منّو بھائی کا چاک اور ہمارے سلامت گریباں

منو بھائی نصف صدی تک اپنے ''گریباں ‘‘ میں جھانکتے رہے، البتہ دانش کے قطب میناروں کو کبھی اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ شاید اس لیے کہ منیر احمد قریشی کا ''گریباں چاک‘‘ تھا، جس میں جھانکنا آسان ہوتا ہے جبکہ باقیوں کے سلامت ہیں۔ پھر بھی وہ ''ضیاء الحقیوں‘‘ اور ''در فنطنیوں‘‘ کی آڑ میں دوسروں کو اس خیر العمل کی دعوت دیتے رہے۔ ہم نے منو بھائی سے کبھی نہیں پوچھا کہ ان کا گریباں لِیر و لیر کیوں ہے؟ ممکن ہے کہ کسی اور نیاز مند کے ایسے کسی سوال پر انہوں نے کہا ہو:
مرزے خاں نال دھوکہ کیتا اوہدے اپنیاں تِیراں نیں
منو بھائی ہمارے مہرباں اساتذہ میں سے تھے۔ جیسے شاعری کی صلاحیت رکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کامیابی کے لیے اساتذہ کے کلام کا عمیق مطالعہ کرے اور اصلاح لے، اسی طرح اپنے اندر کالم نگاری کے جراثیم محسوس کرنے والے کو بھی ایسی ہی ریاضت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم نے اس دشت کی سیاحی میں قدم رکھنے سے قبل اور بعد میں‘ دوسرے اساتذہ کے علاوہ منو بھائی کی بے شمار فکر انگیز تحریریں پڑھیں۔ طفلِ مکتب کی حیثیت سے ان سے رہنمائی لی اور انہوں نے بہت دفعہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم حسبِ توفیق ہی سیکھ سکے، جو ابھی تک ''حسبِ حال‘‘ ہے۔ سردیوں کی ایک شام الحمرا کے لان میں آپا کشور ناہید اور ہم واک کر رہے تھے۔ انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں نصیحت کی ''چھوٹے جملے لکھا کرو... مختصر... خصوصاً جب انہیں سٹیج پر بولنا بھی ہو‘‘ (آپا نے اس ادبی کانفرنس کی ایک نشست میں ہمارا ''خطاب‘‘ سنا تھا) تاہم، ہم منو بھائی کے کالموں سے سیکھی گئی‘ لمبے فقرے لکھنے کی خُو پر قابو نہ پا سکے۔ یہ خوبی ہم دونوں کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ فرق یہ ہے کہ منو بھائی کے طویل جملے مقصدیت اور معنویت سے بھرپور ہوتے ہیں۔
ادب کے شناور کہتے ہیں کہ اساتذہ کے مصرعے پر گرہ لگانا بذاتِ خود جسارت کے مترادف ہے۔ ہم نے یہ جسارت متعدد مرتبہ کی ہے۔ ہمارے اعلیٰ ظرف اساتذہ نے بھی معترض ہونے کی بجائے ہمیشہ ہمیں حوصلہ افزائی اور انعام و اکرام سے نوازا ہے۔ 2012ء کی بات ہے، ہم نے منو بھائی کا ایک لمبا جملہ پڑھا ''یہ لو گ عام انتخابات اور مذاکرات سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انتخابات کے لیے ان کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور مذاکرات کے لیے ان کے پاس دلائل نہیں ہوتے‘‘... ہم نے اپنی ناقص فہم کے مطابق سمجھا کہ یقینا ان کا اشارہ ان مایہ ناز ہستیوں کی طرف ہے، جن کے بیلٹ باکس اور دماغ خالی ہوتے ہیں اور دلائل کی بجائے ان کے منہ سے گالیاں جھڑتی ہیں۔ ہم جرأت اظہار تو نہیں رکھتے، البتہ سُرعتِ اظہار کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ سو ہم نے منو بھائی سے پوچھے بغیر ان کے طرح مصرع پر غزل باندھ دی۔
ہمارے اس کالم کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم نے بچپن میں چالاک لومڑی کی کہانی سے سبق سیکھا کہ جن کی پہنچ انگوروں تک ممکن ہوتی ہے، ان کے لیے وہ میٹھے اور جن کی دسترس سے باہر ہوں‘ ان کے لیے کھٹے ہوتے ہیں۔ بڑے ہوئے تو ''آشوبِ آگہی‘‘ نے سکھایا کہ یہ تو ایک ''یونیورسل ٹُرتھ‘‘ ہے، جسے مصنف نے بچوں کو سمجھانے کے لیے انگور کو محض استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مثلاً جو روز دندناتے ہوئے چاند پر پہنچ جاتے ہیں، ان کے لیے وہ پتھریلی چٹانوں پر مشتمل ایک حقیقت ہے اور جن کے دریچۂ فکر پر سائنس نے دستک نہیں دی، ان کے لیے وہ افسانوی ماموں ہے جو عید پر بھی ان سے آنکھ مچولی کھیلتا ہے اور وہ تین تین عیدیں مناتے ہیں۔ اس باہمی تضاد کو ہم بالترتیب فریقین کی علم دوستی اور علم دشمنی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ اسی تضاد کو شاخسانہ ہے کہ ایک فریق جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے طفیل دنیا پر اپنا سکہ جما بھی لیتا ہے، جبکہ دوسرا فریق اپنے ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے میں ڈنڈا اٹھائے‘ ایک ایسی دنیا پر اپنا پرچم لہرانے کے خواب دیکھتا ہے، جس کی ہیئت ہی اس کے لیے کھٹے انگوروں جیسی ہے۔ اسی یونیورسل ٹُرتھ کے تحت جمہوریت کے انگوروں میں بھی صرف ان کے لیے مٹھاس ہے جن کی وہ دسترس میں ہیں اور جن کی چھلانگیں عوامی نمائندگی کے انگوروں تک نہیں پہنچ سکتیں، ان کے لیے وہ کھٹے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کوتاہ قد ''انگوروں‘‘ کا باغ اجاڑنے کے درپے رہتے ہیں۔ وہ آمریت میں بریشم کی طرح نرم اور ''کھٹے انگوروں‘‘ کے موسم میں فولاد بن جاتے ہیں۔ ''ضیاء الحقی ادوار‘‘ میں شہد ٹپکانے والی زبانیں آئینی ادوار میں مانندِ برق و شرر کڑکتی ہیں۔ ایسے نامہرباں موسموں میں ان کے دہانِ شیریں سے عوام کے منتخب اداروں کے خلاف طعن و تشنیع اور لعنت و ملامت کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ ان کی ایک اور پہچان یہ ہے کہ وہ نظام بدلنے کا تو خوب واویلا کرتے ہیں مگر خود مستقبل کے بارے میں کسی ٹھوس لائحہ عمل سے تہی دامن ہیں۔ کالم کے آخر میں ہم نے لکھ دیا کہ منو بھائی ان کی ''تعریف‘‘ اس طرح کرتے ہیں ''یہ لوگ عام انتخابات اور مذاکرات سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انتخابات میں ان کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور مذاکرات کے لیے ان کے پاس دلائل نہیں ہوتے‘‘... تُکا لگ گیا۔ منو بھائی نے فون کرکے کالم کی دل کھول کر تعریف کی اور شاباش سے نوازا۔
منو بھائی حقیقی انسان دوست تھے، مظلوموں اور استحصال زدہ طبقے کے ہمدرد تھے، تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیاکی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے لیے روشنی کی کرن تھے، عورتوں کے حقوق کے علمبردار تھے، جمہوریت پسند تھے، بامقصد تخلیق کار اور بیدار مغز دانشور تھے، اپنے نظریات میں کلیئر تھے اور اپنے مشن سے مخلص اور اس کی کامیابی کے لیے انتھک جدوجہد کرنے والے تھے۔ ان کی چوراسی سالہ زندگی ان کے اپنے ہی ایک شعر کی مجسم تشریح ہے کہ:
جیہڑا اپنے ویلے کولوں ڈر جاندا اے، اوسے ویلے مر جاندا اے
جیہڑا جتھے رک جاندا اے، اوسے تھاں تے مُک جاندا اے
منو بھائی مریں گے اور نہ رکیں گے۔ انہوں نے اپنی آخری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں نے تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کی بیماریوں میں مبتلا بچوںکے لیے اپنی زندگی کا باقی ماندہ حصہ وقف کر رکھا ہے جو میری موت تک چلے گا لیکن میں یہاں اپنی اس خواہش کو بھی پڑھنے والوں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ جس طرح امراض کے جراثیم پچھلی نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہوتے ہیں، اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ میرے اس مقصد میں بھی میری اگلی نسل شامل ہو اور وہ میری اس وراثت کے حصہ دار بنیں جو انسانیت کی اصل معراج ہے... گویا وہ خودبھی اپنے ہاتھ سے لکھ گئے اور آئندہ ان کی یاد میں بننے والا ''منو بھائی ہسپتال‘‘ اور ان کا جاری مشن بھی ان کے حق میں گواہی دیتے رہیں گے کہ ''بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں‘‘... ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا ایک شعر سچ ثابت کرنے کے لیے دنیا سے چلے گئے ہوں کہ:
حق دی خاطر لڑنا پیندا
جیون دے لئی مرنا پیندا
ذکر منو بھائی کے چاک گریباں کا تھا۔ انہوں نے حق گوئی اور انسانیت کی خدمت کے جس مشن کا علم اٹھایا، اسے ضمیر کی آواز پر ''یس سر‘‘ کہے بغیر بلند کرنا ممکن نہیں اور ضمیر کی بات پر کان دھرے جائیں تو گریباں تو چاک ہوتا ہی ہے۔ شکر ہے کہ ہماری سیاست اور دانش کے قطب میناروں کے گریباں سلامت ہیں۔ ہم سب کے گریباں سلامت ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں