اللہ بخشے ، دادی جان ذرا سخت طبیعت واقع ہوئی تھیں ۔ پسماندہ سے گائوں میں پلی بڑھی سادہ سی جٹی تھیں مگر ان کی زبان کی فصاحت و بلاغت کے مخالف بھی قائل تھے۔ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو مختصر سی ایک ہی دعا دیتیں '' شالا جگ محتاج ہووی ‘‘ لڑائی جھگڑے کے واقعات میں ان کی طعنہ زنی کا اختصار اور جامعیت اور بھی نکھر کر سامنے آتے ۔ اکثر فریق مخالف کو اس کا ایک سطری شجرہ نسب پڑھ کر سنا دیتیں، جس سے اس کے پُرکھوں کی قبریں بھی سلگ اٹھتیں۔
ایک دفعہ مرحومہ ٹرین میں سفر کر رہی تھیں ۔ ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔ ان کی سیٹ کی اوپر والی برتھ پر ایک عورت پائوں لٹکائے بیٹھی تھی ۔ نادانستہ اس کا پائوں دادی جان کے سر سے ٹکرا گیا تو انہوں نے اپنی روایتی خوش مزاجی سے خاتون کو مخاطب کر کے کہا '' اپنے کھروڑے (پائے) سنبھال کر بیٹھو‘‘ ساتھ ہی اسے وارننگ دی کہ دوبارہ اس کی ایسی کسی حرکت سے ناگہانی صورتحال بھی پیش آ سکتی ہے ۔ تھوڑی دیر بعد غیر ارادی طور پر مسافر عورت کا پائوں پھر ان کے سر سے آ لگا ۔ دادی جان نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور اس کے دونوں پائوں مضبوطی سے پکڑ کر اسے پوری قوت سے نیچے کھینچ لیا۔بے چاری منہ کے بل آ گری ۔ مرحومہ اپنا یہ واقعہ سنا کر آخر میں ضرور کہتیں '' اس کے بعد باقی کا سفر خیریت سے گزرا‘‘ ۔
بھلے وقتوں میں دادی جان کو کسی دوسرے علاقے کا سفر درپیش تھا ۔ آپ لاری اڈے پر پہنچیں تو مطلوبہ بس میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔ ڈرائیونگ سیٹ خالی تھی ، آپ اسی پر براجمان ہو گئیں ۔ ڈرائیور آیا تو حیران ہوکر بولا '' اماں جی ! آپ کہاں بیٹھ گئی ہیں ؟ ‘‘ سادہ لوح خاتون نے کہا '' بیٹا ! یہی ایک سیٹ خالی تھی اور میں اس پر بیٹھ گئی ‘‘۔ ڈرائیور نے ذرا ترش لہجے میں دادی جان کو اٹھنے کا حکم دیا تو انہوں نے اپنے ترکی بہ ترکی جواب میں صاف انکار کردیا ۔ صورتحال دلچسپ تھی کہ بس چل رہی تھی ، نہ بس چل رہا تھا ۔ اب ڈرائیور نے نرم لہجے میں انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اماں جی دراصل یہاں بیٹھ کر میں نے بس چلانی ہے ۔ مرحومہ نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے بڑا خوبصورت جواب دیا ۔ فرمایا '' بیٹا ! تم کہیں اور بیٹھ کر بس چلا لو، میں تو یہیں بیٹھوں گی‘‘ ۔
دادی جان کی پرانی باتیں ہمیں ملک کی سیاسی صورتحال دیکھ کر یاد آتی ہیں۔ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہ مسترد کرچکے ہیں ، تاہم وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے اپنے موقف کی تکرار کہ ٹیکنو کریٹ حکومت ہمارے مسائل کا حل نہیں ،نیز کچھ دیگر حالات بھی چغلی کھا رہے ہیں کہ ملکی بس کی ڈرائیورنگ سیٹ پر کسی ''دادی جان ‘‘ کو بٹھانے کے لیے کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کرپٹ ، چور اور لٹیرے سیاستدانوں سے نجات حاصل کر کے آئین کی دفعات62,63پر مکمل پورا اترنے والے ہیرے موتی جمع کر لیے جائیں اور ملک صراط مستقیم پر گامزن ہو جائے ۔ اس طرح دو سال میں سیاستدانوں کے بے رحم احتساب سے سارا گند صاف ہوجائے گا اور صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے حکومت عوام کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کرنے کی منزل سَر ہو جائے گی۔ نیز لوٹی گئی دولت کی بازیابی سے ملکی معیشت میں بھی نمایاں بہتری آئے گی۔ اگر دو سال میں ترقی کے تمام اہداف حاصل نہ کیے جا سکیں تو ممکنہ ٹیکنو کریٹ حکومت کی معیاد بڑھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ ہمارے خیال میں تو صدارتی نظام آزمانے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ اگر موجودہ نظام کی پلاسٹک سرجری کر کے انتخابات وغیرہ کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر کسی سخت گیر دادی کو منصب ِصدارت پر بٹھا دیا جائے تو ملک میں با آسانی دودھ اور شہد کی نہری بہائی جا سکتی ہیں۔ ماضی میں ایسے کامیاب تجربات کیے جا چکے ہیں ۔ تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ملک کی لاری کے حقیقی ڈرائیور عوام کے منتخب نمائندے ہی ہوتے ہیں۔ ان کی سیٹوں پر ڈرائیونگ سے نابلد دادیاں بیٹھ جائیں تو وہ بس کا انجر پنجر ہلا دیتی ہیں۔
کچھ تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو سفر کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ وہ جب بھی اقتدار کی ٹرین میں سوار ہوتے ہیں تو ان کا پائوں کسی سخت مزاج دادی کے سَر سے ٹکرا جاتا ہے اور انہیں اپنی سیٹ سے زبردستی اتار دیاجاتا ہے ۔ ماضی میں ایسی ہی ایک گستاخی پر پرویز مشرف نے ان کے دونوں پائوں پکڑ کر کھینچ ڈالے تھے اور پھر باقی کا سفر خیریت سے گزرا تھا ۔ آئین کی شق 58-2Bبھی انہیں سیٹ سے اتارنے میں کارگر ثابت ہوئی ۔ جبکہ اس دفعہ انہیںبدعنوانی کے ایک مقدمے میں عدالتی حکم کے ذریعے نااہل قرار دیا گیا ہے ۔ تاہم نواز شریف کا جارحانہ انداز دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں ابھی تک سیٹ پر اپنے پائوں سنبھال کر بیٹھنا یا یوں کہیے کہ چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا نہیں آیا۔ انہوں نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے سوا مائنس ، پلس کا فیصلہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ حالانکہ انہیں اپنوں کی طرف سے بار بار سمجھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اندر لچک پیدا کریں اور جوش کی بجائے ہوش سے کام لیں تاکہ حالات کا تنائو کم ہو سکے ۔ لندن کے حالیہ پارٹی اجلاس میں بھی انہوں نے '' امن مشن‘‘ کے سمجھانے بجھانے کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور پارٹی کو مائنس ون فارمولا مسترد کرنا پڑا۔ نواز شریف نے مشن ہذا کوصاف صاف بتا دیا کہ وہ وطن واپس آ کر حالات اور عدالتوں کا سامنا کریں گے ۔ نیز انہوں نے وقتی طور پر ''پچھلی سیٹ ‘‘پر بیٹھنے کا مشورہ بھی مسترد کردیا۔ ہمارے خیال میں سمجھانے سے سدھر جانا نواز شریف کی سرشت میں نہیں ، چاہے یہ کارِ خیر پیار سے کیا جائے یا سختی سے ۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو جس کرخت انداز میں پرویز مشرف نے انہیں سمجھایا تھا ، اس کے بعد وہ کم از کم عوامی عدالت کے فیصلے کے احترام کی رَٹ چھوڑ چکے ہوتے ۔
نواز شریف کو پچھلی سیٹ پر بٹھانے کی کوششوں سے ہمیں سردارہرنام سنگھ یاد آ گیا جو یہ غلطی کر کے پچھتایا تھا ۔ سردار رات گئے کلب سے سرور کی کیفیت میں نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا تو ناگہانی صورتحال اس کی منتظر تھی ۔ وہ گھبرا کر گاڑی سے نکلا اور ٹیلیفون بوتھ سے پولیس کا نمبر ملا کر فریاد کی '' جلدی آئو مترو، کوئی چور کا پُتر میری کار سے اسٹیئرنگ ،گیئر اور بریک وغیرہ نکال کر لے گیاہے ‘‘ پریشان حال ہرنام سنگھ پولیس کے انتظار میں دوبارہ گاڑی میں جا بیٹھا تو ایک دفعہ پھر اچھل کر نکلا اور پولیس کا نمبر ملا کر چیخا '' واہ گرو کی جے ! آنے کی ضرورت نہیں بھائیو، میں غلطی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا‘‘۔ شاید نواز شریف پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے نقصانات سے آگاہ ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اس سیٹ پر گاڑی کا سٹیئرنگ اور بریک نہیں ہوتے ۔ اگر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر کسی '' دادی‘‘ کو بٹھا کر خود پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے تو گاڑی کا کنٹرول ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ویسے بھی مہذب دنیا میں گاڑی ملکی ہو یا پارٹی کی ، اس کا ڈرائیور بیلٹ باکس کے ذریعے ہی منتخب یا فارغ ہوتا ہے ۔ کسی دوسرے طریقے سے اسے سیٹ سے اٹھانا یا زبردستی گرا دینا اور اس کی سیٹ پر قبضہ کرلینا قابل تحسین قرار نہیں دیاجا سکتا۔
ہمارا خیال ہے کہ وطن عزیز کی گاڑی کا کنٹرول بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہی رہنا چاہیے ۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے وقفے میں بظاہر تو گاڑی کا کنٹرول انہی کے پاس ہوتا ہے مگر کون نہیںجانتا کہ کچھ لوگ ان کی ڈرائیونگ سیٹ پر قبضہ کر کے کہتے ہیں کہ تم کہیں اور بیٹھ کر گاڑی چلا لو ہم تو یہی بیٹھیں گے ۔پھر گاڑی یوں چلتی ہے کہ :
نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے