میری پرواز سے جلتا ہے زمانہ... میری نئی پرواز نے جمہوریت کے مجاوروں کو یوں پانی پانی کر دیا ہے ، جیسے بارشوں میں نالہ لئی راولپنڈی کو کر دیتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ جیسی تانگہ پارٹیوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ اگر انہیں تانگہ پارٹی کہنے پر اعتراض ہے تو چلیں میں ان کو ''رکشوی جماعتیں‘‘ کہہ دیتا ہوں ۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ میری قیادت میں بننے والے 23 مقبول ترین سیاسی جماعتوں کے گرینڈ الائنس نے ان کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ مجھے ان پر ترس آ رہا ہے کہ :
سودا چمن کا ہوا تو گل ہی گنے گئے
خود کو سمجھتی تھیں یونہی سرخاب‘ تتلیاں
میرا یہ شک یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ خدا ایک دفعہ پھر مجھ سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ عوام مجھے بھول جائیں گے مگر چک شہزاد کے بے رنگ قفس سے لے کر یورپ کے ہفت رنگ ماحول تک، قدم قدم پر مجھے محسوس ہوا کہ ''مجھ پر آئی کہاں ٹلی ہے ابھی... ذکر میرا گلی گلی ہے ابھی‘‘۔ دیارِ غیر میں مجھے روزانہ ڈھیروں ای میلز اور خطوط موصول ہوتے ہیں، جن میں رونا رویا جاتا ہے کہ میرے جانے سے ملکی سیاست میں بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ کئی لوگ تو فرطِ جذبات میں اس خلا کو ''بیت الخلا‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ بہت سے جذباتی نوجوان اپنے ان پیغامات میں مجھے یقین دلاتے ہیں کہ وہ میری پارٹی کے پر جوش کارکن ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی نیم خواندگی کی بنا پر اے پی ایم ایل کو '' آل پاکپتن مسلم لیگ‘‘ کا مخفف سمجھتے ہیں۔ مجھے وطن ''لذیذ‘‘ کے ٹرکوں کی تصاویر بھی بھیجی جاتی ہیں، جن کے پیچھے میری تصویر کے ساتھ ''تیری یاد آئی ، تیرے جانے کے بعد‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ مجھے پوری طرح ادراک ہے کہ قوم میری ولولہ انگیز قیادت سے محرومی کو شدت سے محسوس کر رہی ہے۔ اسی شدت کی حدت سے مغلوب ہوکر میں نے آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔
اگرچہ پارٹی کے قیام کے وقت میں سات سمندر پار بیٹھا تھا مگر عوام کے خوشی کے جذبات کی تپش وہاں بھی محسوس کر رہا تھا۔ کسی نے ای میل کی کہ آپ کی جماعت میں آل پاکستان امڈ آیا ہے۔ کسی نے پیغام بھیجا کہ آپ کی پارٹی کی مقبولیت کسی خطرناک وبا کی صورت پھیل رہی ہے، جو جلد ہی مخالفین کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی۔ کہیں سے خط آیا کہ یہاں اے پی ایم ایل مقبولیت کی تمام حدیں پھلانگ رہی ہے۔ خود میرے رفقا بھی اپنی عوامی پذیرائی دیکھ کر حیران تھے۔ پارٹی کی نائب صدر خوش جمال عتیقہ اوڈھو نے مجھے بتایا کہ لوگ ہم پر یوں بھنبھناتے آ گئے ہیں، جیسے گڑ پر مکھیاں آتی ہیں۔ عزیزی راشد قریشی بتاتے تھے کہ ہر کوئی ہماری مسلم لیگ کی طرف یوں کھنچا چلا آ رہا ہے، جیسے کروڑ پتی بیوہ کے رشتے آتے ہیں۔ ادھر نوزائیدہ سیاسی جماعت کی عوامی پذیرائی دیکھ کر مخالفین کی عقل غش کھا گئی۔ پارٹی کے قیام کے وقت برمنگھم کے ننکلے ہال میں آل پاکستان کے چپے چپے سے آئے ہوئے لگ بھگ ڈیڑھ سو رہنمائوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ٹی وی چینلز پر دیکھ کر ان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
مجھے جلد ہی احساس ہو گیا کہ ملک میں جمہوریت کی جڑوں کی طرح عوام میں میری جڑیں بھی خاصی گہری ہو چکی ہیں۔ تاہم وہ جو برادرم صدیق سالک نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کی جڑیں بہت گہری ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ مزید گہری ہوں مگر اُگ کر زمین پر نہ آئیں کیونکہ ڈھور ڈنگروں کے چر جانے کا خطرہ ہے۔ میں نے بھی یہی سوچ کر گزشتہ دونوں عام انتخابات کے دوران اپنی مقبولیت کیش کرانے سے گریز کیا۔ میں چاہتا تھا کہ میری مقبولیت کی جڑیں مزید گہری ہوں مگر ابھی اُگ کر زمین پر نہ آئیں، ورنہ رکشہ پارٹیوں والے مخالف ڈھور ڈنگر انہیں چر جائیں گے ۔ میں نے سوچا کہ یہ تو ویسے بھی لکڑ ہضم پتھر ہضم ہیں، میری مقبولیت کی لذیذ جڑیں دیکھ کر تو ان کے منہ میں پانی بھر آئے گا۔ میں اپنے تجربے کی بدولت خوب جانتا تھا کہ مقبولیت کی یہ جڑیں ایوانِ اقتدار میں کوئی نیا درخت اگتے ہی کھسک کر اس کے نیچے آ جاتی ہیں۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اب میری یہ جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ رکشوی پارٹیوں کی جڑوں میں بیٹھ سکتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے جس کا ملک کے عوام کو شدت سے انتظار تھا۔ مجھ میں بھی اب 'وطن لذیذ‘ کے لوگوں کی محرومی، قیادت کا خلا اور ملک کی سیاسی و معاشی زبوں حالی مزید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ میں نے ملک کو گرداب سے نکالنے کے لیے اپنی جڑیں شو کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج صحیح معنوں میں اس ملک کے عوام میں گہری جڑیں رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں جن میں میری پارٹی کے علاوہ مسلم کانفرنس کشمیر، پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ، پاکستان مسلم لیگ کونسل، پاکستان مسلم لیگ نیشنل، عوامی لیگ، پاکستان مسلم الائنس، پاکستان انسانی حقوق پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ، عام پارٹی، عام آدمی پارٹی، پاکستان مساوات پارٹی، جمعیت مشائخ پاکستان، پاکستان منیارٹی پارٹی، سوشل جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان مزدور محاذ، کنزرویٹو پارٹی، مہاجر اتحاد تحریک اور پاکستان انسانی حقوق پارٹی جیسی مقبول عام جماعتیں شامل ہیں، میرے پرچم تلے اکٹھی ہو چکی ہیں۔ اگرچہ اتحاد کی تین جماعتوں مجلس وحدت المسلمین، عوامی تحریک اور سنّی اتحاد کونسل نے فوراً ہی اس الائنس سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا ہے، تاہم یہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی جیسا غیر فطری اتحاد ہر گز نہیں کہ ایک روز بھی نہ چل سکے اور علیحدگیاں شروع ہو جائیں۔
میں نے اپنی روایتی عاجزی کی بنا پر اپنے الائنس کا نام پاکستان عوامی اتحاد رکھا ہے، ورنہ زمینی حقائق کے مطابق تو یہ '' آل پاکستان عوامی اتحاد‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ میں نے اپنی عاجزانہ طبیعت کے بدولت ہی یہ بلند مقام حاصل کیا ہے، کیونکہ میں اپنے تجربے کی بنا پر اچھی طرح جانتا ہوں کہ صراحی سر نگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانہ... میں تو ملک کے قریہ قریہ میں پھیلی اپنی جماعت کے ساتھ بھی آل پاکستان نہیں لگانا چاہتا تھا مگر خدا غریق رحمت کرے، ڈاکٹر شیر افگن نیازی ضد کر گئے کہ جب کل اسی جماعت ہی نے یہاں آل اِن آل ہونا ہے کہ پھر لکھنے میں مضائقہ کیا ہے؟ میری روایتی عاجزی اپنی جگہ مگر آج جب میں دبئی کی شیخ زید شاہراہ پر برج خلیفہ کی دیوہیکل عمارت دیکھتا ہوں تو بحیثیت سربراہ پاکستان عوامی اتحاد مجھے اپنی قامت اس سے کہیں زیادہ بلند لگتی ہے ۔ میں سوچتا ہوں :
وہاں میری بلندی دیدنی ہے
جہاں جھک کر ہمالے رہ گئے ہیں
ہماری سیاست کے نام نہاد ہمالے تو خیر اب اپنی آخری سانسوں پر ہیں۔ احتساب کا گھیرا ان کے خلاف بتدریج تنگ ہو رہا ہے۔ ان کے مستقبل کی راہ میں سموگ روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں جب شکست خوردہ عناصر گھبرا کے پوچھتے ہیں کہ ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ تو میں بہت ہنستا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سوال تو 1999ء میں تیئس ہزار فٹ کی بلندی سے میں نے بھی ان سے پوچھا تھا کہ مجھے کیوں نکالا؟... مگر پوچھنے کا میرا انداز ذرا مختلف تھا، جس کی بنا پر مجھے نکالنے والوں کو نیواں نیواں ہوکر خود یہاں سے نکلنا پڑا تھا۔ میں نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ طاقت اور اختیارات اچار ڈالنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ خوب استعمال کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ میں نے لیلائے وطن کے گیسو سنوارنے کے لیے کبھی اختیارات کا اچار نہیں ڈالا بلکہ انہیں خوب استعمال کر کے ملک کو تیز رفتار ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ (جاری )