گزشتہ کالم میں دنیا میں قانون کی عملداری قائم کرنے کے دو طریقوں پر بات کی گئی۔ اس کارِ خیر کے لیے اپنے ہاں رائج ''طریقۂ واردات‘‘ پر بھی کچھ عرض کیا گیا۔ بجا طور پر اعتراض کیا گیا ہے کہ جرائم تو ساری دنیا میں ہوتے ہیں اور ہر ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں، پھر فقط اپنی قوم کو مطعون کرنا چہ معنی دارد؟ اس سوال پر ہم بعد میں اپنی ناقص رائے دیں گے۔ پہلے اپنے معاشرے کے صالح حضرات کے ایک مایہ ناز مؤقف پر بات کرتے ہیں، جو اس کالم پر بھی سامنے آیا۔ ہمارا اسلوب یہ ہے کہ اوّل تو ہم نے کسی کو تسلیم ہی نہیں کرنا۔ چاہے کسی ترقی یافتہ قوم نے صدیوں کی منصوبہ بندی اور محنت سے مثالی معاشرہ قائم کیا ہو، ہم لوگ انہیں صفر سے ضرب دینے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔ اگر کبھی موڈ میں آ کر اغیار کی اچھی عادات کو تسلیم کر بھی لیں توساتھ اپنا ایک ٹھوس اور مایہ ناز مؤقف ضرور دہراتے ہیں۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ غیر مسلم معاشروں نے تمام رہنما اصول ہمارے آفاقی دین سے چرا کر ترقی کی ہے۔ بالکل صحیح ہے، سو فیصد صحیح، لیکن ان کی چوری کی مہارت کی داد دینی پڑے گی کہ کم بختوں نے ہمیں ہوا بھی نہیں لگنے دی اور واردات ہٰذا سے چپکے چپکے نہ صرف خوشحال ہو گئے بلکہ دنیا اور خلائوں پر اپنا سکہ بھی جما لیا حالانکہ اس پر پہلا حق تو ہمارا تھا۔ حیرت ہے کہ سچ کے خوگر ہم ہیں مگر اس پر ناجائز قبضہ ان کا ہے۔ کم تولنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے مگر پورا وہ تولتے ہیں۔ باضمیر ہم ہیں مگر ضمیر کی منڈیاں وہاں نہیں لگتیں۔ اندر اور باہر سے ایک فقط ہم نیکو کار ہیں مگر منافقت کے بازار وہاں نہیں سجتے۔ اصول ہمارا ہے مگر تفرقہ بازی وہاں نہیں ہوتی۔ اگر ایسا کچھ ہے بھی تو وہاں پر ہماری کمیونٹی میں۔ دوسروں کی جان و مال کی حرمت کا حکم ہمیں ہے مگر دہشت گردی وہاں نہیں ہوتی۔ اگر اِکا دُکا واردات ہو بھی جائے تو ہمارے کھاتے ہی میں شمار ہوتی ہے۔ ہمارے چرائے ہوئے اصولوں کے تحت ان کے حکمران دشمن کے لیے جتنے بھی فولاد ہوں، اپنے عوام کے لیے اتنے ہی بریشم ہیں۔ خادم ہمارے فرمانروا ہیں مگر خدمت وہ کرتے ہیں۔ وہ عوام کے ٹیکسوں سے عیاشی کرتے ہیں، نہ شاہانہ جلوس میں کروفر سے سفر کرتے ہیں۔ اپوزیشن میں آ کر دھرنوں سے عوام کا ناطقہ بند کرتے ہیں، نہ سڑکوں پر ریلیوں سے۔ وہاں کوئی کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرتا ہے، نہ جعلی ادویات بناتا ہے۔ عدالتوں میں انصاف کی بے حرمتی ہوتی ہے نہ ہسپتالوں میں مریضوں کی بے چارگی نظر آتی ہے۔ عوام کی درخواستیں میز در میز رسوا ہوتی ہیں نہ انہیں کلرک اور افسر شاہی کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ کوئی دوسروں کو اپنی بیمار ذہنیت کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے نہ کوئی کسی کے آگے ربوٹ بنتا ہے۔ ہم ان حیا سوز اور عریانی کے دلدادہ معاشروں کو غیور قوم یا باضمیر ملت تو ہرگز نہیں کہہ سکتے، البتہ چور ضرور قرار دے سکتے ہیں، جو ہماری ساری اچھائیاں چرا کر لے گئے اور اپنی برائیاں یہاں چھوڑ گئے۔
اب رہا ان ممالک میں بچوں سے زیادتی کا سوال۔ یہ بالکل درست ہے کہ انہیں بھی ایسے تکلیف دہ واقعات کا سامنا ہے۔ معاصر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ سے جو حقائق سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق گزشتہ برس جولائی میں نیویارک کے میڈیا ہائوس ''سی بی ایس نیوز‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ بچوں میں فحش نگاری کے حوالے سے جرائم میں گزشتہ عشرے کے دوران دو سو فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ انٹرنیٹ کے ذریعے زہریلے مواد کا آسانی سے پھیلائو ہے۔ 2009ء سے 2013ء کے درمیان امریکہ میں اس بات کے ٹھوس شواہد سامنے آئے کہ ہر سال تریسٹھ ہزار بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ برطانوی اخبار ''دی گارجین‘‘ کی 2016ء کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس میں بچوں سے بداخلاقی کے واقعات میں تیس فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح دوسرے یورپین ممالک کے اعداد و شمار بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کا ایک نامعتبر سا حصہ وہ ہے، جس میں جنوری 2015ء میں پاکستان کے گوگل سرچ ٹرینڈز کے حوالے سے ہرزہ سرائی کی گئی ہے کہ وطن عزیز فحش مواد سرچ کرنے والے چوٹی کے ممالک میں سر فہرست ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 15جنوری 2013ء کو ''ڈیلی میل‘‘ نے خبر دی کہ پاکستان انٹرنیٹ صارفین نے ہم جنس پرستی کے حوالے سے گوگل پر تلاش میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا جبکہ یہ ملک اس قبیح فعل سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ چلیں رپورٹ کے اس آخری حصے پر تین حرف بھیجتے ہوئے اسے صفر سے ضرب دے دیتے ہیں۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جب تک انسان روئے زمین پر موجود ہے، جرائم تو ہوتے رہیں گے۔ بات ان جرائم پر قابو پانے کی ہے۔ دنیا میں کہیں جرائم کے پیچھے کارفرما عوامل اور محرکات کا کھوج لگا کر انہیں رفع کرنے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور کہیں خالی خول بڑھکوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ زیادہ مثالیں دینے کے لیے کالم کے دامن میں گنجائش نہیں، سو ہم دو پر اکتفا کریں گے۔ ''بد نام زمانہ‘‘ ایف بی آئی نے امریکن چائلڈ ایکسپلائی ٹیشن ٹاسک فورسز اور نیشنل سنٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلائیٹڈ چلڈرن سمیت چار سو اداروں کی مدد سے بچوں سے زیادتی کے بارے میں تحقیقات کی ہیں اور اس قبیح فعل کے تدارک کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک اور رپورٹ پڑی ہے۔ لکھا ہے کہ 1996ء میں آرلنگٹن میں امبر نامی نو سالہ بچی غائب ہو گئی، جس کی لاش پانچویں روز ایک نالے سے برآمد ہوئی۔ تفتیشی آفیسر مائیک سائمنڈ کے ذہن میں آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ایسا نظام قائم کرنے کا خیال آیا، جس کے ذریعے مغوی بچے کی تفصیلات چند منٹوں میں پورے شہر میں پھیل جائیں اور لوگ الرٹ ہو جائیں۔ اس نے دو ہفتے کی محنت کے بعد ''امبر الرٹ‘‘ کے نام سے یہ سسٹم بنا کر آرلنگٹن پولیس کو دے دیا جو آج یورپ، مشرقی بعید اور لاطینی امریکہ سمیت دنیا کے تقریباً تمام جدید ممالک میں رائج ہو چکا ہے۔ جب کوئی بچہ اغوا ہوتا ہے تو پولیس اس کی تصاویر اور دیگر تفصیلات میڈیا کو فراہم کرتی ہے، جو انہیں فوری طور پر نشر کر دیتا ہے۔ یہ تفصیلات موبائل کمپنیوں کو بھی فراہم کی جاتی ہیں جو چند سیکنڈز میں بلامعاوضہ تمام صارفین تک پہنچا دیتی ہیں۔ فیس بک، گوگل، یوٹیوب اور ٹیوٹر بھی امبر الرٹ جاری کرنے کے پابند ہیں۔ نیز یہ الرٹس یورپ کے بارہ ممالک کے شہروں کے بل بورڈز، ایئر پورٹس، بس اور ریلوے سٹیشنز اور موٹرویز کے انٹری اور ایگزٹ پر بھی ڈسپلے ہوتے ہیں۔ اس طرح مغوی بچے کی بازیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اغیار کے سکولوں میں بچوں کو اپنی حفاظت کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اساتذہ انہیں ''گڈ ٹچ‘‘ اور ''بیڈ ٹچ‘‘ کے بارے میں بتاتے ہیں اور والدین کو بھی بچوں کی تربیت بارے سکھایا جاتا ہے کہ وہ بچوں کا باقاعدگی سے معائنہ کریں اور ان کے رویے یا جسم میں تبدیلی دیکھیں اور فوراً پولیس کو اطلاع کریں۔ ایسے کیسز میں پولیس کسی نفسیات دان کو سکول بھجواتی ہے اور اس کی رپورٹ پر کارروائی شروع کرتی ہے۔ وہاں ایسے کسی ناخوشگوار واقعہ کے دوران بچوں کو شور مچانے کی تربیت دی جاتی ہے۔
اس کے مقابلے میں ہم کسی سائنسی پلاننگ کے قائل نہیں اور بچوں کو ان کی حفاظت کی خاطر تربیت سے تو ہمیں روایتی شرم و حیا سختی سے روک دیتی ہے، چاہے انہیں درندے بھنبھوڑتے رہیں۔ ہم ایسے کسی واقعے پر بچوں کو تخریبی شور شرابے کی بجائے تعمیری خاموشی سکھاتے ہیں۔ ہمارے ادارے اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب کسی سانحہ پر احتجاج زور پکڑ جائے۔ جیسے قصور میں بچیاں اغوا اور قتل ہوتی رہیں اور پولیس جعلی مقابلوں میں بے گناہوں کو مار کر خانہ پری کرتی رہے، حتیٰ کہ زینب کا دلخراش سانحہ ہو گیا اور آرمی چیف اور چیف جسٹس کے نوٹس لینے پر ڈی این اے کا جدید طریقہ اپنا کر ملزم تک پہنچا گیا؛ تاہم ڈی این اے جیسی خرافات پر ہنوز دنیا ہمارے تحفظات دور کرنے پر ناکام رہی ہے۔ ابھی بہت سی زینبوں اور اسمائوں کے خونِ ناحق ہمارے گریبان پکڑے کھڑے ہیں مگر ہم اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر اغیار کے تجربات سے استفادہ کرنے پر تیار نہیں۔
ہمارا مؤقف مضبوط ہے کہ جنہیں ہم صبح شام 'صفر x صفر= صفر‘ کرتے ہیں، ان کے طریقے کیوں اپنائیں؟ یہ صفر سے ضرب دینے والی جبلت ہمارے علاوہ تاریخ میں بھی پائی جاتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ہم 'اخلاق باختہ‘ لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں اور تاریخ‘ علم اور معقولیت کی دشمن قوموں کو بے دریغ صفر سے ضرب دیتی چلی آئی ہے۔