اب چکوال کوئی ایسا بھی گیا گزرا علاقہ نہیں کہ جس کی ریوڑیوں اور رکشوں کے علاوہ کوئی پہچان ہی نہ ہو۔ کمزور جنرل نالج کی بنا پر اسے ریوڑیوں کا دیس یا رکشوں کا شہر مان لینا اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ شہرِ بیمار گندگی کے ڈھیروں، ٹوٹی سڑکوں اور گرد و غبار میں بھی یدِطولیٰ رکھتا ہے ۔
اس بارانی علاقے میں بنجر کھیت بھی ہیں ،جہاں بارشوں کی صورت میں تھوڑی بہت فصلیں بھی لہرا شہرا لیتی ہیں مگر اس طرح کہ جیسے وضع داری نبھاتے ہوئے وطن عزیز کے زرعی ملک ہونے کی لاج رکھ رہی ہوں۔ اگرچہ بارانی علاقہ ہے لیکن بارشوں کے موسم میں پورا شہر معجزاتی طور پر نہری علاقے کا منظر پیش کرتا ہے اور سڑکوں اور گلیوں کے علاوہ گھر بھی خوب سیراب ہوتے ہیں ۔ ایسے میں برسات اور شرم سے ہر چیز پانی پانی ہو جاتی ہے ۔ تاہم بارشوں کے بعد شہر میں پھیلا تعفن اور کیچڑ دیکھ کر اگر کوئی حیا سے ڈوبنا بھی چاہے تو ناممکن ہے کیونکہ اس کے بعد تو چُلُّو بھر پانی بھی میسر نہیں ہوتا۔ یہاں ایک بہت بڑا ''بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ‘‘ بھی قائم ہے ، جس کا زراعت اور ہم کسانوں کو اتنا ہی فائدہ ہے جتنا واپڈا کا بجلی کو۔ محکمہ زراعت نے اس ادارے کے ساتھ ملی بھگت سے چکوال کے کسی نامعلوم مقام پر خفیہ طریقے سے اتنا زیتون اگایا کہ پنجاب حکومت نے اسے 2015ء میں زیتون کا شہر قرار دے ڈالا۔ بنجر دھرتی یہ تہمت بھی چپ چاپ سہہ گئی ۔ ویسے بھی بے آب و گیاہ سرزمین ِ تو ہوتی ہی بے زبان ہے ، سو اسے جس نام سے مرضی پکار لیں ۔جیسے ضمیر جعفری نے ایک بے زبان کے بارے میں کہا ''یوں تو لکھنے کو لکھ دو اونٹ پر لاری کا نام‘‘ ۔
یہاں انگریز سرکار نے بہت سے درخت بھی اُگائے تھے ۔ سڑکوں کے کنارے اِکا دُکا درخت اب بھی سڑکیں تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں کی نظروں سے بچ بچا کر اور سہمے سے یوں کھڑے ہیں جیسے قصائی کے گھر بکرا بندھا ہوتا ہے ۔ یقین فرمائیں کہ دو ر دراز علاقوں میں تو کہیں کہیں ٹمبر مافیا سے خود کو چھپتے چھپاتے درختوں کے جھنڈ بھی کھڑے نظر آتے ہیں، جنہیں دیکھ کر بے ساختہ خیال آتا ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ۔ یہاں سیمنٹ فیکٹریاں بھی ہیں، جن سے آنے والے اوور لوڈ ٹرکوں نے ہماری سڑکوں کو تقریباً کیفرِ کردارتک پہنچا ہی دیاہے ۔ یہاں بے حساب آلودگی پھیلانے کے علاوہ زیرِ زمین پانی کی سطح کو کم کرنے میں ان فیکٹریوں کا کردار کلیدی ہے ، حتیٰ کہ کٹاس راج میں واقع قبل از مسیح کے تالاب کا پانی بھی خشک ہوگیاہے جو شیو دیوتا کے آنسوئوں سے ہزاروں سال تک بھرا رہا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ فیکٹریوں اور گڈز ٹرانسپورٹ مالکان کی اقتصادی حالت کافی بہتر ہوئی ہے ۔ عسکری خدمات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ضلع چکوال کے ہر گائوں میں جہاں کسی شہید فوجی کی قبر ہے وہاں غازی صوبیداروں کی بھی کمی نہیں ۔ اس کی وجوہ اس خطے کے لوگوں کی حب الوطنی ، بہادری اور جوانمردی کے علاوہ بھوک اور بے روزگاری بھی ہیں جو ان کا دفاعِ وطن کا لازوال جذبہ ماند نہیں پڑنے دیتیں۔
ہمارے ہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے کئی کالجز اور بے شمار سکولز بھی ہیں ، جن کے بارے میں ہمارا عاجزانہ دعویٰ ہے کہ : ''آئیے ! دیکھیں ہم بغیر اساتذہ اور سہولتوں کے فروغ تعلیم کے لیے کیسے کوشاں ہیں ‘‘ گزشتہ عام انتخابات کے دوران چکوال کے تاریخی پوسٹ گریجویٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔تاہم اب اس کالج کے ایک حصے پر دوسرا گرلز کالج بنایا جارہا ہے جبکہ پہلا گرلز کالج ہنوز سائنس ٹیچرز اور دیگر سہولتوں سے محروم ہے ۔پنجاب حکومت کے اس عجیب و غریب فیصلے پر بنجر دھرتی والے سراپا احتجاج ہیں مگران کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی ۔ اس شہرِ بے مثال نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال نامی ایک اور بھاری تہمت بھی اٹھا رکھی ہے ، جہاں ڈاکٹروں ، دوائوں ،ایمر جنسی ٹریٹمنٹ اور علاج معالجہ کی دیگر سہولتوں کو چھوڑ کر اللہ کا دیا باقی سب کچھ موجود ہے ۔
شہرِ باکمال کی ایک خاص وجہ شہرت سے بھی آپ کو آگاہ کرتے چلیں،جسے ہمارے بہت ہی پیارے دوست چودھری مظہر حسین نے ''دریافت ‘‘ کیا۔ چوہدری صاحب اب امریکہ میں ڈاکٹر ہیں۔ زمانۂ کالج اور بعد میں ہم دونوں نے اندرون و بیرون ملک مقدور بھر آوارہ گردی کی جسے ہم سیاحت کا نام دیتے ہیں۔ اس دور میں ایک دن چودھری صاحب نے دوستوں کے سامنے اپنا ''نظریہ‘‘ پیش کیا کہ دوسرے شہروں میں چکوال سے متعلق کوئی بڑا کاروبار تو کم ہی دیکھنے میں آئے گا، البتہ تقریباً ہر شہر میں ایک دکان ضرور موجود ہے، جس کی پیشانی پر لکھا ہے '' چکوال ہیئر ڈریسر اینڈ گرم حمام ‘‘ پہلے تو ہم نے ان کے اس بچگانہ سے خیال کو کوئی اہمیت نہیں دی مگر ان کی طرف سے مرغ کڑاہی کی شرط لگانے پر میدان میں اترنا پڑا۔ اگلے ہی دن ہمارے شرط ہارنے کے لا متناہی سلسلے کا آغاز ہوا، جب ہمیں سرگودھا اور لاہور کا سفر درپیش آیا ۔سرگودھا کے ایک بازار سے گزرتے ہوئے اچانک فخر سے چودھری جی کی گردن اکڑ گئی اور انہوں نے ایک دکان کی طرف انگشت شہادت اٹھا دی ۔ ہم نے اس طرف دیکھا تو چکوال ہیئر ڈریسر اینڈ گرم حمام کا بورڈ آویزاں تھا۔ لاہور میں بھی وہ اپنی ''مطلوبہ‘‘ دکان دریافت کرنے میں کامیاب رہے ۔ بعد ازاں پشاور کے سفر میں بھی انہیں اپنا ''ہدف‘‘ تلاش کرنے میں کوئی خاص دقت نہ ہوئی ۔ سرائیکی بیلٹ کی آوارہ گردی کے دوران تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے حق میں مرغ کڑاہی جیتنے کی ہیٹرک مکمل کی۔ کوئٹہ کی سڑکیں ماپتے بھی انہوں نے چکوال ہیئر ڈریسر اینڈ گرم حمام تلاش کر کے ہی دم لیا۔ کراچی ہم اکٹھے تو نہ جاسکے ، البتہ ڈاکٹر صاحب اس شہر میں بھی اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس شہادتیں پیش کرنے میں کامیاب رہے ۔ میر پور آزاد کشمیر میں سرِ بازار ایک اجنبی نے ہم لوگوں کو آواز دے کر کہا کہ چال ڈھال سے گرائیں لگتے ہو ۔ ہمیں پردیس میں گرائیں ملنے پر خوشی ہوئی ۔ وہ ہمیں چائے پلانے کی خاطر اپنی دکان میں لے گیا ، جو چکوال ہیئر ڈریسر اینڈ گرم حمام کا جھومر اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے تھی ۔ چودھری صاحب کو ''کامیابیوں‘‘ کا ایسا چسکا پڑا کہ بیرون ملک بھی ان کی کھوج لگانے کی خُو نہ گئی ۔ انہوں نے تہران اور اصفہان کے فٹ پاتھوں پر اپنے ساتھ ساتھ ہمارے جوتے بھی خوب گھسائے کہ کہیں '' چکوال مُو تراش و گرمابہ ‘‘ کا سائن بورڈ نظر آ جائے مگر وہاں وہ شرط ہار گئے ۔ البتہ بنکاک میں ہمارا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب ہم دونوں کو بال ترشوانے تھے تو ایک ہم وطن نے ہمیں ایک علاقے کا پتہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ وہاں جانا ، ہیئر ڈریسر گرائیں ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے تو بڑی کوشش کی مگر ہم نے دانستہ اس طرف جانے سے گریز کیا ، مبادہ دکان پر تھائی زبان میں جوکچھ لکھا ہو ، ہم کسی مقامی خوش شکل اور خوش لباس خاتون سے اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کی درخواست کریں تو وہ کہے '' چکوال ہیئر ڈریسر اینڈ گرم حمام‘‘ ۔
گہرے غوروفکر کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چکوال کے لوگوں نے ہر شہر میں احتجاجاً یہ بورڈ لگا رکھے ہیں کیونکہ جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہر دور میں اربابِ بست و کشاد نے چکوالیوں کی''حجامت‘‘ ہی کی ہے ۔ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ہم راجندر سنگھ بیدی کے افسانے '' حجام الہ آبادکے‘‘ پر وارث علوی کا تبصرہ کوٹ کریں گے کہ ''افسانے میں اس عام آدمی کی کسمپرسی کی نہایت ہی طنزیہ اور مزاحیہ عکاسی کی گئی ہے جو خود کو حجاموں کے سامنے لاچار اور مجبور پاتا ہے اور حجام بھی اسے نہ پورا مونڈتے ہیں ،نہ چھوڑتے ہیں بلکہ اس کی آدھی حجامت بنا کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنا دست نگر بنا لیتے ہیں‘‘...اب آپ چکوالیوں کی یونیورسٹی کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے ۔ انہیں ایسا ادھورا مونڈا گیا ہے کہ پوسٹ گریجویٹ کالج کے رقبے پر دوسرا گرلز کالج بنایا جا رہا ہے جبکہ پنجاب یونیورسٹی کا کیمپس بنانے کے لیے نئی جگہ کی تلاش جاری ہے ۔