اہلِ دیہہ کی جانب سے پردادی محترمہ کو متنبہ کیا گیا کہ اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرانے جیسا فعل ہماری شاندار روایات سے واضح روگردانی ہے، جس کا جواب انہیں آخرت میں دینا پڑے گا۔ گائوں کے مولوی صاحب نے تو انہیں یہ بھی سمجھایا کہ سکول میں داخل ہوتے ہی بچہ خود کار طریقے سے ہندو بن جاتا ہے؛ تاہم وہ پرعزم خاتون اپنے اور اہل دیہہ کے تمام تر تحفظات کے باوجود ثابت قدم رہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ بزرگوں کے ایسے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے اور اس سکول میں ہندو اساتذہ کے زیر سایہ اور سکھ اور ہندو طلبا کے شانہ بشانہ علم حاصل کرنے والے مٹھی بھر مسلمان، جن میں کرنل محمد خان (بجنگ آمد) اور ہمارے والد شاہ نواز خان بھی شامل ہیں، ایمان کی حالت میں دنیا سے گئے، جبکہ جو چند ایک زندہ ہیں ان کا ایمان بھی سلامت ہے۔
1940ء میں ہمارے خاندانِ مغلیہ میں حادثاتی طور پر شروع ہونے والا تعلیم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ تختی، قاعدہ کا سفر بھاری بھرکم سکول بیگز تک پہنچ گیا ہے۔ الف انار، ب بکری کا سبق ضخیم سائنسی کتابوں اور کمپیوٹر تک آ گیا ہے۔ ملیشیا کا اکلوتا سوٹ چار چار قیمتی یونیفارمز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ گورنمنٹ ورنیکولر سکول بلکسرکی کچی مٹی پر بیٹھ کر تعلیم کا آغاز کرنے والوں کی تیسری نسل اعلیٰ نسبی اداروں میں زیر تعلیم ہے۔ ماہانہ فیس موری والے سکے سے شروع ہو کر ایک آنہ سے ہوتی ہوئی لاکھوں روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کئی کئی میل پیدل چل کر سکول جانے والوں کے بچوں کے در پر صبح قیمتی موٹریں کھڑی ہوتی ہیں۔ البتہ جہاں تک علم کا تعلق ہے تو ہنوز روزِ اول است... پلوں کے نیچے سے کھربوں کیوسک پانی بہہ گیا مگر ''مغلوں‘‘ کی لاعلمی سے محبت نہ گئی۔
بطور ثبوت ہم اپنا ذاتی تجربہ عرض کرتے ہیں۔ اپنی عمر عزیز کا نصف حصہ ہم نے سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خاک چھاننے میں صرف کیا ہے۔ علم و شعور کی جستجو کے اس گرد گرد سفر میں ہمیشہ بوسیدہ نظام تعلیم اور لاعلمی سے ہماری خاندانی محبت مذکور منزل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ایستادہ رہی۔ پہلے بھی کبھی عرض کیا تھا کہ بحیثیت طفلِ مکتب ہم نے گائوں کے جس سرکاری پرائمری سکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، اس کی زمین کثیرالمقاصد تھی‘ جو درس و تدریس کے علاوہ بھیڑ بکریوں کے باڑے کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ رات کو خدا کی ایک مخلوق جن کمروں میں آرام کرتی، دن کو تقریباً ویسی ہی ایک مخلوق وہاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتی۔ ایک شب اس سکول میں بھانڈوں کا تماشا بھی ہوا۔ ایک بھانڈ نے دوسرے سے پوچھا کہ تمہاری تعلیم کتنی ہے؟ اس نے جواب دیا ''نو بوریاں، تیرہ توڑے ‘‘... ہم بھانڈ کے پاس علم کی فراوانی سے بہت متاثر ہوئے۔
تب جب کلاس میں ہمارے پلے کچھ نہ پڑتا تھا تو ہم طفلان گلی و کوچہ کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے اور کلاس میں ''ایک دونی، دونی۔ دو دونی چار‘‘ کو باآواز بلند رٹا لگاتے۔ سوچتے کہ پانچویں جماعت کے بچوں کے پاس کافی توڑے علم اکٹھا ہو چکا ہو گا۔ پھر ہم پانچویں جماعت میں بھی پہنچ گئے مگر معلوم ہوا کہ اس سٹیج پر بھی مغلوں کے بچوںکے دامن میں توڑے تو کجا پائو بھر علم بھی نہیں ہوتا۔ یہاں آ کر ہمارا نقطہ نظر تبدیل ہوا اور ہم نے آٹھویں کلاس کے بچوں کو فَرفَر ''مائی بیسٹ فرینڈ‘‘ کا مضمون سناتے دیکھ کر خیال کیا کہ اصل علم تو ان کے پاس ہے۔ آٹھویں میں بھی ہم کورے ہی رہے تو سمجھ آئی کہ حقیقت میں میٹرک کے طلبا علم کی ندیاں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میٹرک پاس ڈائریکٹ ڈھول سپاہی بھی بھرتی ہو سکتا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ میٹرک کی سند اور شرمندگی اکٹھی ہماری ہاتھ لگیں کیونکہ ابھی تک ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ گیان و ہنر کے دریا تو کالج میں بہتے ہیں اور ایف اے پاس اصل علامہ ہوتا ہے۔ رٹا شٹا لگا کر یہ امتحان بھی پاس کر لیا مگر علم کی صورتحال جوں کی تُوں رہی۔
پھر کسی نے بتایا کہ مایوسی کی ضرورت نہیں، گریجویٹ صحیح معنوں میں علم کا سمندر ہوتا ہے۔ ہم نے پھر کمر کس لی اور جیسے تیسے ٹیسٹ پیپرز اور دیگر ہتھکنڈوں سے اس ڈگری پر بھی ہاتھ صاف کر لیا۔ اب جب ہم گورنر پنجاب کے دستخطوں سے مزین ایک مربع گز کی بی اے کی ڈگری کو دیکھتے اور پھر اس کی رُو سے اپنے علم کا جائزہ لیتے تو سخت مایوسی ہوتی۔ علم پر دسترس کے شوق میں ماسٹرز ڈگری کی کوہ پیمائی کے دوران ہمیں یقین تھا کہ اب تو ہم خود بھی یہاں سے علم و دانش کے کوہِ گراں بن کر ہی اتریں گے۔ مگر صد افسوس! ایم ا ے کی ڈگری کے حصول کے بعد اس بوری سے بھی ریت ہی نکلی۔ پھر جب ہم نے خاندانی دیوانی مقدمات لڑنے کا چارج سنبھالا اور کچہری میں وکلا کی دھواں دھار قانونی بحثیں سنیں، تب ہوش آیا کہ تعلیم کی انتہا تو وکالت ہے کہ یہاں کی ذکاوتِ فکری کے آگے سقراط بھی پانی بھرتا ہے۔ بس صاحبو! ہم نے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اندر سے ہم کل بھی طفلِ مکتب تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ آخری کوشش کے طور پر ہم نے کالم نگاری کرکے بھی دیکھ لیا کیونکہ کالم نگاروں کو لوگ دانشور کہا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
آج جب تعلیم کی بوریاں اور توڑے باندھ کر ہمارے کلاس فیلوز میں سے کوئی چاک گریباں اپنے گریباں کی بجائے معاشرے کی فکری رَفوگری پر مامور ہے اور کوئی انجمن سوداگران بہشت سے وابستہ ہو کر اپنی گرانقدر خدمات انجام دے رہا ہے تو ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ حصول علم کے اس سنہرے دور میں گھر میں ہمیں ''ایک تھا بادشاہ...‘‘ اور سکول میں پیاسا کوا، لالچی کتا، چالاک لومڑی اور بے وقوف گدھا جیسی سبق آموز کہانیاں تو بہت رٹائی گئیں مگر جمہوریت اور انسانوں کے متعلق ہم نے ذرا کم ہی پڑھا ہے۔ مسخ شدہ تاریخ‘ جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں تھا‘ ہم نے گھوٹ گھوٹ کر پی مگر تاریخ سے سبق حاصل کرنے کا کوئی قرینہ نہ بتایا گیا۔ ہم نے نستعلیق اخلاقیات تو بہت سیکھیں مگر علم سے کوسوں دور رہے۔ البتہ اس ''تعلیمی تجربے‘‘ کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ہم معقولیت اور حقائق سے عاری بے سروپا کہانیاں، لغویات سے بھرپور محبوبہ کو خطوط اور سرکاری صاحب بہادران کے نام بھیک مانگنے کے انداز میں نوکری کے لیے درخواستیں لکھنے کے گر سے خوب آشنا ہو گئے۔ واللہ! ایسے شہ پاروں میں خود سپردگی اور خُوئے غلامی کی کیسی کیسی شاندار مشرقی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں... ایک تھا عادل بادشاہ... رعایا خوشحال تھی... شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے (سب جھوٹ) تم میری پہلی اور آخری محبت ہو... تمہارے بغیر میں زندہ نہیں رہوں گا... سورج تمہیں دیکھنے کے لیے طلوع ہوتا ہے... مہتاب تیری زلفوں کے سائے میں نکلتا ہے (سفید جھوٹ) بحضور جناب... بخدمت جناب... بصد ادب التماس ہے... خدا آپ کا اقبال بلند کرے... اپنے زیر سایہ ملازمت بخش کر مشکور فرمائیں (جیسے اُس نے اپنے باپ کے فارم ہائوس پر ملازم رکھنا ہے)
حصول علم کے اس سفر کے دوران رٹا جاتی نظام تعلیم تبدیل ہوا، نہ لاعلمی سے ہمارا روایتی عشق ماند پڑا۔ ایسے آئیڈیل ماحول میں شاہی گھرانے کے چشم و چراغ کے دماغ میں جتنی گنجائش تھی، اتنی بوریاں علم سما گیا۔ ایک بات ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں ہیں کہ اس تعلیم نے ہمیں مطالعہ کا خاصا شغف بخشا ہے۔ جب ہم کسی سے کہتے ہیں کہ میں تمہیں کھلی کتاب کی مانند پڑھ رہا ہوں تو وہ جواب دیتی ہے کہ ضرور پڑھو مگر اندھوں کی طرح ٹٹول کر نہیں۔ (جاری)