کہیں آپ کا تعلق ملک کے اس اقلیتی مکتبہ فکر سے تو نہیں ، جس کا محبوب مشغلہ سوچ کی صلیب سے چمگادڑوں کی طرح الٹا لٹک کر قومی تشخص مجروح کرنا ہے ؟
ہو سکتا ہے کہ آپ ملک کے داخلی تنائو ، غیر یقینی پن اور سلگتے بیرونی اُفق پر دل گرفتہ ہوں ۔ ممکن ہے کہ اپنی داخلی و خارجی پالیسیوں کے طفیل سفارتی سطح پر تنہائی آپ کو کاٹتی ہو ۔ آپ علم و تحقیق کے میدا ن میں دنیا سے پیچھے رہ جانے پر دل گرفتہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ کہیں گے کہ ملک میں بڑھتی آبادی ، انتہا پسندی اور جہالت کے مہیب سایوں نے آپ کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں تو ہم اس پر بھی یقین کر لیں گے ...مگر صاحب، آپ بھی یقین فرما لیں کہ ملک کی غالب اکثریت یعنی اصحاب دانش کی کہکشاں کی ترجیحات آپ کے اقلیتی طبقہ سے بالکل مختلف ہیں ۔ ہم قلندر مزاج تین حرف بھیجتے ہیں ایسے مسائل پر ، ہم تو ماہرہ خان کے رنبیر کپور کے ساتھ قابل اعتراض لباس میں سگریٹ پینے پر مضطرب ہیں اور یہی اس وقت وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔
حیرت ہے کہ ملک میں شیش ناگ جذبات کا طوفان آیا ہے اور آپ لاہور کے ضمنی انتخاب میں کالعدم تنظیموں کے حصہ لینے پر رنجیدہ ہیں۔ وطن کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور آپ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کی بحث میں غوطہ زن ہیں۔ ایک با کردار اور با حیا قوم کی بد بخت عورت نے قومی غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے اور آپ انسدادِ ہراسیت کے موثر قوانین چاہتے ہیں ۔ ناہنجار نے ہم نیکو کاروں کی ریاضت خاک میں ملا دی اور آپ تیزاب گردی کی وارداتوں پر نوحہ کناں ہیں ۔ ایک اداکارہ ہماری عزت کو نیویارک کے فٹ پاتھ پر نیلام کر آئی ہے او ر آپ انتخابی اصلاحات کی شقوں میں الجھے ہیں ۔ وہ ہمارے منہ پر کالک مل آئی ہے اور آپ '' گھر کی صفائی ‘‘ کی باتیں کرتے ہیں۔ دنیا میں ماہرہ خان اوررنبیر کپور کی دوستی کے چرچے ہیں اور آپ پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ معاف کیجئے ! اس طرح اگر آپ ہمارے ساتھ مسلسل دریا کے دوسرے کنارے پر چلتے رہے تو قومی دھارے میں کیسے شامل ہوں گے ؟ آپ ہی تواکثریت کی رائے پر سر تسلیم خم کرنے کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں، تو پھر نازک قومی مسائل پر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا چہ معنی دارد؟
یاد رہے کہ دشمن نے اس صالح اور نیکو کار قوم کی غیرت پر پہلا وار نہیں کیا ۔ انیتا ایوب کی بکنی سے لے کر میرا کی اخلاق سوز حرکات تک اور وینا ملک کے رندانہ چال چلن سے لے کر ماہرہ خان کی سگریٹ نوشی تک ، کیسے کیسے تازیانے برسے ہیں اس غیرت ناہید پر ۔ ہم گزشتہ کالموں میں انیتااور میرا کی مقدور بھر مذمت کر چکے ہیں ۔ آج ماہرہ نے ہماری ملی غیرت پر گہرا گھائو لگایا ہے تو وینا کے دیئے زخم بھی تازہ ہو گئے ہیں۔ وینا ملک کے دامنِ کردار میں پہلے بھی کافی چھید تھے ، اوپر سے اس نے دشمن ملک جا کر '' بگ باس ‘‘ اور پھر اشمیت پاٹیل کی سالگرہ کی تقریب میں جو گل کھلائے ، وہ مناظر خدا کسی غیرت مند کو نہ دکھائے (اگر غیرت مند خود ہی یو ٹیوب پر یہ غلیظ مناظر بار بار دیکھنا پسند کریں تو کوئی کیا کر سکتا ہے ) خو د ہم نے جو بغور قبیح و کریہہ حرکات دیکھیں ، ان کا احاطہ کرتے ہوئے قلم فرطِ غیرت سے کپکپا رہا ہے ۔ آپ کو اپنے دکھ میں شریک کرتے ہوئے عرض کریں کہ جب پیمانہ و سبو کی کثرت نے اپنا رنگ دکھایا اور ''حشر سامانیاں‘‘ اور ''کفر سامانیاں‘‘ گلے ملیں تو ہمارا خون کھول اٹھا ۔ سنسر اور اپنے فشار خون کے بلندیوں کو چھونے کے ڈر سے ہم ان کریہہ مناظر کی مزید منظر کشی سے گریز کریں گے ۔
آج ماہرہ خان نے بھی شرمناک لباس میں دشمن ملک کے ایک غیر مسلم اداکار کے ساتھ سرِ عام سگریٹ نوشی کر کے ہماری ملی غیرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ ہمیں اڑتی چڑیا کے پر گن لینے کا دعویٰ تو نہیں ،لیکن سچی بات ہے کہ ماہرہ ہمیں پہلی ہی نظر میں عادی دل چور عورت لگی تھی ۔ اسی عشقیانہ چال چلن کی بدولت وہ ہمارے ازلی دشمن کے ہتھے چڑھ گئی ۔ہم نے اخبارات اور سوشل میڈیا پر اس عظیم قومی سانحے کے مناظر بار بار دیکھے اور ہر دفعہ استغفار کا ورد کیا ہے ( غم و غصے کا طوفان تھمنے تک ہم یہ مشق جاری رکھیں گے ) اگر آپ کو بھی یہ توفیق ہوئی ہے ( اور یقینا ہوئی ہے) تو آپ نے بھی تحقیقی نظروں سے بغور مشاہدہ کیا ہوگا کہ ماہرہ نے قومی غیرت کا جنازہ کس دھو م سے نکالا ہے۔ نیویارک تو ویسے بھی ہماری غیرت کے جنازے نکالنے کے لیے مشہور ہے ۔ آج دشمن نے بھی اس فعل کی خاطر اسی شہر کا انتخاب کیا ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکہ میں ہونے والی یہ حیا سوز ملاقات امریکہ اور بھارت کی ہمارے خلاف کسی مشترکہ گھنائونی سازش کا نتیجہ ہے ۔ ہمیں باہمی اختلافات بھلا کر اس نکتے پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایسی سازشوں کے آگے مضبوط بند باندھنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔
پاسبانِ قومی تشخص و ملی غیرت کے کچھ زود فہم دانشوروں کا خیال ہے کہ ہماری شہرت اور نیک نامی کو نقصان پہنچانے کی متذکرہ مکروہ وارداتوں کے پیچھے''را ‘‘ کاہاتھ ہے ۔ ہم حکومت کو مشورہ دیں گے کہ وہ دشمن کے ان اوچھے ہتھکنڈوں پر ایک تفصیلی یاداشت مرتب کر کے اقوام متحدہ میں پیش کرے ۔ تاہم اس یاداشت میں اس غیر مصدقہ حادثے کو گول کر دینا ہی مناسب ہوگا ، جو آنجہانی راجیو گاندھی کی آخری رسومات کے موقع پر دہلی میں پیش آیا۔ ہمارے تعزیتی وفد میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ فاضل ممبر قومی اسمبلی جام معشوق بھی شامل تھے ۔ تب پرنٹ میڈیا میں ایک نامعتبر سی خبر آئی تھی (جس کی بازگشت بعد ازاں قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی ) کہ ایک شام جام صاحب نے اس سانحے پر '' آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں‘‘ کی خاطر مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ محفل غم سجائی ۔رات گئے اُم الخبائث نے ہر دو کے معدوں کے رستے دماغوں کا رخ کیا تو جوڑا آپے اور ہوٹل سے باہر آ گیااور سڑک پر غل غپاڑہ کرتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔
ماہرہ خان کے اس حیا سوز اور اخلاق باختہ فعل نے ہماری قومی زندگی اور اقدار پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ وطن عزیز کی فضائے غم و غصہ میں ماہرہ خان کو سنگسار کرنے یا کم از کم چالیس کوڑے مارنے جیسے پر زور مطالبات ہمارے غیرت مندانہ جذبات کے عکاس ہیں۔ یاد رہے کہ ذاتی زندگی یا پرائیویسی جیسی قباحتوں کے ہم قائل تھے اور نہ ہوں گے ۔ ہم اس سنجیدہ و برگزیدہ قوم کے لوگ ہیں جو ملاوٹ و ذخیرہ اندوزی تو کر سکتے ہیں ،جعلی ادویات بنا سکتے ہیں، رشوت میں عمرے کا ٹکٹ مانگ سکتے ہیں، یتیموں اور بے کسوں کا حق مار سکتے ہیں، حرام جیب میں ڈال کر حلال کا مطالبہ کر سکتے ہیں، حج و عمرہ کے نام پر ٹھگی کر سکتے ہیں ، ناجائز قبضے و منافع خوری کر سکتے ہیں ، ہم وطنوں کے گلے کاٹ سکتے ہیں ،مگر اپنی اداکارائوں کو فحاشی اور بے حیائی کی اجازت نہیں دے سکتے ۔
ماہرہ خان نے ہماری آبرو کو رونق کوچہ و بازا ربنا کر ہماری قومی غیرت اور وقار پر زہر میں بجھا تازیانہ برسایا ہے ۔ اس کے خلاف تحریک کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جان کر اس میں ہر غیرت مندہ شہری کو پوری توانائی کے ساتھ شریک ہونا چاہیے تاکہ ماہرہ اوراس کے سرپرست دشمن کو معلوم ہو کہ جب ہم کسی کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں تو اس کے پُرکھوں کی قبریں بھی سلگ اٹھتی ہیں...باقی مسائل کا اللہ مالک ہے ۔