رفتگان بھی کیا کیا دل سوز منظر کشی کر گئے ہیں:
یار و اغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فرازؔ
اور سب دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تُو تھا
حالات میاں نواز شریف کو اس موڑ پر لے آئے ہیں کہ آج وہ بیک وقت ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما بھی ہیں اور طعن و تشنیع کے تیروں کی ز د میں بھی۔ انہوں نے اسلام آباد سے لاہور تک چار روزہ سفر میں جہاں عوامی سیلاب کی طر ف سے اپنی پذیرائی دیکھی ہے ، وہاں اپنی جانب ترازو '' یارو اغیار ‘‘ کے ہاتھوں کی کمانیں بھی ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔ وہ جو شعیبؔ بن عزیز نے کہا ہے '' اس طرح تو ہوتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں ‘‘ ...جس مسافت کے لیے نواز شریف نے رخت سفر باندھا ہے ، اس میں اس طرح تو ہوتا ہی ہے ۔ووٹ کی حرمت کے لیے بھٹو باہر نکلا ، بے نظیر یا نواز شریف ، سب کو ایک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے عوام کی بیکراں محبتیں بھی سمیٹیں اور مخالفین کی تنقید کے تیرو نشتر سے چھلنی بھی ہوئے ۔ قائداعظم کے بعد ہماری تاریخ کے سب سے مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے تو ایمان پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ۔ بے نظیر بھٹو کا1986ء کا تاریخی استقبال بے نظیر تھا ۔تب ان کی کردار کشی کی ایسی ایسی شرمناک مثالیں قائم کی گئیں کہ جنہیں احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ آج جب نواز شریف کا جی ٹی روڈپر ایسا ہی تاریخی استقبال ہوا ہے تو انہیں بھی بہت سی کمانوں کا رخ اپنی طرف نظر آ رہا ہے ۔ ہماری تاریخ میں مقبول عوامی رہنمائوں کے ساتھ یوں بھی ہوتا رہا ہے کہ :
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے
وا حسرتا ! عوام کے لیے آمرانہ لُو کے تھپیڑے تھم گئے مگر جمہوریت کی آسودگی بخش ہوائوں کے سامنے دیوار کھڑی کرنے کی خُو نہ گئی ۔ مہذب دنیا کی طرح جمہوری اقدار مضبوط بنانے کی بجائے آج بھی دشنام طرازیوں کا بازار گرم ہے ۔ ایک بات طے ہے کہ وطن عزیز میں با اختیار سول قیادت اور آئین کی بالا دستی کی جدوجہد خار زار کا سفر ہے ۔ ایسے مسافر کی راہ میں بہت سی دیکھی اور اَن دیکھی طاقتیں سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہیں۔ سیاست اور میڈیا کے لٹھ بردار برادرانِ ملت نے جس اسلوب سے تین دفعہ عوامی ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کو نشانے پر رکھ لیا ہے ، اس سے تو لگتا ہے کہ نواز شریف نے بیلٹ باکس کی بجائے توپ و تفنگ کے زور پر اقتدار حاصل کیا۔ ہماری '' اخلاقی اقدار ‘‘ اور ''جمہوری رویے ‘‘ اتنے مضبوط ہیں کہ ایوب خان نے آمریت کی بنیاد رکھی تو ستم گروں نے اسے ''مرد آہن‘‘ کے لقب سے ملقب کیا۔ یحییٰ خان نے ملک دو لخت کیا تو '' محافظ ملت ‘‘ ضیاء الحق نے جمہوریت پر شب خون مارا تو ''مردِ مومن‘‘ اور پرویز مشرف نے منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے سے برطرف کیا تو''قائداعظم ثانی‘‘ ٹھہرامگر نواز شریف عوامی عدالت سے منتخب ہوکر آیا تو اس کے لیے '' کرپٹ ‘‘کی ترکیب وضع فرمائی گئی ۔ یہا ں جو بھی وو ٹ کی حرمت اور عوامی حاکمیت کی بحالی کے سفر پر نکلا ، اس کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے کہ :
عجب جنگ رہی میری ، میرے عہد کے ساتھ
میں اس کے جال کو ، وہ میرے پَر کترتا رہا
نواز شریف کو عدالت عظمیٰ کے فاضل بینچ نے ایک غیر ملکی کمپنی کے عہدیدار کی حیثیت سے تنخواہ وصول نہ کرنے پر نااہل قرار دیاہے۔ ان کے خاندان کے خلاف مختلف ریفرنس ابھی دائر ہونے ہیں جن پر عدالت کی جانب سے احکامات جاری ہوں گے ۔ نواز شریف نے پاناماکیس پر عدالت عظمیٰ کے 28جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کردی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ معزز عدالت نے اثاثے کی جس تعریف پر انحصار کیا ہے وہ قانون کی کسی ڈکشنری میں نہیں ہے نیز درخواست میں جے آئی ٹی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان ریفرنسز اور از سرِ نو جائزے کی درخواست پر فیصلے عدالتوں نے کرنے ہیں مگر یہاں ہر کوئی اپنی اپنی عدالت لگا کر نواز شریف کے لیے اپنی مرضی کے سائز کا پھندا تیار کیے بیٹھا ہے ۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ سات عشروں میں بھی ہم اپنا متفقہ قومی بیانیہ تشکیل دے کرمنزل کی سمت کا تعین نہیں کر سکے ۔ اس سلسلے میں سب سے لاغر کردار سیاسی جماعتوں کا رہا ہے ۔ یہاں ہر دفعہ عہدِ آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کا باب فضیلت کھلنے کے بعد کبھی اسے اپنا سکہ جمانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہماری جمہوریت کے چیمپئن کہلانے کی شوقین سیاسی جماعتیں اس کارِ خیر کے لیے کبھی متفق نہیں ہو سکیں۔ اگر ہمارے رہنمائے کرام متفق ہوتے بھی ہیں تو برسرِ اقتدار جماعت کے پائوں کے نیچے سے زمین سرکانے پر ۔ یہی کچھ آج نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔انہوںنے عوامی ووٹ کے تقدس کے لیے جی ٹی روڈ پر سفرِ انقلاب کا قصد کیا تو انہیں موسم کی سختیوں اور سکیورٹی کے حوالے سے ان کی جان کو لاحق خطرات سے ڈرایا گیا۔ ایسے خطرات کی قلعی رئیسؔ امروہوی نے بہت پہلے کھول دی تھی کہ :
موسم کے حوادث سے عبث ہے ہیبت
کچھ اور حوادث کا ہے خطرہ حضرت
سب سے بڑا طوفان شعور جمہور
سب سے بڑا سیلاب عوامی طاقت
میاں نوازشریف نے اسلام آباد سے لاہور کے نظریاتی سفر کے بعد ملک بھر کے دوروں کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیاسی بلوغت کی اس مسافت میں اگر عوامی طاقت کا سیلاب اور شعورِ جمہوریت کا طوفان ان کا ہم سفر ہو گیا تو ہم حقیقی عوامی حاکمیت کی منزل کے در پر دستک دے سکتے ہیں۔ یہ کوئی خیالی منظرنہیں۔دنیامیںجہاں بھی اقتدارواختیارکامنبع عوام ٹھرے ہیں،وہاں مسافرانِ جمہوریت کاقافلہ سخت جاں سوئے منزل چلاہے تواس نے مرادپائی ہے۔عوامی حاکمیت کاانقلاب کسی کو بھی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیاگیا۔تاہم یہ خیرالعمل جہدمسلسل اورقربانیوں کامتقاضی ہے۔ہماری تاریخ میں بھی مادرملت کی جدوجہدسے لے کر بھٹو کے انقلابی سفرتک اورایم آرڈی کی تحریک بحالی جمہوریت سے لے کرنوازشریف کی حالیہ مسافت تک ،اس سفرمیںبے شمار رکاوٹیں ایستادہ نظر آتی ہیں۔آج کہاجارہاہے کہ نوازشریف اکیلاہے۔یادش بخیر!بھٹوبھی اکیلا ہی نکلاتھامگرجب ووٹ کی حرمت کا سودالیڈر کے من میں سماجائے توعوا م میں شعورِجمہوریت کا طوفان خود ہی سر اٹھانے لگتاہے اورقافلہ سخت جاں وجودمیں آجاتاہے۔مجروح سلطانپوری نے کہاہے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایان شوق
خار سے گل اورگل سے گلستاں بنتاگیا