سائوتھ افریقہ کے شہر Johannesburg کے ''نیٹ کیئر‘‘ ہسپتال کا شمار دنیا کی بہترین علاج گاہوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پروفیسر بفرڈ انچارج برن ڈیپارٹمنٹ تعینات ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کلمہ گو ہے، عیسائی ہے یا یہودی مگر یہ کنفرم ہے کہ بلا تخصیصِ رنگ و نسل مخلوقِ خدا کی خدمت پر اس کا ایمان پختہ ہے۔ وہ آگ سے جھلسنے والوں کا ماہر معالج ہے اور اس نے جلے ہوئے انسانی جسموں کی مسیحائی میں خاصا نام کمایا ہے۔ ڈاکٹر بفرڈ مصروف ترین لوگوں میں سے ہے۔ وہ دنیا کے مختلف میڈیکل کالجز میں لیکچر دیتا ہے اور اپنے شعبے میں نئی نئی تحقیقات کرتا ہے۔ اسے یورپی ہسپتالوں میں آگ سے متاثرہ مریضوں پر ماہرانہ رائے کے لیے بھی بلایا جاتا ہے۔ امسال مئی میں پروفیسر بفرڈ کو اپنے کیریئر کے ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑا، جب اقوام متحدہ کے امن مشن میں خدمات انجام دینے والے چار پاکستانی جوان نہایت نازک حالت میں اس کے پاس لائے گئے۔
وسطی افریقہ کا ملک ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ہے، جہاں آج بھی قبائل جنگلوں میں ہزاروں سال قدیم طرزِ زندگی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہاں باہمی قبائلی تصادم کی بنا پر اقوام متحدہ کا امن مشن نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے اپنی خدمات انجام د ے رہا ہے۔ کانگو کے شہر Bukavu میں اقوام متحدہ کا فورس ہیڈ کوارٹر قائم ہے، جہاں مختلف ممالک کی افواج کے اپنے اپنے کیمپ موجود ہیں۔ ہر ملک کے کیمپ میں اس کا اپنا لیول 1 ہسپتال ہوتا ہے جبکہ روٹیشن کی باری آنے پر کوئی ایک ملک لیول 2 ہسپتال قائم کرتا ہے، جہاں ہیڈ کوارٹر کے سیریس مریضوں کو ریفر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ نے دنیا کے مختلف سویلین ہسپتالوں سے بھی معاہدے کر رکھے ہیں ۔ جب مشن کے کسی زخمی یا بیمار فوجی کا علاج لیول 2 ہسپتال میں ممکن نہ ہو تو اسے کسی نزدیکی شہر یا ملک کے ایسے ہی کسی ہسپتال میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ نیٹ کیئر ہسپتال میں بھی انہی میں سے ایک ہے۔
مئی کے مہینے میں Bukavu کے پاکستانی کیمپ میں آتشزدگی کے ایک اتفاقیہ حادثے میں چار جوان بری طرح جھلس گئے۔ انہیں براہِ راست چائنہ کے لیول 2 ہسپتال میں پہنچایا گیا ۔ جوانوں کے جسم 80 فیصد سے زائد جل چکے تھے ۔ بچنے کی کوئی امید نہیں تھے ۔ چین کے ڈاکٹروں نے ابتدائی طبی امداد کے طور پر اپنے ملک میں تیار کردہ ایک کریم سے ا ن کے جسم مکمل طور پر لیپ کیے اور انہیں ایلومینیم فوائل میں لپیٹ کر ہوائی جہاز کے ذریعے سائوتھ افریقہ کے ہسپتال نیٹ کیئر میں بھیج دیا ۔ پروفیسر بفرڈ نے مریضوں کے تفصیلی معائنے کے بعد اپنے تجربے کی روشنی میں ان کی زندگیوں سے مایوسی کا اظہار کیا؛ تاہم اس نے اپنے تمام دورے اور دیگر مصروفیات منسوخ کر کے مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔
اب پروفیسر بفرڈ کو انسانی جلد کی ضرورت تھی تاکہ اسے جلنے والوں کے جسموں پر لگایا جا سکے ۔ سوئٹزرلینڈ میں ''یورپین سکن بینک‘‘ قائم ہے۔ جو لوگ اپنی جلد عطیہ کرتے ہیں ، مرنے کے بعد ان کے جسم سے جلد اتار کر اس بینک میں محفوظ کر لی جاتی ہے تاکہ وہ زندہ جلنے والے انسانوں کے کام آ سکے۔ ڈاکٹر بفرڈ نے یورپین سکن بینک سے جلد کی ڈیمانڈ کر دی ۔ بینک نے بیس لاکھ ڈالر طلب کیے جو UN نے فوراً ادا کر دیئے ۔ پروفیسر درآمد شدہ جلد جاں بلب مریضوں کے اجسام پر لگاتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ جلد بمشکل ایک ہفتے تک کام آئے گی، پھر خراب ہونا شروع ہو جائے گی۔ تاہم مریضوں کے علاج کے لیے یہ عمل بہت ضروری تھا، سو ہر ہفتے سوئٹزرلینڈ سے نئی جلد آنا شروع ہو گئی ۔ ڈاکٹر ہفتے بعد خراب جلد اتار کر نئی لگاتا رہا۔ حتیٰ کہ حیرت انگیز طور پر موت کے منہ میں پڑے مریض ٹھیک ہونے لگ گئے ۔ ان کی تھوڑی بہت جلد بھی بننا شروع ہو گئی تھی؛ تاہم اب ایک نیا مرحلہ درپیش تھا۔ پروفیسر کو مریضوں کی جلد کی آرٹیفشل گروتھ درکار تھی ۔ اس نے ان کے جسموں پر بننے والی تھوڑی سی جلد کاٹ کر اپنی لیبارٹری میں تجربہ کیا‘ جو کامیاب رہا۔ گویا مریضوں کی جلد میں گروتھ کی صلاحیت آ چکی تھی مگر یہاں مطلوبہ مقدار میں جلد بنانا ممکن نہ تھی ۔ اب ہر ہفتے مریضوں کی جلد سوئٹزرلینڈ کی اُسی لیبارٹری میں جانا شروع ہوئی جہاں سے یہ مصنوعی طریقے سے دو گنا ہو کر واپس آتی اور مریضوں کے جسموں کا حصہ بنتی۔ اس عمل میں بھی لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے۔ کچھ عرصے بعد ایک مریض جو سب سے زیادہ متاثر تھا ، فوت ہو گیا۔ دو کو ڈسچارج کر دیا گیا اور ایک ہنوز نیٹ کیئر میں زیر علاج ۔ ڈسچارج ہونے والے دونوں جوان اب اپنے وطن میں ہیں ۔ اگرچہ ان کی جلد ابھی تک نارمل انسانوں جیسی نظر نہیں آتی تاہم وہ مقررہ وقت کے بعد طبی معائنے کے لیے خود چل کر کھاریاں کے برن یونٹ میں جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ہلاک ہونے والے جوان کے لواحقین کو 70 لاکھ ڈالر اور باقیوں کو ہونے والے نقصان کے مطابق انشورنس کی رقم ادا کی ہے۔
تاہم ڈاکٹر بفرڈ کا سفر ختم نہیں ہوا اور وہ اس تجربے کی کامیابی کے بعد ایک نئی جستجو میں جُت گیا ۔ اس نے تحقیق شروع کی کہ اسی فیصد جلنے والے مریض بچ کیسے گئے؟ پاکستان میں میڈیکل سائنس کے مطابق اگر انسان 35 فیصد تک جل جائے تو اس کے بچنے کا امکان نہیں رہتا‘ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ حد 45 فیصد ہے ۔ پروفیسر بفرڈ تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ چین کے ڈاکٹروں نے جو کریم مریضوں کے جسموں پر لگائی تھی اس میں کوئی خاص تاثیر تھی کہ مریضوں کے اندر انفیکشن نہ پھیل سکی اور ان کے اعضا محفوظ رہے ۔ اس کی درخواست پر چینی ڈاکٹر اپنی تیارکردہ کریم سمیت نیٹ کیئر میں پہنچ گئے ۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ کریم میں کنوار گندل کے علاوہ کچھ دیگر جڑی بوٹیاں بھی شامل تھیں ۔ کنوار گندل کا کردار کئی بیماریوں کے علاج میں پہلے ہی مسلمہ ہے ۔ چین کے ڈاکٹروں نے اس کی جو نئی تاثیر دریافت کی ہے ، یقینا وہ میڈیکل کے شعبے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس پر اب اغیار کی لیبارٹریوں میں نئی نئی تحقیقات ہوں گی اور انسانی جان بچانے کے لیے کئی اور دَر وَا ہوں گے۔
گزارشات بالا ان ''اخلاق باختہ‘‘ معاشروں سے متعلق ہیں ، جو ہمارے آفاقی اصول چرا کر انسانیت کی اس معراج پر پہنچے ہیں۔ عجیب چور ہیں جنہوں نے ہمارے فوجی بھائیوں کی زندگی بچانے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر ڈالے‘ جبکہ ہم نیکو کاروں میں تو ان فوجیوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کے حمایتی بھی موجود ہیں۔ کجا ایک انسان کی زندگی بچانے کے لئے ریاست کے تمام وسائل بروئے کار لانے والے اور کجا قدرتی آفات کو بھوکوں ننگوں کے گناہوں کا شاخسانہ قرار دینے والے۔ امریکہ میں ہمار ے ڈاکٹر دوست کہتے ہیں کہ اگر میں کسی مریض کے لیے ہیلی کاپٹر ایمبولینس لکھ دوں تو امریکی صدر کے پاس بھی اس تجویز کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں۔ اگر وہاں کوئی عورت سڑک پر بچے کو جنم دے تو کم بخت زمین آسمان ایک کر دیں۔
وائے حسرتا! صالحین کرام کے مژدے سنتے کان پک گئے کہ اخلاقی قدروں اور فطری تقاضوں سے عاری اغیار کے معاشرے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ ان کے کسی بھی وقت دھڑام سے زمین بوس ہونے کے دیپک راگ الاپتے ہمارے گلے بیٹھ گئے مگر حیا سوز معاشروں کو دیمک لگی کہ ہم بغلیں بجا سکیں اور نہ ہمیں احساس ہوا کہ اپنے گریباں میں جھانک سکیں۔ ''کھوکھلے معاشرے‘‘ سائنس و ٹیکنالوجی ، عدل و انصاف اور احترام انسانیت ایسے میدانوں میں سرپٹ دوڑتے ہم سے دور نکل گئے اور کہ ہم اس سکھ کی طرح مونچھوں کو تائو دیتے رہے ، جس کا گھوڑا ریس میں سب سے پیچھے رہ گیا تو اس نے فخر سے کہا ''ساڈے گھوڑے نے ساریاں نوں اگے لایا ہویا اے‘‘۔