس کے آٹھ مضامین پڑھائے جا رہے ہیں جبکہ 90 کے قریب اساتذہ اس ادارے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں 75 فیصد اپنے اپنے شعبے میں ایم فل کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں جبکہ تین پی ایچ ڈی پروفیسر ز بھی یہاں پڑھا رہے ہیں۔ اساتذہ ، ڈیپارٹمنٹس ، بلڈنگز ،کلاس رومز، سائنس ،آئی ٹی لیبز، لائبریری، گرلز ہاسٹل اور انفراسٹرکچر کی کمی اور بوائز ہاسٹل کی وسعت کی ضرورت کے باوجود کالج کا رزلٹ نہایت حوصلہ افزا ہے۔ صرف اس سال لگ بھگ تین سو طلبا و طالبات اچھے نتائج کی بنا پر وزیراعلیٰ سکیم کے تحت لیپ ٹاپ حاصل کر چکے ہیں۔ درج بالا سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے جہاں ادارہ بی ایس اور ایم اے کی سطح پر مزید مضامین کا اجرا نہیں کر پا رہا، وہاں ہر سال ادارے میں داخلے کے خواہشمند طالب علموں میں سے دو تہائی تعداد داخلے سے محروم رہ جاتی ہے۔ 
2013ء کی انتخابی مہم کے دوران اس پسماندہ علاقے کے عوام کا سب سے بڑا مطالبہ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کو ایک خود مختار یونیورسٹی کا درجہ دینے کا تھا۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے یہاں آ کر دوٹوک الفاظ میں یہ مطالبہ تسلیم کرنے اور چکوال یونیورسٹی کے قیام کے اعلانات کیے تاہم اس کے برعکس 2014ء میں اس ادارے کو گجرات یونیورسٹی کا سب کیمپس بنانے کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا۔ تب سول سوسائٹی، کالج اساتذہ اور عوامی نمائندوں کے احتجاج پر یہ فیصلہ واپس ہوا۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ اس وقت اس غریب علاقے کے طالب علم بی ایس کے لیے فی ٹرم چار ہزار روپے فیس ادا کر رہے ہیں جبکہ گجرات یونیورسٹی کا سب کیمپس بننے کی صورت میں ہر طالب علم کو تقریباً 32ہزار روپے فی سمسٹر ادا کرنا پڑیں گے۔ تب ہم نے عرض کیا تھا کہ چکوال شہر میں اس ایک کالج کے علاوہ اور کوئی گورنمنٹ بوائز کالج نہیں ہے اور اسے گجرات یونیورسٹی کا سب کیمپس بنانے کی صورت میں شہر اور 84مضافاتی گائو ں کے طلبا و طالبات سستی تعلیم کی نعمت سے محروم ہو جائیں گے ۔ 
یونیورسٹی کے قیام کا وعدہ پورا کرنے کی بجائے اب صوبائی حکومت کی جانب سے ایک اور غیر منطقی فیصلہ کیا گیا ہے ۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کی 30کنال اراضی شہر کے نئے گورنمنٹ گرلز کالج کے نام منتقل کرکے اس منصوبے پر کام شرو ع کر دیا گیا ہے۔ چکوال میں ایک گورنمنٹ کالج برائے خواتین پہلے ہی سے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ پچاس کنال سے زائد رقبے پر محیط ہے مگر اساتذہ خصوصاً سائنس ٹیچرزاور دیگر سہولتوں کی شدید کمی کی بنا پر گوناگوں مسائل کا شکار ہے ۔ اس کالج میں پرویز مشرف کے دور میں نئی بلڈنگ بھی بنائی گئی جو تاحال مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائی جا سکی۔ حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسی گرلز کالج کو اپ گریڈ کیا جاتا اور وہاں ہی نئی تعمیرات کر کے اوراساتذہ اور دیگر سہولتوںکی کمی کو پورا کر کے دوسرے گرلز کالج کی ضرورت پوری کر لی جاتی ۔ تاہم اس کی بجائے پوسٹ گریجویٹ کالج کی زمین میں یہ کالج قائم کرنے کا عجیب و غریب فیصلہ کیا گیا ہے ۔ستم ظریفی دیکھیے کہ پہلے سے موجود وویمن کالج میں اساتذہ بھی پورے نہیں اور ایسے ہی ایک اور ادارے کی تعمیر پر کام شروع ہو چکا ہے ۔ نیز پوسٹ گریجویٹ کالج کی جو سائیڈ حاصل کر کے گرلز کالج کی تعمیر شروع کی گئی ہے ، وہ محل وقوع کے اعتبار سے شہر کا نہایت گنجان آباد علاقہ ہے جو اپنی تنگ دامنی کی بنا پر پہلے ہی سکیورٹی اور ٹریفک کے مسائل کا شکار ہے ۔ کالج کے قیام کے بعد ان مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گا جن کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ 
دوسری طرف پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی بجائے چکوال میں پنجاب یونیورسٹی کا سب کیمپس بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس کارِ خیر کی خاطر علاقے میں نئی جگہ کی تلا ش بھی جاری ہے ۔ حیرت انگیز امر ہے کہ جب شہر میں پوسٹ گریجویٹ کالج موجود ہے اور ضلع بھر میں کوئی سرکاری یونیورسٹی بھی نہیں تو پھر الگ سے سرکاری خزانے پر بوجھ ڈال کر پنجاب یونیورسٹی کا سب کیمپس بنانا چہ معنی دارد؟ جہاں تک یونیورسٹی کے قیام کے لیے 600کنال اراضی کی مقررہ حد کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ یہاں کی ہزاروں کنال سرکاری اراضی قبضہ مافیا کے زیر تسلط ہے ۔ اس پوسٹ گریجویٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر اس کا دوسرا کیمپس ایسی ہی کوئی سرکاری اراضی واگزار کرا کے قائم کیا جا سکتا ہے۔ 
چکوال کے شہری ہر دور میں جمہوری قافلوں میں شریک رہے ہیں اور رہیں گے ۔ دفاعِ وطن کی تاریخ بھی ہمارے خون سے درخشاں ہے کہ ضلع کے ہر قبرستان میں شہید فوجیوں کی قبریں موجود ہیں ۔ اس علاقے کے لوگ تعمیر وطن کے سلسلے میں آئندہ بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے ۔ البتہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کی خاطر چکوال یونیورسٹی کے قیام کے مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے ۔ وہ تب تک اپنا جائز مطالبہ دہراتے رہیں گے جب تک حکومت کی جانب سے چکوال یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں