حسب سابق اور حسب روایت پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے بعد اسے سرِ عام لٹکانے کے مطالبات عروج پر ہیں۔ جعلی پولیس مقابلوں سے شہرت پانے والے رائو انوار کے خلاف بھی شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ گویا جیسا کہ ہمارا معمول ہے، ہم ان سانحات کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک میں قانون کی حکمرانی کی ضرورت کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قاتلوں اور بائولوں سے پاک ایسے معاشرے کا قیام ضروری ہے، جہاں سب کی جان، مال اور عزت محفوظ ہو۔ ہمیں اپنے اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے جذبات سے ہٹ کر اور زمینی حقائق مدِنظر رکھتے ہوئے دوسرے ممالک کے تجربات کا جائزہ لینے اور ان کے ساتھ اپنا تقابل کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں قانون کی عملداری قائم کرنے کے دو طریقے رائج ہیں۔ ایک قدیم اور مؤثر اسلوب خلیج کے برادر اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ وہاں جرائم پر انتہائی سخت سزائیں نافذ ہیں۔ مقامی افراد اور تارکینِ وطن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جرم کی صورت میں بلا امتیاز کارروائی ہو گی۔ قتل کیا تو گردن ماپی جائے گی، چوری کی تو ہاتھ کٹے گا، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی تو لائسنس منسوخ ہو گا اور لڑائی جھگڑے، فساد یا مذہبی منافرت پھیلانے پر جیل یاترا اور کوڑوں کے علاوہ ویزا بھی کینسل ہو گا۔
ان ممالک میں رہنے والوں کو بخوبی علم ہے کہ جرم سرزد ہونے کی صورت میں کوئی شیخ، وزیر، دھونس دھاندلی یا رشوت کام نہیں آئے گی۔ نیز کوئی واقف کار تھانیدار تو کیا، معمولی شُرطہ بھی ندیدہ ثابت ہو گا۔ ہمارے بڑے بڑے سُورما قسم کے نسلی قانون شکن ان ممالک کے ایئر پورٹس پر اترتے ہی ''انسان‘‘ بن جاتے ہیں۔ جو یہاں قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے، وہاں پہنچ کر قانون کا پابند ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی اکڑ کر چلتا ہے، نہ تڑی دیتا ہے، نہ دھونس جماتا ہے، نہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی کو کٹ مارتا ہے، حتیٰ کہ وہ بے جا ہارن تک بجانے کی جرأت نہیں کرتا؛ تاہم وہاں پر ہر طرح کی سہولتوں کے باوجود شہریوں کو اپنے حکمرانوں کے چنائو کا حق اور شخصی آزادیاں حاصل نہیں، البتہ تحفظ ضرور حاصل ہے، جو کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس نعمت کی قدر وہی جانتا ہے جس کی جان، مال ، عزت، بچے اور عورتیں محفوظ نہ ہوں۔ قانون کی حکمرانی کی اس قسم کو ہم ڈنڈے کے زور پر قانون کا نفاذ کہہ سکتے ہیں۔ یعنی کوئی چاہے یا نہ چاہے مگر اسے قانون کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ ہم ہر روز اس کی چھوٹی چھوٹی مثالیں سنتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے پیر و مرشد دبئی وزٹ پر تشریف لے گئے۔ انہوں نے کار میں بیٹھتے ہی بیئر کا ڈبہ کھولا تو میزبان نے گھبرا کر ان کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کیا اور عرض گزار ہوا کہ قبلہ شُرطہ دیکھ رہا ہے، یہاں اس کام کے لیے الگ سے جگہیں مخصوص ہیں۔ آپ نے جلال میں آ کر فرمایا ''کیا شُرطہ نہیں جانتا کہ میں کون ہوں؟‘‘ مرید میزبان نے جواب دیا ''سرکار وہ کسی گدی یا روحانی شخصیت کو نہیں، صرف قانون کو جانتا ہے‘‘... ہم ان برادر ممالک کے شہریوں اور اپنے جیسے ممالک کے وہاں مقیم لوگوں کی تاریخ، نفسیات اور رویوں کی بنا پر خوب جانتے ہیں کہ اگر آج وہاں سے ڈنڈا اٹھ جائے تو لاقانونیت کا سیلاب آ جائے۔
قانون کی بالادستی کی دوسری قسم اغیار کے ہاں رائج ہے، جنہیں ہم اخلاق باختہ اور کھوکھلے معاشروں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان غیر مسلم ممالک میں قانون کی عملداری بذریعہ تربیت قائم کی گئی ہے۔ یہ ایک لمبا اور صبر آزما طریقہ ہے جو کفار ہی کو زیبا ہے۔ یورپی ممالک میں اس ''موذی پلاننگ‘‘ کے تحت عقیدے کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اسے ریاست سے الگ کیا اور بلا تخصیص جنس، مذہب و ملت اور رنگ و نسل وہی معتبر ٹھہرا جو معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ ان ممالک میں بچہ ہوش سنبھالتا ہے تو آئین، قانون، احترامِ انسانیت، اخلاق ، ڈسپلن، تہذیب، رواداری، علم اور سچ کا بول بالا دیکھتا ہے۔ گھر ہو یا سکول، اس کی تربیت انہی خطوط پر ہوتی ہے۔ ہماری طرح صفائی ان کا نصف ایمان تو نہیں البتہ صفائی میں ان کی جان ضرور ہے، چاہے وہ تن کی ہو یا من کی، گھر کی ہو
یا گلی کی، شہر کی ہو یا ملک کی۔ ایسے ہی ایک ملک میں مقیم ہمارا دوست ان کے ایک عام سے رویے پر صدقے واری ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی شخص دفتر یا دکان میں داخل ہونے کے لیے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتا ہے اور ساتھ ہی اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آواز سنتا ہے۔ وہ یہ جانے بغیر کہ پیچھے مرد ہے یا عورت، گورا ہے یا کالا، دروازہ کھول کر مسکراتے ہوئے پلیز کہہ کر اسے پہلے اندر داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ قانون نہیں، مگر قانون کی پابندی ایسے ہی مثبت رویوں کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔
جرائم وہاں بھی ہیں اور سزائیں بھی نافذ ہیں لیکن آبادی کی غالب اکثریت قانون کی پابندی اسی اجتماعی معاشرتی تربیت کے سبب بخوشی‘ خود اور بلاجبرو اکراہ غیرے کرتی ہے۔ کوئی چوک کی سرخ بتی پر اس لیے نہیں رکتا کہ سامنے سپاہی کھڑا ہے بلکہ اس کی گھٹی میں شامل ہے کہ ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی ہے، جھوٹ نہیں بولنا، کم نہیں تولنا، بے ایمانی، دھوکہ ، فریب نہیں کرنا، ٹیکس چوری نہیں کرنی، کسی کا حق نہیں مارنا اور ریاست کے ساتھ وفادار رہنا ہے۔ جواب میں ریاست بھی ان کے ساتھ جفا نہیں کرتی اور روزگار، صحت و تعلیم، عزت نفس اور دیگر سہولتوں کے علاوہ انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ان لوگو ں کو بلاخوف اپنے نمائندے چننے کا حق ہے اور وہ بنیادی حقوق اور شخصی آزادیوں سے بہرہ مند بھی ہیں۔
ہمیں یہ دونوں طریقے وارا نہیں کھاتے۔ ہم نے قانون کی عملداری کا ایک تیسرا طریقہ متعارف کرا رکھا ہے جس میں قانون کی موم کی ناک مروڑ کر اسے اپنی خواہشات اور ضروریات کے مطابق نافذ کیا جاتا ہے۔ اسلوب تو یہ بھی برا نہیں مگر اس میں ایک چھوٹی سی خرابی ہے کہ معاشرے میں لاقانونیت اور عدم تحفظ کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ کسی تربیت وغیرہ کے جھنجھٹ کے تو خیر ہم سرے سے قائل ہی نہیں کہ مغرب سے آنے والی ہوا بھی ہمارے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے اور ویسے بھی قوم کی تربیت جن کی ذمہ داری ہے، انہیں خود ان چیزوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم خلیجی برادر ممالک کے اسلوب نفاذِ قانون کے پُرجوش حامی ہیں، لیکن یہاں پر بھی ایک مصیبت ہے کہ ہم نے کلی نہیں بلکہ جزوی طور پر قانون کی ایسی حکمرانی کی خواہش پال رکھی ہے۔ بااختیار طاقتوں اور برسرِ اقتدار ہستیوں سے لے کر ریڑھی والے تک ہر شخص چاہتا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جائیں مگر خود اُسے استثنیٰ حاصل ہو۔ حکومت کرنے والا خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے، قانون نافذ کرنے والے نے خود کو اس شکنجے سے مبرا قرار دے رکھا ہے، محتسب فقط دوسروں کے احتساب کا متمنی ہے، جعلی ادویات بنانے والا رشوت خوروں کا قلع قمع چاہتا ہے، ذخیرہ اندوز سرکاری وسائل لوٹنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنے کا متمنی ہے اور اشیائے خور و نوش کی صورت میں زہر بیچنے والا گھپلے کرنے والے ٹھیکیدار کو سزا دلوانے کا خواہاں ہے۔ ان سب کو زینب کی دردناک موت پر اپنے پائوں جلتے محسوس ہوئے ہیں اور وہ اپنی اپنی زینبوں پر لہراتے عدم تحفظ کے سائے دیکھ کر لرزتے ہیں تو اس کے قاتل کو عبرتناک سزا دینے کے پرجوش اور جذباتی مطالبات کرتے ہیں۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر درندے عمران علی کو چوک میں لٹکا دیا جائے تو نظام درست ہو جائے گا اور قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے گی۔ نہیں جناب والا! یہ وہاں ہوتا ہے جہاں بلاتخصیص اور بلاتفریق قانونی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ جہاں رائو انواروں کو دیمک زدہ تفتیشی نظام اور زنگ آلود جسٹس سسٹم سے بچ نکلنے کی قوی امید ہو، وہاں قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتا۔
دوسری طرف اگر ثانی الذکر یعنی اغیار کے طریقے کا مشاہدہ کیا جائے تو کھلتا ہے کہ قانون کی عملداری رویوں سے جنم لیتی ہے۔ جہاں ہیروز کا قابلِ فخر ڈائیلاگ ''نماز میرا فرض اور چوری میرا پیشہ‘‘ ہو اور اس پر داد بھی ملتی ہو، نیز اس کی تقلید بھی کی جاتی ہو، وہاں قانون کی حکمرانی خواب ہی رہتی ہے۔ دروازہ کھول کر اپنے سے بعد میں آنے والے کے لیے رستہ چھوڑنے اور ایمبولینس کو بھی راستہ نہ دینے کے رویوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔