خدا آپ کا بھلا کرے، ہمیں فکری پختگی اور پیشہ ورانہ ہنر مندی کا دعویٰ نہیں۔ ہماری کسی سنجیدہ تحریر یا سیاسی تجزیے کا حالات و واقعات کی کسوٹی پر پورا اترنا بھی ضروری نہیں۔ کرنل محمد خان کی نگری کا باسی تو بنیادی طور پر طنز و مزاح کی صنف کا طالب علم ہے۔ مگر کیا کیا جائے صاحب کہ بندہ بشر نا مساعد ملکی حالات سے متاثر تو ہوتا ہی ہے۔
پیارے وطن کے بحران در بحران سنجیدہ کالم لکھنے پر مجبور کرتے ہیں اور جواباً ہمارے ایسے بے نوا بھی درباری قلمکار کا خطاب پاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے الزامات کا کوئی ٹھوس جواب تو نہیں، البتہ اگر ایسا سمجھنے والے برادران و ہمشیرگان شکر دوپہرے ہمیں ٹاہلی کے نیچے چارپائی پر بیٹھے مشقِ سخن کرتا دیکھ لیں تو شاید اپنے موقف پر نظرثانی پر مجبور ہو جائیں۔ بخدا ہم جس دیہہ میں رہتے ہیں، وہاں اس جان لیوا حبس میں بھی بجلی دس دس گھنٹے بند رہتی ہے۔ یقین فرمائیں کہ اگر ہماری کسی دربار تک رسائی ہوتی تو کم از کم چکوال کے اس بھگوال گرڈ سٹیشن کے ایس ڈی او سے لے کر لائن مین تک تمام عملہ آج بہاولپور جیل کے تندور سے ملحق اس بیرک میں ہوتا، جہاں بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں شیخ رشید کو رکھا گیا تھا۔
حالات مجبور کرتے ہیں صاحب‘ ورنہ ہم تو رضا ربانی کی طرف سے آئین میں مجوزہ تبدیلیوں اور اقتدار و اختیار کے سرچشموں کو مل بیٹھنے کی تجویز پر اخبار کے صفحات کالے کرنے کی بجائے اپنی گڑ چوری کی داستانیں دراز کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نواز شریف، عمران خان اور طاہرالقادری کے تصورِ تبدیلی کے موازنے کے بجائے ایک چرواہے کی حیثیت سے اپنے تجربے کی روشنی میں بھیڑ بکریوں کی نفسیات پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ بھیڑ بکریوں میں کوئی شعور وعور نہیں ہوتا۔ ان کا ''ریمورٹ کنٹرول‘‘ چرواہے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ جدھر ہانکے یہ چل پڑتی ہیں۔ کبھی کبھی تو خود چرواہے کا ریمورٹ کنٹرول بھی کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگرچہ بھیڑ بکریوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں مگر کبھی آپ کی خدمت میں تفصیل سے عرض کریں گے کہ اگر ان کو یہ اختیار حاصل ہو بھی جائے تو انہیں اپنے مینڈیٹ کی اہمیت اور حرمت کا رَتی برابر احساس نہیں ہو گا۔ ہم نے اس گائو ں کی چراگاہوں میں بھیڑ بکریوں کے درمیان ایک عمر بیتا کر حتمی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انہیں قطعاً پروا نہیں ہوتی کہ ان کو ٹنڈ منڈ کرکے ان کے بالوں سے کمبل بنائے گئے ہیں یا ان کی کھال سے جوتے۔
حالات مجبور کرتے ہیں صاحب‘ ورنہ ہم تو دھرنا جاتی مفاد کی بجائے محلہ جاتی مفاد کی باتیں لکھنا چاہتے ہیں، جو بڑا نازک ہوتا ہے۔ ہم کسی بھی دھرنے یا لانگ مارچ کے مقاصد کے مقابلے میں محلے کے مفاد پر روشنی ڈالنے کے خواہشمند ہیں کہ جب کسی دوسرے محلے کا کوئی نوجوان گلیوں کے پھیرے لگا کر اس محلے سے ''نازک اندام مفاد‘‘ کشید کرتا نظر آئے تو علاقے کے غیور نوجوان کیسے مشتعل ہو کر کہتے ہیں ''اسیں مر گئے آں؟‘‘ یقین جانیے کہ ہم صدارتی نظام اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی تجاویز کے مضمرات سے زیادہ ملک میں پھیلتی فحاشی اور عریانی کی دہانی دینا چاہتے ہیں، جس نے ہماری جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ ہم اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی بجائے اہل دیہات کی بادشاہ طبیعتوں کا ذکر کرنا پسند کرتے ہیں کہ کیسے ہم دیر سویر سے ترنگ میں آ کر سواری کے لیے اپنی گاڑیاں نکال کر شہر جا پہنچتے ہیں۔ ایسے میں اہل شہر ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ارے پینڈوئو! کدھر رواں ٹریفک میں ٹریکٹر گھسیڑ لائے ہو کہ سڑک ہی بلاک ہو گئی ہے۔ جواب میں ہم زندہ دلانِ دیہات ایکسیلیٹر پر ذرا پائوں دبا کر کہتے ہیں کہ جب شاہراہِ دستور پر بڑی گاڑیاں آ کر پورے ملک کی ''ٹریفک ‘‘بلاک کر دیتی ہیں، تب بھی ایسے ہی دہائی دیا کرو شہریو۔
حالات مجبور کرتے ہیں صاحب‘ ورنہ ہم تو اپنے نظام کو لاحق وائرس کے مقابلے میں اپنی کچی مٹی پر رِم جھم بارش سے جلترنگ بجنے کے سروں کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ چاند راتوں میں بانسری کے سینے سے نکلنے والے دلگداز سروں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ دلوں کے تار چھیڑنے والی کیف آفریں شاعری اور موسیقی کی گفتگو کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ہم کشش ثقل کی خشک تقریر کی بجائے کسی دلفریب ''کشش شکل‘‘ کی یادیں تازہ کرنے کے متمنی ہیں۔ ہم اسوج کے مہینے میں اپنے باجرے کی راکھی کے قصے بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ جیسے ہم کسانوں کو اپنی فصلوں کی حفاظت کرنا پڑتی ہے، اسی طرح قوموں کو بھی اپنے مفادات کی فصلوں کی راکھی کرنی چاہیے ورنہ چرند پرند اور ڈھور ڈنگر انہیں کھا جاتے ہیں۔ یقین جانیے کہ ہمارا دل کسی بھی عدالتی فیصلے پر تبصرے کی بجائے وہ واردات قلبی بیان کرنے پر مچلتا ہے جو بادوباراں کی ایک رات یو ٹیوب پر کلیم عثمانی کا شاہکار گیت مہدی حسن کی لافانی آواز میں سنتے‘ ہمیں ماضی کی بھول بھلیوں میں لے گئی تھی کہ:
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی
تری زلف کو چھو کر آج ہوئی خاموش ہوا دیوانی سی
استادِ محترم عطاء الحق قاسمی نے ''منہ بسورتے کالموں پر معذرت‘‘ کے عنوان سے جو دل سوز کالم باندھا ہے، وہ ہمارے جذبات کا صحیح ترجماں ہے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں اور سنجیدہ و سیاسی کالم لکھنا انہیں کبھی اچھا نہیں لگا۔ فرماتے ہیں کہ میں خود بھی خوش رہنا چاہتا ہوں اور پاکستانی عوام کے چہروں پر سدا بہار مسکراہٹ دیکھنے کا خواہشمند بھی ہوں۔ میں ایک پُرسکون زندگی چاہتا ہوں، اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔ تاہم ان کے خیال میں ایسا آئیڈیل ماحول تبھی ممکن ہے، جب ہم اپنے ہاں کسی نظام کو مستقل چلنے دیں اور تبدیلی کا حق عوام کے پاس رہنے دیں۔ انصاف سب کے لیے یکساں ہو اور ہوتا نظر بھی آئے۔ عوام کسی جماعت کو پانچ سال کے لیے ملکی نظم و نسق چلانے کا اختیار دیں تو اسے آزادی سے کام کرنے دیا جائے اور ''میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کے ابتدائی کلمات سے اس کا یہ حق نہ چھینا جائے۔ نیز برادرانِ میڈیا بھی صحافتی اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے امن و آتشی کا ماحول پیدا کرنے کی سعی کریں۔
حالات مجبور کرتے ہیں صاحب‘ ورنہ بہت سے پڑھنے والوں کی طرح ہم بھی منہ بسورتے کالم لکھنے پر خوش نہیں ہیں۔ بخدا ہم خود بھی خوش رہنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام کے چہروں پر سدا بہار مسکراہٹ دیکھنے کے خواہشمند بھی ہیں۔ ہم تو عدمؔ کے مقلد ہیں جو کہتا ہے:
صدا دو زمانے کی مایوسیوں کو
تبسم کی خیرات ہونے لگی ہے
مگر کیا کیا جائے صاحب! ہم سادہ دلوں کی مجبوری ہے کہ ہم سیاسی بلوغت کے کسی بھی سفر کی حمایت سے باز نہیں رہ سکتے۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں، مگر وہ جو مصطفی زیدی نے اپنا جرم قبول کرتے ہوئے شکوہ کیا ہے کہ:
میرا توجرم تذکرہء عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں
ہمارے جرم کے تذکرے زبان زدِ عا م ہیں مگر ہماری داغ داغ تاریخ کی جھاڑیوں میں اٹکی ہمارے مینڈیٹ کی دھجیوں کی کوئی بات نہیں کرتا۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ اس بازار میں آج بھی آشفتہ سروں کے مقابلے میں ''زلیخا‘‘ ہی کی چلتی ہے کہ:
جھوٹی تہمت ہی سہی دامن یوسف پہ مگر
مصر میں اب بھی زلیخا کی سنی جاتی ہے