ایڈیٹر کی ڈاک

قومی دھارے میں شامل کیا جائے! 
مکرمی! ٹائوٹ ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر ہر حکومت نے انہیں اچھوت سمجھتے ہوئے قومی دھارے میں شامل کرنے سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ تھانہ کچہری سے لے کر اعلیٰ ایوانوں تک گلشن کا سارا کاروبار ہی ٹائوٹوں کے سہارے چل رہا ہے۔ ہر پبلک ڈیلنگ والے محکمے کے اہلکاروں ، افسران اور عوامی نمائندوں کے اپنے اپنے ٹائوٹ موجود ہیں جو سائلان اور صاحب کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ٹائوٹ فریقین کے درمیان ڈیل کرا کے اپنا جائز کمیشن وصول کرتا ہے اور سائلان با عزت طریقے سے اپنا کام نکلوا کر اسے دعائیں دیتے ہیں۔ اگر ٹائوٹ اپنی خدمات پیش نہ کرے تو سائلان کی درخواستیں سرکاری دفتروں ہی میں رسوا ہوتی رہیں اور وہ اگلے جہان سدھار جائیں ۔ اگر ذہن کا کینوس ذرا وسیع کیا جائے تو سرکاری بیرونی سودوں میں بھی ٹائوٹ کا کردار مسلمہ نظر آتا ہے، جو اپنا کمیشن وصول کر کے سودا طے کراتا ہے۔ مندرجہ بالا سطور سے معاشرے میں ٹائوٹ کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے اور اس کے سکہ رائج الوقت ہونے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ دریں حالات اربابِ اقتدار سے اپیل ہے کہ ٹائوٹوں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔ انہیں سرکاری سطح پر تسلیم کرنے اور میڈیکل اور پنشن جیسی سہولیات کے علاوہ ضلعی ،صوبائی اور مرکزی سطح پر ایسوسی ایشنز بنانے اور رجسٹرڈ کرانے کی اجازت دی جائے ۔ نیز ہر لحاظ سے با اختیار ''چیئرمین آل پاکستان ٹائوٹ ایسوسی ایشن‘‘ کا انتخاب بھی ضروری ہے ،جسے گریڈ بائیس کی مراعات حاصل ہوں، تاکہ ٹائوٹ قومی دھارے میں شامل ہوکر بلا جھجک و شرم و حیا ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں ( ایک ادنیٰ ٹائوٹ) 
..................
پرائیویسی کو تحفظ فراہم کیا جائے! 
مکرمی ! ہمارا گائوں گوناگوں مسائل کا شکار ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ ماسی برکتے اور چاچا شیرا ہیں ، جو کیدو کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا واحد مشغلہ دوسروں کے ذاتی معاملات میں ٹانگ اڑانا اور پرائیویسی کی مٹی پلید کرنا ہے ۔ چاچی خیراں بیمار رہتی ہے ۔ کل رات گئے میں چاچی کی خیریت دریافت کرنے اس کے گھر چلا گیا ۔ خیراں سو چکی تھی ، البتہ اس کی بیٹی شیدو جاگ رہی تھی۔ ہم دونوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ کی دھمکیوں اور امریکہ کی جانب سے ملک پر ممکنہ حملے کے نتیجے میں اسے منہ توڑ جواب دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال شروع کر دیا۔ ہمارا تبادلہ خیال ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا کہ چاچے شیرے نے اپنی ڈانگ سے ان غریبوں کے گیٹ کی چولیں ہلا کر گلی میں شور مچا دیا کہ اس گھر میں کوئی اجنبی گھس گیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو شیدو کا ، جس نے اپنے گھر کی عقبی دیوار پھلانگنے میں میری مدد کی ورنہ اس خبطی بڈھے نے تو مجھے ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ ہمیں اپنا تبادلہ خیال ادھورا رہ جانے پر بڑا دکھ ہوا مگر خدا کا شکر ہے کہ عزت بچ گئی۔ آپا چھیمو اور اس کے خاندان کی ملنساری کی دھومیں ہیں۔ اللہ بخشے آپا کا خاوند بلھا گھر والوں کی اسی ملنسارانہ چال چلن سے متعلق برکتے اور شیرے کے طعنے سن سن کر فوت ہوا تھا ۔ پچھلے ہفتے آپا چھیمو کے گھر کے سامنے والی سٹریٹ لائٹ دسویں مرتبہ اتفاقاً ٹوٹی تو اتنی سی بات پر گائوں والوں نے جرگہ بلا لیا ۔ جرگے میں ماسی برکتے اور چاچے شیرے نے بغیر کسی ثبوت کے اس حرکت کا الزام ناچیز سمیت پندرہ عدد معززین دیہہ کے سر تھوپ دیا۔ انہوں نے سٹریٹ لائن توڑنے کے مقاصد کے ضمن میں ہمارے بارے ایسی گھٹیا کلامی کا مظاہرہ کیا کہ ہم شرفا شرم سے پانی پانی ہو گئے ۔ المختصر! ہمیں جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا اور بے عزتی الگ ہوئی ۔ حکام بالا سے استدعا ہے کہ ہمارے گائوں میں پرائیویسی کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور ہر دو مکروہ کرداروں کو تاحیات گوانتامو بے ارسال کر کے اہل دیہہ کو مشکور فرمایا جائے ( مشکور خان‘ پنڈ عاشقاں) 
..................
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی جائے! 
ہمارے علاقے میں لالچی ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں نے انت مچا رکھی ہے ۔ چینی اور آٹے کے بعد اب تُرپ کا پتہ مارتے ہوئے یہاں نسوار کی مصنوعی قلت بھی پیدا کر دی گئی ہے، جس سے علاقہ بھر میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ اعلیٰ حکام سے درد مندانہ اپیل ہے کہ ان ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اور نسوار کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے ، ورنہ امن و امان کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ( اہالیانِ نسوار خیل) 
..................
قیدیوں کے مسائل حل کیے جائیں!
جیل میں قیدیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ۔ چرس اور ہیروئن مارکیٹ سے ڈبل قیمت پر مہیا کی جاتی ہیں اور وہ بھی ملاوٹ شدہ ۔ اوپر سے بھتہ الگ وصول کیا جاتا ہے ۔ موبائل فون رکھنے کے ریٹ بھی بڑھا دیئے گئے ہیں ۔ اربابِ اقتدار سے گزارش ہے کہ کل انہیں بھی یہاں قیام کرنا پڑ سکتا ہے ، لہٰذا وہ ان مظالم کا نوٹس لیں ۔ مہذب قوموں کی طرح قیدیوں کو بھی انسان سمجھا جائے اور ان کے مسائل حل کیے جائیں (ایک قیدی‘ کوٹ لت پت جیل) 
..................
معاشرے میں جائز مقام دیا جائے! 
مکرمی ! ملک کو آزاد ہوئے ستر برس ہو گئے ہیں مگر آج تک عطائی معاشرے میں اپنے جائز مقام سے محروم ہیں ۔ یہاں ڈاکٹر چاہے لوگوں کی کھال ادھیڑ دیں یا قبرستان آباد کرتے جائیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں مگر جب بھی سختی آتی ہے تو بے چارے عطائیوں کی ۔ ان مسکینوں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا ہے ، حالانکہ وہ نہایت کم اجرت پر دکھی انسانیت کی خدمت کا بے لوث فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ باقی زندگی اور موت تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ ویسے بھی یہاں کون سا ایسا شعبہ ہے ،جہاں عطائی بکثرت نہیں پائے جاتے مگر فقط علاج معالجے کے مقدس پیشے سے وابستہ عطائیوں کی بیخ کنی کے مطالبات فیشن کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ حکومت سے درخواست ہے کہ عطائیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انہیں معاشرے میں جائز و باعزت مقام دیا جائے ( انجمن عطائیاں پاکستان) 
..................
بھتہ خوروں سے نجات دلائی جائے! 
ہمارے محلے پر بھتہ خوروں نے یلغار کر رکھی ہے ۔ معززین محلہ پر منشیات فروشی اور جوئے کے اڈے، نیز دیگر غیر اخلاقی اڈے چلانے کے بے بنیاد الزامات عائد کیے جاتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے علاقے میں صرف ایک اڈہ ، یعنی چھوٹا سا لاری اڈہ ہے اور بس ۔ باقی سب ہوائی فائر ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ محلے کے شرفا کی روایتی وضع داری اور مہمان نوازی کے سبب رات بھر مہمانوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، جسے جواز بنا کر متعلقہ تھانے کے عملے اور دو نمبر صحافیوں نے سفید پوشوں سے بھتہ وصولی کو مستقل وظیفہ بنا رکھا ہے ۔ اس مذموم مقصد کی خاطر ہم شرفا کے گھروں پر چھاپوں اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ حکام بالا سے عرض ہے کہ ہمارے محلے سے تیل نکلتا ہے، نہ نوٹ چھاپنے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں ۔ ہمیں ان بھتہ خوروں سے نجات دلائی جائے (اہالیان محلہ پوڈریاں) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں