ایک لاعلم کی ڈائری …(1)

خدا غریق رحمت کرے، پردادی جان نے 1940ء میں اس کار خیرکا سنگ بنیاد رکھا، ورنہ ہمارے خاندان میںتعلیم کا کوئی رواج نہیں تھا؛ تاہم مرحومہ کے اس عمل کو ان کی علم دوستی سے تعبیرکرنا تاریخ کے ساتھ سخت ناانصافی ہو گا۔ یہ قدم قرارداد پاکستان کی خوشی میں بھی نہیں اٹھایا گیا۔ مستحکم خاندانی روایات میں اس تبدیلی کی وجوہ کچھ اور ہیں۔
اس سے قبل ہمارے آبائو اجداد نسل در نسل چٹے ان پڑھ چلے آ رہے تھے۔ اگر لاعلمی سے ان کی محبت کی تاریخ درازکی گئی تو بات بہت دور نکل جائے گی اور عین ممکن ہے کہ وہ سنسرکی زد میں آ جائے۔ سو، ہم شارٹ کٹ مارتے ہوئے عرض کرتے ہیںکہ اپنی تمام تر جہالت اور بھوک و افلاس کے باوجود ہمارے آباء کو مغلیہ خاندان سے اپنی نسبت پر بہت فخر تھا کہ وہ مغل قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے بابا یکڑی بہشتی نے تو باقاعدہ اپنا شجرہ نسب بھی تیارکرا رکھا تھا، جسے سنا کر ثابت فرماتے تھے کہ اگر برصغیرمیں مغلیہ سلطنت کو زوال نہ آتا تو آج وہ خود بنفس نفیس ہندوستان کے تخت پر براجمان ہوتے۔ خصوصاً جب مرحوم کو کھانے کو کچھ میسر نہ آتا تو وہ دِلی، آگرہ اور لاہورکے اپنے آبائی قلعوں، محلات، حرم سرائوں، درباریوں، کنیزوں اور غلاموں کو یاد کرکے خوب گریہ کرتے تھے۔ غربت اپنی جگہ مگر مرتے دم تک ان کے مزاج سے شاہانہ خُو نہ گئی۔ ان کے آباء رعایا کو بھیڑ بکریاں تصور کر کے ان پر حکومت کرتے تھے جبکہ بابا یکڑی ہنوز بوئے سلطانی دارد کے مصداق اپنے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو رعایا سمجھ کر بادشاہ کی طرح ان پر حکم چلاتے تھے۔
بابا یکڑی نے اپنے خاندانِ مغلیہ کے اقتدار پر شب خون مارنے کے جرم کی بنا پر تاحیات انگریز کو معاف نہیں کیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملکۂ برطانیہ نے کبھی وائسرائے ہند کو معافی مانگنے کے لئے ان کے دولت خانے پر نہیں بھیجا۔ وہ ہمیشہ گائوں سے باہر اپنی کچی ڈھوک پر حقے کے کش لگاتے‘ انگریز سرکار کو صلواتیں سناتے رہے اور دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتے رہے۔ حصول اقتدار کے لئے دو روایتی سیاسی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا شاخسانہ ہے کہ بابا یکڑی نے تاج برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں مجوزہ ریلوے، نہری، عدالتی، انتظامی اور تعلیمی نظام کو کبھی صدق دل سے قبول نہیں فرمایا اور اپنے نظریات پر کمپرومائز کئے بغیر دنیا سے تشریف لے گئے۔ خصوصاً سرکاری سکولوں میں درس و تدریس کو تو آپ نے کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف انگریزوں اور ہندوئوںکی مشترکہ گھنائونی شازش قرار دیا تھا، جس کا مقصد مسلمان بچوں کو ہندو بنانا تھا۔ ان کے اس منطقی خیال کو علاقہ بھر میں خوب پزیرائی ملی اور یہاں کا اکلوتا پرائمری سکول فقط ہندو بچوں کے لئے وقف ہو کر رہ گیا۔
بابا یکڑی کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی سالہا سال تک ان کی تعلیمات پر عمل ہوتا رہا اور خاندان کے کسی بچے کو سکول کا منہ تک دیکھنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ویسے بھی اس غریب اور بارانی علاقے کے زمیندار اور دستکار گھرانے ایسی عیاشیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے کہ فکر معاش ہی ان کے لئے کافی تھی۔ پھر 1940ء میں حالات نے پلٹا کھایا اور ناگزیر وجوہ کی بنا پر پردادی جان کو مجبوراً بابا یکڑی کے نظریات اور خاندانی روایات کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا پڑا۔ تب صورتحال یوں تھی کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر مغلیہ خاندان کے چشم و چراغ ہمارے ایسے لوئر زمینداروں کے بچے، جوان اور بوڑھے صبح سے شام تک کھیتوں اورکھلیانوں میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے تھے۔ اس دوران اپنے ڈھور ڈنگروں کی سیوا بھی ان کی گوناگوں مصروفیات میں شامل ہوتی۔ خواتین کا علی الصبح چکی کی مشقت سے شروع ہونے والا دن رات گئے چرخے، پینجے اور ویلنے کے ساتھ شغل کرتے تمام ہوتا، تب جا کر کہیں دو وقت کی روکھی سوکھی میسر آتی تھی۔ بارشیں نہ ہونے کی صورت میں وہ اس روکھی سوکھی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ایسے میں تختِ دلی کے وارثان اپنے مویشی پکڑے چکوال سے پیدل کوٹ مومن کے نہری علاقے میں اپنے دوستوں کی طرف چل پڑتے تاکہ اپنے جانوروں کو بھوک سے مرنے سے بچا سکیں۔ غربت کے اس دور میں کوٹ مومن کے چکوں میں پروان چڑھنے والی پریتیں آج بھی نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ اگر مغلیہ سلطنت کے یہ وارث علم دوست ہوتے، تب بھی وہ اپنے بچوں کو پڑھانا افورڈ نہ کر سکتے۔ موسموں کی سختیوں اور بدون زندگی کی سہولتوں کے پروان چڑھنے والے بچے سکول جانے کی عمر تک پختہ کار ہو جاتے اور زمینداری کے کاموں میں اپنے بڑوں کا ہاتھ بٹانے لگتے تھے۔ بہت جلد وہ اپنے کھردرے ہاتھوں سے ہل چلانے، اپنی ہل، پنجالیاں اور دیگر مینول آلاتِ کھیتی باڑی اٹھا کرکھیتوں میں پہنچانے، فصل، چارہ اور ایندھن کے لئے لکڑیاںکاٹنے، چراگاہوں میں بھیڑ بکریاں چرانے اور بھینسوں، گائیوں اور بیلوں کو ٹوکے سے باریک چارہ کاٹ کر کھلانے میں طاق ہو جاتے تھے۔ یوں گھرکے سب لوگ مشقت کرتے تو زندگی کی گاڑی چلتی تھی۔ ایسے میں دلی کے تخت کے ممکنہ وارث اپنے بچوں کو پڑھانے میں کیونکر وقت ضائع کرتے؟ وہ تو تب بھی واویلا کرتے تھے، جب کبھی انگریز سرکار کے اہلکار فوج میں زبردستی بھرتی کے لئے اس علاقے میں آ جاتے۔ وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے اور عرض گزار ہوتے کہ صاحب بہادر! ہمارے گھبرو فوج میں چلے گئے تو یہ زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریز سرکار نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اس علاقے سے تھوک کے حساب سے بھرتیاں کیں اور انہیں دنیا بھی دکھائی مگر ایک دھوتی اور کرتے میں زندگی گزار دینے والے مغل اپنے اس ذہنی اور جسمانی کنویں سے باہر نہ نکل سکے کہ کھیتی باڑی اور ڈھور ڈنگر پالنے کا نام ہی زندگی ہے اور سرگودھا اور کوٹ مومن کے نہری چک دنیا کے امیر ترین علاقے ہیں، جہاں کبھی قحط نہیں پڑتا۔
لاعلمی کی محبت میں گرفتار مغل خاندان کے قلم کار کی بات بار بار موضوع سے ہٹ رہی ہے ۔ ذکر ایک ''علم بغاوت‘‘ کا تھا... ہوا یوں کہ بدقسمتی سے پردادی محترمہ کے دو پوتے ناخلف نکلے۔ ایک ہمارے والد بزگوار اور دوسرے ان کے چچازاد بھائی۔ کام کی عمر کو پہنچتے ہی دونوں بچوں کا روایتی مغلیہ چال چلن کھل کر سامنے آ گیا۔ بچے جوں جوں بڑے ہوتے گئے، ان کی کام چوری، کھیل کود اور آوارہ گردی کی عادات پختہ ہوتی گئیں۔ دونوں بچوںکو اپنی نسلی گھریلو ذمہ داریوں یعنی کھیتی باڑی وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ خاندان کے اپنے دوسرے ہم عصروں کے برعکس انہوں نے نہ صرف زمینداری کے امور کی ٹریننگ لینے سے واضح پہلوتہی کی بلکہ وہ اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال، باجرے کی راکھی، فصلوں کی کٹائی اور گندم کی گہائی جیسے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھی سنگین غفلت کے مرتکب پائے جاتے تھے۔ پردادی جان نے اپنے پوتوں کو پیار سے بہت سمجھایا اور سختی بھی کی مگر کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا۔ پردادا فوت ہو چکے تھے اور پردادی گھر کی سربراہ تھیں۔ اگرچہ ایک دبنگ اور قوت فیصلہ کی صلاحیت سے مالا مال خاتون تھیں مگر اپنے دونوں پوتوں سے عاجز آ چکی تھیں۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کی ہر دو بچوں کی شرارتوں خصوصاً ہندوئوں کے گھروں میں کی جانے والی کارستانیوں کی شکایات آنے لگیں۔
ان پریشان کن حالات میں پردادی محترمہ کے پاس غیر معمولی اور غیر مقبول قدم اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ پس آپ نے اپنے ہر دو ناہنجار پوتوں کو نتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا اور انہیں لے کر گورنمنٹ ورنیکولر سکول بلکسر جا پہنچیں، جہاں سارے ٹیچر ہندو تھے۔ آپ نے اپنے بچوں کو سکول میں داخل کراتے وقت ہیڈ ماسٹر صاحب پر دو باتیں واشگاف الفاظ میں واضح کر دیں۔ پہلی یہ کہ وہ اپنے پوتوں کو محض مصروف رکھنے کی خاطر داخل کرا رہی ہیں تاکہ گائوں ان کے شر سے محفوظ رہ سکے، ورنہ وہ تعلیم جیسی فضولیات سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ دوسری بات ایک سخت تنبیہ تھی کہ اگر ان کے بچوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی گئی تو سکول ماسٹروں کی جانوں کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اساتذہ کو اپنی دوسری بات ذہن نشین کرانے کی خاطر وہ بعد میں بھی متعدد مرتبہ سکول تشریف لے گئیں اور اپنا عزم دہراتی رہیں تاکہ تنگ نظر ہندوئوں کی جانب سے بچوں کے ایمان کے ساتھ کوئی شرارت نہ ہونے پائے۔ کہتے ہیں کہ پردادی کے اس فیصلے سے گائوں میں ارتعاش سا پیدا ہو گیا اور ان پر اپنوں، پرائیوں کی جانب سے خوب تنقید ہوئی۔ (جاری)
بجا طور پر سوال اٹھایا گیا کہ ہم مسلم زمینداروں کا درس و تدریس جیسے چونچلوں سے کیا لینا دینا کہ یہ تو فقط ہندوئوں ہی کو زیبا ہیں۔ پردادی کو متنبہ کیا گیاکہ یہ حرکت ہماری شاندار روایات سے واضح روگردانی ہے، جس کا جواب انہیں آخرت میں دینا پڑے گا۔ گائوں کے مولوی صاحب نے تو انہیں یہ بھی سمجھایا کہ سکول میں داخل ہوتے ہی بچہ آٹو میٹکلی ہندو ہو جاتا ہے۔ تاہم وہ پرعزم خاتون اپنے اور اہل دیہہ کے تمام تر تحفظات کے باوجود ثابت قدم رہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ بزرگوں کے ایسے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے اور اس سکول میں ہندو اساتذہ کے زیرسایہ اور سکھ اور ہندو طلباء کے شانہ بشانہ علم حاصل کرنے والے مٹھی بھر مسلمان، جن میںکرنل محمد خان (بجنگ آمد) اور ہمارے والد شاہ نواز خان بھی شامل ہیں، ایمان کی حالت میں دنیا سے گئے، جبکہ چند ایک جو زندہ ہیں ان کا ایمان بھی سلامت ہے۔
1940ء میں ہمارے خاندان مغلیہ میں حادثاتی طور پر شروع ہونے والا تعلیم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تختی، قاعدہ کا سفر بھاری بھرکم سکول بیگز تک پہنچ گیا ہے۔ الف انار، ب بکری کا سبق ضخیم سائنسی کتابوں اور کمپیوٹر تک آ گیا ہے۔ گورنمنٹ ورنیکولر سکول سے تعلیم کا آغازکرنے والوں کی تیسری نسل اعلیٰ نسبی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے۔ ماہانہ فیس موری والے سکے سے شروع ہو کر ایک آنہ سے ہوتی ہوئی لاکھوں روپے تک پہنچ گئی ہے... البتہ جہاں تک علم کا تعلق ہے تو ہنوز روز اول است... لاعلمی سے محبت ''مغلوں‘‘ کی مستحکم روایات میں شامل ہے۔ (جاری)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں