اسوج کے اس دلآویز مہینے میں ، جب حبس کی شدت جاں بلب ہوتی ہے ، سورج کی تمازت کی سانسیں روز بروز اکھڑتی چلی جاتی ہیں اور اسوج کی دھوپ میں دور نیلگوں آسمان زمین پر جھک کر تا حدِ نظر پھیلی باجرے کی خوبرو بالیوں سے گلے ملتا ہے ...کیا آپ نے کبھی ایسے شاعرانہ ماحول میں مَنھے (مچان) پر بیٹھ کر اپنے باجرے کی حفاظت کی ہے ، کبھی شارٹ بریک لے کر مَنھے کی چھائوں میں پڑے کورے گھڑے سے پانی پیا ہے ، دوپہر کو کھیت کنارے ٹاہلی کی گھنی چھائوں میں بیٹھ کر گھر کے مکھن سے چپڑی تندور کی روٹی اور لسی کا لنچ کر کے ، کچی مٹی پر لیٹ کر سستاتے '' باجرے دا سٹہ اَساں تلی تے مروڑیا ، رُٹھڑا جاندا ماہیا اَساں گلی وِچوں موڑیا ‘‘ گنگنایا ہے ،اور سہ پہر کو وہیں لکڑیاں جلا کر گڑکی چائے بنائی ہے ؟
اگر جواب نفی میں ہے تو پھر آپ اَسوج رُت کے رومانس کی لذت سے آشنا نہیں ہیں ۔ اصل میں اسوج کا حسن دیہات سے جڑا ہے اور آپ کی دعا سے ہمارے ماضی کے کتنے کی ہی اسوج مچانوں پر بیٹھ کر باجرے سے چڑیاں اڑاتے ،گھر کے مکھن سے چپڑی تندور کی روٹی اور لسی پر مشتمل لنچ کرتے اور گڑ کی چائے بناتے گزرے ہیں۔ بخدا اب تو گردشِ دوراں نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کارِ جہاں اور فکر معاش کے جھمیلوں میں ہم اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ، مگر جی چاہتا ہے کہ فضائی اور زمینی آلودگی سے پاک وہی بیساکھ اور وہی اسوج لوٹ آئیں ،جہاں پرندوں کے نغموں ، درانتیوں کے چلنے اور '' ہو ڈاری ہو ‘‘ کی آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پریشر ہارن غارت ہو جائیں اور ان لائوڈ سپیکروں میں کیڑے پڑ جائیں۔ہم اہل دیہات کے انہی غیر ترقی پسندانہ جذبات کی بنا پر ہی تو اہل تہذیب ہمیں پینڈو اور ہمارے اس نوع کے '' شاعرانہ ماحول ‘‘ کو احمقانہ ماحول کہتے ہیں ، جس میں گرل فرینڈ کے ساتھ کسی ایئر کنڈیشنڈ ریسٹورانٹ میں دبیز صوفے میں دھنس کر کافی پینے کی بجائے ڈھول کے ساتھ ٹاہلی کے نیچے کچی مٹی پر بیٹھ کر گڑ کی چائے پی جاتی ہے ۔
تاہم وقت کا تقاضا ہے کہ ہم قومی دھارے میں اپنی شمولیت یقینی بنانے کی خاطر ایسی غیر ترقی پسند خواہشات پر قابو پا لیں لیکن کیا کیا جائے کہ آج بھی کہیں باجرے کی قدآدم لہلہاتی فصل دیکھ کر اپنے'' تاریک دور‘‘ کی دلگداز یادیں سیلابی پانی کی منہ زور لہروں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے دلوں کے علاوہ پرانی موسیقی اور لوک گیتوں میں اس دلفریب رُت کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ موسمی تغیرات کا مزاجوں پر اثر مسلمہ ہے ۔ایسے میں موسم کے اعتبار سے ذہن کے نہاں خانوں میں چھپا کوئی بھولا بسرا نغمہ سنائی دے تو نفسا نفسی کے اس عالم میں بھی جلتی روح جیسے کسی ٹھنڈی آبشار تلے آ جاتی ہے اور طبیعت خود بخود غیر ترقی پسند خیالات پر مائل ہو جاتی ہے ۔ جیسے آج ہی ہم نے کہیں ماسٹر عبداللہ کے کیف آفریں سُروں میں پروئے طالب جالندھری کے دلنشیں الفاظ ملکہ ترنم کی لافانی آواز میں سنے تو ان کی پھوار براہِ راست اپنے قلب پر محسوس کی :
جے میں سیٹی مار اڈاواں، میری سرخی لہندی وے
جے میں تاڑی مار اڈاواں، میری مہندی لہندی وے
جے میں اڈی ماراڈواں، جھانجھر ڈگ ڈگ پیندی وے
تیرے باجرے دی راکھی، ماہیا میں نہ بہندی وے
اسوج کو ہم مونگ پھلی کا موسم کہتے تھے ، جوار کے دن اور باجرے کی رُت کہتے تھے ۔ تھوڑا بہت جوار باجرااور مونگ پھلی تو ہم اب بھی کاشت کرتے ہیں مگر آج ہم اسے ستمبر ، اکتوبر کے مہینے کہتے ہیں۔ ہم نے کافی ترقی کرلی ہے ۔ برق رفتار زندگی کی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر اپنے باجرے کی راکھی کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ۔ ہم تو اب شوگر کے ڈر سے چائے میں چینی بھی نہیں ڈالتے ۔ کولیسٹرول بڑھ جانے کے خوف سے مکھن کے پیڑوں ، لسی اور باجرے کی روٹی سے بھی پرہیز کرتے ہیں ۔ گڑ تو ہم نے کب کا ترک کر دیا کہ جراثیم سے لبریز ہوتا ہے ۔ تاہم دور دراز اور نسبتاً پسماندہ دیہی علاقوں میں آج بھی وہی چلن ہے ، جوکبھی یہاں ہوا کرتا تھا ۔ بھادوں ہی میں باجرے کی حفاظت کے لیے کھیتوں میں مچانوں کا سیلاب سااُمڈ آتا ۔ تاحدِ نظر پھیلے سر سبز لہلہاتی فصلوں سے مزین کھیت جناب سرور سکھیرا کے خوبصورت اور وسیع دل کا منظر پیش کرتے ، جہاں ان کی جوانی میں جا بجا اتنے زنانہ ٹینٹ لگے ہوتے تھے کہ کسی مہاجر بستی کا گماں گزرتا تھا ۔
باجرے کے ہر کھیت میں مضبوط اور لمبی لکڑیاں ٹھونک کر ان کے اوپر ڈنڈوں اور گھاس پھوس کی چھت ڈالی جاتی اور فصل کی حفاظت کرنے والے مردو زن علی الصباح اس مَنھے پر سوار ہو جاتے ۔ باجرے کے خوشوں پر بیٹھ کر اپنی چونچوں سے دانے چگنے والے پرندوں کو اڑانے کے لیے ٹین ڈبے کھڑکائے جاتے ، بارود کے پٹاخے چلائے جاتے اور ''کھبانی ‘‘ ( رسی سے بنی بندوق) سے پتھر پھینکنے جاتے ۔ ساتھ ساتھ پرندوں کو للکارنے کی '' ہو ڈاری ہو ‘‘ کی صدائیں بھی جاری رہتیں ۔ حتیٰ کہ دن تمام ہوتا اور شام ڈھلے پنچھی اور پہرے دار اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ۔ جن گھروں میں فصل کی راکھی کرنے کے لیے کوئی فرد میسر نہیں ہوتا تھا ، وہ ''کرایہ‘‘ پر کسی غریب آدمی کا بندوبست کر لیتے تھے ، جو چند سیر باجرے کے عوض یہ فریضہ انجام دیتا تھا ۔ رات کو مونگ پھلی کی فصل کو بھی جنگلی جانوروں سے خطرہ ہوتا تھا۔ ایسے میں گھر کا کوئی جوان یا بزرگ رات کو کھیت کے بیچوں بیچ چارپائی بچھا کر وہیں شب بسری کرتا۔ گاہے کھیت کے درمیان صلیب کی شکل میں دو ڈنڈے گاڑ کر اور انہیں پرانی قمیص پہنا کر '' ڈراوا‘‘ تیار کیاجاتا تاکہ رات کو جانور اسے آدمی سمجھ کر نزدیک نہ آئیں ۔
پہلے بھی کبھی عرض کیا تھا کہ قوموں کے مفادات بھی جاٹوں کی فصلوں جیسے ہوتے ہیں ، جن کی حفاظت سے پہلوتہی کی جائے تو حال ہمارے جیسا ہوتا ہے کہ اِدھر کے رہے ، نہ اُدھر کے ۔ رومانس اپنے موسموں ، فصلوں اور مفادات ہی سے زیبا ہے ۔ جو قومیں اپنے مفادات کی بجائے دوسروں کے مفادات کی حفاظت کے لیے مچانوں پر چڑھ بیٹھتی ہیں ، وہ تاریخ کے پچھواڑے رینگتی اپنے مصائب پر نوحہ کناں رہتی ہیں۔ ان کی حیثیت ایسے غریبوں جیسی ہوتی ہے ، جو چند سیر باجرے کے دانوں کی خاطر ہمارے باجرے کی راکھی کرتے تھے اور ہمیشہ محتاج ہی رہے۔ آج جب ہمارے آرمی چیف کہتے ہیں کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے یا وزیر خارجہ تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ 80ء کی دہائی میں امریکی پراکسی بننا غلط فیصلہ تھا ، جس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے ، تو بے اختیار غالبؔ یاد آتا ہے کہ '' ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ‘‘ ...ہم نے '' چند سیر باجرے ‘‘ کی خاطر اپنی فصلوں کو چھوڑ کر کس جنونی انداز میں افغانستان میں امریکی باجرے کی حفاظت کی کہ اپنی فصل کو بھی برباد کرلیا ۔ آخردنیا کے لیے ہماری حیثیت باجرے کے سٹے جتنی کیوں رہی ہے کہ جب چاہا اسے ہتھیلی پر مروڑ لیا؟ آج جب امریکہ بھارتی مفادات کی خاطر اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی نرسریاںموجود ہونے کی بات کرتا ہے تو کھڑی شریف والے یاد آتے ہیں :
باغ تیرے دی راکھی کر کر میں ساری عمر گزاری
جدوں پھل پکن تے آیا، تے لے گئے ہور وپاری
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے کھیتوں میں ''جعلی ڈراوے ‘‘ نصب کرنے کی بجائے خود وہاں پوری استقامت کے ساتھ کھڑے ہو جائیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم مچان سنبھال کر اپنے مفادات کی فصل اجاڑنے والے ہر چرند پرندکو یہاں سے بھگا دیں اور پھر امریکہ کے ڈو مور کے مطالبے پر اسے کورا جواب دیں ''تیرے باجرے دی راکھی ، ماہیا میں نہ بہندی وے ؟‘‘