مضافات کی عید اور منتیں مرادیں (آخری حصہ)

انشاء اللہ ہماری اس ایڈوانس مَنت سے آپ سخی ڈانگ والی سرکار کی کرامات دیکھیں گے کہ ٹرمپ کی کسی احمقانہ حرکت کے نتیجے میں پاکستان کیسے امریکی قبرستان بنتا ہے۔ تاہم یہ منت دیتے ہی ہمیں اسی مضمون کی ایک اور تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ گویا ہمیں بارِ دگر دربار ہٰذا کا سفر درپیش ہے۔ 
دنیا کے پانچ اہم ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کی تنظیم ''برکس‘‘ نے پاکستان میں مبینہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ چین میں ہونے والی اس کانفرنس میں برکس نے ٹرمپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، داعش اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا ارتکاب، انتظام یا مدد کرنے کے ذمہ داروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیا گیا ہے۔ گویا پاکستان نہ ہوا، خانہئِ انوریؔ ہو گیا۔ فارسی کے شاعر انوریؔ کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ آسمان سے جو بھی مصیبت اترتی ہے، وہ انوریؔ کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔ ہماری اندرونی مصیبتیں کیا کم ہیں کہ دنیا بھی وطن عزیز کو انوریؔ کا گھر بنانے پر تُلی ہے؟ 
ہمیں تو یہ کسی بڑی بین الاقوامی تمثیل کا سکرپٹ لگتا ہے، جس کا مقصد اس ایٹمی طاقت کے خلاف دنیا کو اکٹھا کرنا ہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے‘ ہم نے کبھی کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے، نہ کسی دہشت گرد تنظیم کی حمایت یا اس کے سہولت کار کا مکروہ کردار ادا کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اعلامیے میں حقیقت کم اور فسانہ زیادہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ چین جیسے جن برادران پر تکیہ تھا، وہ پتے بھی اب ہوا دینے لگے ہیں، اور ''ہٹی سڑے کراڑ دی‘‘... بھارت امریکی دھمکیوں اور برکس کے اعلامیے کو ہمارے خلاف اپنی فتح قرار دے رہا ہے تاہم ہم وطنوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے اس ابتلا سے نجات کے لیے بھی باوا ڈانگ والی سرکار کی خانقاہ پر دیسی مرغے ذبح کرنے کی منت مانگ لی ہے۔ اُمید ہے کہ سخی بادشاہ ہمیں اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کا مشورہ دینے کی بجائے ہماری منت قبول کرے گا اور دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں گے۔ 
سچ پوچھیں تو ان منتوں، مرادوں اور چڑھاووں کی مصروفیات نے ہمیں ذاتی مسائل کے علاوہ کئی دوسرے ضروری معاملات سے بے نیاز کر رکھا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، جناب سراج الحق کا ایک بیان پڑھ کر ہم شرم سے ایسے ڈوبے، جیسے حالیہ بارشوں سے کراچی۔ آپ نے تحصیل ثمر باغ میں عید ملن پارٹی سے اپنے خطاب میں فرمایا کہ برما میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف عالم اسلام کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ یہ سنتے ہی ہمیں شدت سے اپنی کوتاہی کا احساس ہوا‘ اور ہم نے فوراً برما میں ظلم کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر چڑیاں والی سرکار کی مرقد پر بکرا دینے کی منت مانگ لی۔ اللہ نے چاہا تو برما میں امن قائم ہوتے ہی ہم گھاٹیاں اور کھائیاں عبور کرتے سرکار کی خدمت میں اپنی منت دینے حاضر ہو جائیں گے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جناب سراج الحق کن مصروفیات کی بنا پر عالم اسلام کے کچھ مسائل پر توجہ نہ دے سکے‘ مگر یہاں پر ہم اپنی اس شرمندگی کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے کہ منتوں کی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے عالم اسلام کے کئی اہم مسائل سے نادانستہ ہم سے چشم پوشی ہوتی رہی ہے۔ مثلاً یمن بھی ایک برادر اسلامی ملک ہے جس پر ایک جنگ مسلط ہے اور نامناسب خوراک اور پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہزارہا بچے بیماریوں کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ شام کے شہر حلب میں کتنے ہی مسلمان خانہ جنگی کا شکار ہوئے اور باغیوں کے علاقے میں تین لاکھ سے زائد افراد تین برس تک خوراک اور ادویات سے محروم رہے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ غیر مسلموں کو ان مظلوموں کا خیال آ گیا اور انہوں نے ان غریب الوطنوں کو پناہ دی، مگر بدقسمتی سے ہمارا ان کی طرف دھیان نہیں گیا‘ اور ہم نے ان کے حق میں کوئی منت نہیں دی۔ اپنی کوتاہیوں کا ذکر چل نکلا ہے تو لگے ہاتھوں ہم یہ اعتراف بھی کر لیں کہ عراقی مسلمانوں پر امریکی اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی روک تھام کے سلسلے میں بھی ہم سے سخت کوتاہی ہوئی ورنہ شاید حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ 
ملک میں جاری حالیہ سیاسی بحران کے حل کے لیے بھی ہم نے کبوتروں والی سرکار کی خانقاہ پر پورے پانچ عدد دیسی مرغے ذبح کرکے کھانے کی منت مانگ رکھی ہے۔ انشاء اللہ ایک دن ہماری یہ مراد بھی پوری ہو گی، ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ہم کسی مناسب موقع پر منت ہٰذا دینے دربار عالیہ پر اپنی حاضری یقینی بنائیں گے۔ اپنے مستقبل کے عزائم سے بھی آپ کو آگاہ کرتے چلیں کہ آئندہ کے لیے ہمارے پیش نظر دو اہم ترین مشن ہیں۔ ایک‘ دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لیے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت کا قیام اور دوسرا ملک کے اندر نون لیگ کو پچھاڑ کر اپنے پسندیدہ لیڈر عمران خان کی حکومت کا قیام۔ ہر دو مقاصد کے لیے ہمارے گروہ نے بالترتیب گمٹی والے بادشاہ اور سخی راوی والے کے درباروں پر گوشت پکانے کا عہد کر رکھا ہے۔ ان دو مقاصد کے لیے ہمیں منتیں ماننے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ جہاں ہمیں افغانستان میں اپنے سٹریٹجک مفادات کی جنگ میں کامیابی نظر نہیں آ رہی، وہاں اپنے نیم خواندہ ووٹروں سے بھی ہماری کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہیں۔ آپ کی دعا سے ہماری یہ مرادیں بھی پوری ہوں گی اور ہم سرما کے کسی چمکیلے دن اپنے بکروں اور مرغوں کے ہمراہ سوئے منزل روانہ ہوں گے۔ 
اگر آپ بھی ہماری کامیابیوں سے متاثر ہوکر اس دشت کی سیاحی میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ تاہم اس سے قبل آپ کو ہماری چند نصیحتیں پلے سے باندھنا ہوں گی۔ پہلی یہ کہ ہمیشہ آبادی سے دور اور نہر کنارے ویرانے یا جنگل میں کسی دربار کا انتخاب کریں، جہاں بندہ نہ بندے کی ذات ہو تاکہ آپ بغیر کسی مداخلت اور خشو ع و خضوع سے اپنی منت دے سکیں۔ نیز اپنے دوستوں کے علاوہ کبھی بھی دوسروں‘ خصوصاً غریب غرباء کو دعوت نہ دیں۔ اس سے ایک تو خواہ مخواہ آپ کی نیکی کی تشہیر ہو جائے گی اور دوسرے منت کا مزہ بھی کِرکرا ہو جائے گا۔ دوسری نصیحت یہ ہے کہ کھانا خود پکائیں۔ یہ نفس کو مارنے کا بہترین طریقہ ہے کہ اگر آپ کے دستِ مبارک کا بنا ہوا کھانا دوسروں کو کھانا پڑے تو ان پر کیا بیتے گی۔ یاد رہے کہ لجپالوں کے درباروں میں آپ کو ہر طرح کے برتن، چٹائیاں اور گھنے پیڑوں کی مہرباں چھائوں مفت میسر ہو گی۔ تیسری نصیحت یہ ہے کہ ہمیشہ منت کی نیت سے جائیں، پکنک کی نہیں‘ البتہ وہاں جا کر بے شک نہر یا دریا میں نہائیں یا کرکٹ کھیلیں کوئی مضائقہ نہیں۔ چوتھی یہ کہ پیدل آنے جانے کو ترجیح دیں اس سے ایک تو منت کی قبولیت کا درجہ بلند ہوتا ہے اور دوسرے صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آخری کو چاہے آپ نصیحت سمجھیں یا وصیت مگر ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ بکرا یا مرغ کبھی بھی بزرگ نہ ہو، یہ گلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔
آپ یقین فرمائیں کہ اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے یہ صدری نسخہ ہے۔ ثبوت زیر نظر ہے کہ جب بھی ہماری کرکٹ ٹیم کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو اس جیت میں ہمارے مرغوں اور بکروں کا خون بھی شامل ہوتا ہے۔ تو پھر بسم اللہ کیجئے کہ مسائل کے حل کیلئے اس سے بہتر شارٹ کٹ کوئی نہیں۔ دوستو! خانقاہوں کے باوے بڑے لجپال ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں منتیں دینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بغیر ہاتھ پائوں ہلائے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی تو دنیا کے کئی ممالک بغیر کسی منصوبہ بندی یا ہاتھ پائوں ہلائے ''درگاہوں‘‘ پر منتیں دینے ہی سے تو چل رہے ہیں۔ آپ بھی اقبال کا پیغام کتابوں ہی میں رہنے دیں کہ ''نکل کر خانقاہوں سے، ادا کر رسمِ شبیری‘‘... اور بے خطر کود پڑیں منتوں، مرادوں اور چڑھاووں کے میدان میں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں