ماسٹر صاحب: (کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے ) ارے کم بختو! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے کلاس روم کی تم نے؟ اندر گند باہر گند، گند ہی گند۔ بیڑا غرق کر دیا ہے نالائقوں نے اس تعلیمی ادارے کا۔
نورا دیوانہ: صرف اس ادارے کا؟ (قہقہہ)
فیقا ٹیڈی: آپ فکر نہ کریں ماسٹر جی، ہم صفائی کریں گے۔ اب ایسی صفائی ہو گی کہ باہر کا سارا کچرا صاف ہو جائے گا۔
ماسٹر صاحب: شاوش اے، اندر کے کچرے کی بات نہ کرنا۔ کلاس روم یونہی کوڑے کرکٹ سے بھرا رکھنا۔ تعفن پھیلائے رکھنا۔
گاما کوچوان : ہمارا کمرہ تو شیشے کی طرح چمک رہا ہے ماسٹر صاحب ( قہقہہ)
ماسٹر صاحب: (غصے سے ) ابے جاہلو! یہ فرش پر پھیلی گندگی دیکھو، یہ دیواروں پر اپنے ہاتھوں لکھے گئے گھٹیا اشعار دیکھو، بگے پٹھان کی نسوار کے نقش و نگار دیکھو اور چھت پر لگے جالے دیکھو۔
جمالا شرمسار: یہ جالے تو گئی رتوں کے حوالے ہیں ماسٹر جی! یہ ہم سے نہیں اتریں گے۔
ماسٹر صاحب: ابے کیوں نہیں اتریں گے ہڈ حرامو، جہاں گند پھیلاتے ہو، وہاں کی صفائی بھی کیا کرو۔
بگا پٹھان: دیکو ماسٹر صیب! اِدھر آپ بھی تو گند پیلاتا ہے ناں۔ ابھی آپ کتنی دیر سے گنا کا، کا کر چلکے فرش پر پینکتا جاتا ہے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: خاموش گستاخ ( کھسیانے ہو کرگنا کرسی کے پیچھے رکھ دیتے ہیں)
شیرو مستانہ: بگے کا مطلب ہے کہ ماسٹر جی کہ ہم تو یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ آپ کا اس ادارے سے رزق وابستہ ہے، آپ صفائی کیوں نہیں کرتے؟
ماسٹر صاحب: ابے او ریلو کٹے! یاد رکھو، جس دن میں نے صفائی شروع کی تو سب سے پہلے اس تعلیمی ادارے کو تم لوگوں سے پاک کروں گا۔
خیرو بھاگوان: جیو ڈھولا، پھر گلشن کاکاروبار کیسے چلے گا؟ (قہقہہ)
شیدا جہاز: آپ پریشان نہ ہوں ماسٹر جی! صفائی ہو گی، ضرور ہو گی۔ ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔
ماسٹر صاحب: ارے یہی تو اس گلشن کی بد قسمتی ہے کہ تم جیسے نااہلوں نے اس کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ تم نے تو اس کا بھٹہ بٹھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ بھوت بنگلہ بنانے کا عہد کر رکھا ہے اس سکول کو۔
خانو خاکسار: اللہ نہ کرے ماسٹر جی! اب ہم لوگ اتنے بھی برے نہیں۔
ماسٹر صاحب: نہیں جی، تم تو دودھ کے دھلے ہو بیٹا! ارے میں پوچھتا ہوں کہ رسوائی کے سوا تم نے دیا کیا ہے اس ادارے کو؟
جمالا شرمسار: اب غصہ جانے دیں ماسٹر جی! آپ ہمیں پڑھانا شروع کریں۔
ماسٹر صاحب: تم لوگ غل غپاڑہ بند کرو گے تو میں پڑھائوں گا نا...
گاما کوچوان: غل غپاڑہ غیر پارلیمانی لفظ ہے ماسٹر جی! اس پر تو ایک فوجداری دفعہ لگ سکتی ہے (قہقہہ)
فیقا ٹیڈی: ویسے ماسٹر جی! کلاس میں سب سے زیادہ غل غپاڑہ تو آپ خود کرتے ہیں (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: (کرسی کے پیچھے سے گنا اٹھاتے ہوئے) نکل جا فیقے، نکل جا میری کلاس سے۔
فیقا ٹیڈی: کیوں ماسٹر جی ! بگے نے آپ کو گندگی پھیلانے کا طعنہ دیا تو آپ نے اسے کچھ نہیں کہا۔ میں نے آپ کے شور شرابے کا ذکر کر دیا تو کون سی قیامت آ گئی؟
بگا پٹھان: اس کو نکالو ماسٹر صیب۔
ماسٹر صاحب: خاموش ہو جائو سب اور اب پڑھائی پر توجہ دو... پچھلے دو ماہ سے ابتدائی گرامر کے قواعد سمجھ نہیں آ رہے کوڑھ مغزوں کو (گنا کرسی کے پیچھے رکھتے ہوئے) غور سے سنو '' بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے‘‘ ...نورے تم بولو کہ اس جملے میں کون سا زمانہ پایاجاتا ہے؟
نورا دیوانہ: جھوٹ کا زمانہ (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: تُف ہے تم پر۔ ابے جاہل، یہ فعل حال کا جملہ ہے، حال کے زمانے کا۔
نورا دیوانہ: میں نے بھی تو اسی زمانے کی بات کی ہے ماسٹر جی (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: لغویات بکنا چھوڑو احمقو اور حال کے زمانے کے بارے میں کچھ سیکھو۔
شیرو مستانہ: لغویات کے سوا حال کے زمانے میں ہے ہی کیا ماسٹر صاحب (قہقہہ)
ماسٹرصاحب: ابے اُلو! میں تمہاری نہیں، دنیا کی بات کر ر ہا ہوں۔ علم کی، شعور کی بات کر رہا ہوں۔
بگا پٹھان: کیوں وقت ضائع کرتا ہے ماسٹر صیب (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: دانت نکالنا بند کرو اور میری بات پلے سے باندھ لو بالغو کہ کوئی بھی معاشرہ علم، تہذیب اور ثقافت کے بغیر نہیں چل سکتا۔
جمالا شرمسار: کیوں نہیں چل سکتا ماسٹر جی؟ معاشرے تو ان خرافات کے بغیر بھی دگڑ دگڑ دوڑ رہے ہیں (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: تیرا کیا بنے گا کالیا۔ ابے کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔
فیقا ٹیڈی: ہوتی ہو گی، ضرور ہوتی ہو گی ماسٹر جی (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: (کرسی کے پیچھے سے گنا اٹھاتے ہوئے) میں تجھے نکال دوں گا فیقے۔
بگا پٹھان: اس کو نکالو ماسٹر صیب۔
ماسٹر صاحب: خاموش ہوجائو سب اور دھیان سے سن کر بتائو کہ اس جملے میں کونسا زمانہ پایا جاتا ہے... ''بغیر ثبوت الزام لگانے کی روایت پروان چڑھ رہی ہے‘‘
بگا پٹھان: یہ تو اَچی بات ہے نا ماسٹر! ثبوت پر تو وقت ضائع ہوتی ہے (قہقہہ)
خیرو بھاگوان: فعل حال کا ایک جملہ سناتا ہوں ماسٹر جی ... ''میں گامے کوچوان سے ناراض ہوں‘‘
شیدا جہاز: کیوں؟ چوری کے مال پر بٹوارے میں جھگڑا ہو گیا تھا کیا؟ (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: بس بھئی بس! میں اب مزید تمہاری کوئی فضول بات نہیں سن سکتا۔
گاما کوچوان: یہ آپ کے شاگردوں کی کلاس ہے ماسٹر جی، او آئی سی کا اجلاس نہیں کہ آپ اس کی بات نہیں سنیں گے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ارے بے وقوفو! او آئی سی نے تو چھکے چھڑا دیئے امریکہ کے (قہقہہ)
شیرو مستانہ: پہلاں کیوں نئیں دسیا ماسٹر صاحب (قہقہہ)
بگا پٹھان: تم کو ایسا بات ہم سے چپانا نئیں تھا ماسٹر (سب قہقہہ لگا کر خاموش ہو جاتے ہیں مگر فیقا مسلسل ہنستے ہنستے دہرا ہوا جاتا ہے)
ماسٹر صاحب (کرسی کے پیچھے سے گنا اٹھا کر فیقے کی طرف لپکتے ہوئے) نکل میری کلاس سے پھٹیچر، میں کہتا ہوں دفع ہو جا یہاں سے۔
بگا پٹھان: اس کو نکالو ماسٹر صیب۔