روزنامہ دنیا کے صفحات گواہ ہیں کہ گزشتہ دوکالموں میں مغلیہ خاندان کے اس چشم و چراغ نے کسی علمی میراث پر اپناکوئی حق نہیں جتایا۔ ہم نے منبع علم و ہنر کسی مورث کے ترکہ میں اپنے ورثہ دار ہونے کا دعویٰ کیا ہے نہ شعور و آگہی ایسی کسی جاگیر میں اپنے وراثت پذیر ہونے کا جھوٹ بولا ہے۔ ہم پر تو وراثتِ خون کا نظریہ صادق آتا ہے کہ خاندانی خصوصیات اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم اپنی نسل در نسل منتقل ہونے والی لاعلمی سے محبت میں آسودہ ہیں۔ ہم سے ہماری یہ جدی جائیداد کوئی نہیں چھین سکتا۔ البتہ ہم اپنے ترکہ منقولہ کے چھن جانے پر دل گرفتہ ہیں، جس سے ہمیں بے پناہ عشق ہے۔ فیضؔ نے کہا ہے:
اِس عشق، نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
بخدا، ہر دو محبت ہائے پر ہمارے دل میں ندامت کا کوئی داغ نہیں مگر ہمیں اپنا دوسرا عشق، یعنی تاج و تخت چھن جانے کا بہت غم ہے۔ اپنا لشکر و سپاہ، تزک و احتشام، جاہ و تکبر اور تفاخر و طمطراق چلے جانے کا دکھ ہے۔ ہم جائز وارثان باز گشت مغلیہ سلطنت اپنے پر شکوہ شاہی محلات، ہیبت ناک قلعہ جات اور خیرہ کن باغات کے ہجر میں نوحہ کناں ہیں۔ ہم اپنے تعمیل حکم کے واسطے ہمہ وقت گوش بر ارشاد خاندانی حرم سرائوں، اطاعت گزار درباریوں، حسین کنیزوں اور دست بستہ غلاموں کی فرقت میں تڑپتے ہیں۔ ہمیں اپنے محیر العقول درباروں، بارہ دریوں، نشاط و سرور کی محفلوں اور شکار گاہوں کا تصور رنجیدہ کیے رکھتا ہے۔ یاللعجب! ہمارے اجداد کی ہیبت سے ہندوستان کے پہاڑ بھی لرزتے تھے مگر آج دو ٹکے کا بس کنڈیکٹر ہمیں گستاخ لہجے میں کہتا ہے ''پچھلے سرے تے چلاجا بائو‘‘
ہمارے آبا سونے میں تلواتے تھے، چاندی میں تلواتے تھے، موتیوں سے منہ بھر دیتے تھے اور خلعتیں اور جاگیریں بارش کی مانند برساتے تھے۔ وہ دریا دل وقار الامرا، مہتاب الدولہ، تعیش الدولہ، ملک الدولہ اور ریحان الدولہ جیسے القابات وزیروں اور درباریوں کے لئے ارزاں کرتے تھے۔ آج ہم اپنی خاندانی سونے چاندی کی طشتریوں، جواہرات جڑے پیمانوں، شاہی مشروبات کی بیش قیمت صراحیوں، گراں بہا فانوسوں، لگژری خواب گاہوں، محافظوں، باورچیوں، باغبانوں، چراغ جلانے والوں، آب برداروں، کشتیاں کھینچنے والوں، دربانوں، جلادوں، قصیدہ خوانوں، درباری مؤرخوں، قصیدہ خواں شاعروں، لونڈیوں، رقاصائوں، طوائفوں، مغنیوں، سازندوں، مسخروں، بھانڈوں اور نقالوں کو یاد کرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یاحیرت! باادب، باملاحظہ، ہوشیار کے فلک شگاف نعروں سے جن کے محلات کے در و دیوارکانپتے تھے، ان ظل سبحانیوں اور عالم پناہوں کے تخت وتاج پر کن ادنیٰ لوگوں کا قبضہ ہے؟ کاغذات مال میں قوم مغل کسر تو ہمارے نام کی زینت ہے، پھر یہ غیر متعلقہ، ہمارے محکوم مرد اور عورتیں ایوانوں میں کیا کر رہے ہیں؟ تلوار کی مسلمہ طاقت کی بجائے بیلٹ باکس کی کمزور بنیاد پر تخت نشیں جاہ و منصب کے تقاضے کیا جانیں؟ توپ و تفنگ کی جگہ کاغذ کی بے جان پرچی پر اترانے والے مجنوں، خود جن کا اقتدار ایک ٹھوکر کی مار ہے، وہ مغلیہ سلطنت کی حفاظت کیا کریں گے؟
اہل ہند جواب دیں۔ کیا تمہاری سرزمین ہمارے پرکھوں کی مفتوحہ کنیز نہیںتھی؟ کیا ہمارے اسلاف نے تم اَن گھڑوں کو تہذیب سکھانے کیلئے اپنا وطن نہیں چھوڑا؟ کیا ہمارے آبا نے تمہیں آداب غلامی نہیں سکھائے؟ کیا تم نے اپنے ان محسنوں کی اطاعت نہیں کی؟ کیا تم لوگوں نے صدیوں بیرونی حملہ آوروں کی جوتیاں سیدھی نہیں کیں؟ ہمارا جد امجد ظہیر الدین بابر سولہویں صدی عیسوی میں اپنی فوج کے ہمراہ یہاں آیا اور تمہاری سرزمین فتح کر کے اپنا تسلط قائم کرنے کی بنیاد رکھی۔ خوئے غلامی یونہی تو تمہاری سرشت میں شامل نہیں ہوئی۔ کہنا آسان ہے، مگر سترہ حملے کیے تھے محمود غزنوی نے، دسویں اور گیارہوں صدی عیسوی میں سترہ حملے... تب وہ خون کے دریا بہا کر یہاں اپنی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ غلاماں، خلجی، تغلق، سیدی، لودھی، مغل... کس کس نے تمہیں نستعلیق اخلاقیات نہیں سکھائیں اور کس کس نے تمہیں کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری نہیں کھلایا؟ یہاں کے آخری تاجدار ہم مغل تھے۔ ہم ہندوستان اور تاریخ کے حافظے سے کبھی محو نہ ہوں گے کہ اس قوم کی تعمیر میں ہمارے پرکھوں کی صدیوں کی ریاضت شامل ہے:
جان کر من جملہ خاصان مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
افسوس، اہل ہند جیسی غفلت شعار قوم پر افسوس! سلطنت مغلیہ کے خلاف سازشیں ہوئیں مگر تم نے اف تک نہ کی۔ تمہارے فرمانروائوں نے تمہاری وفاداری اور جانثاری پر بھروسہ کیا مگر تم نے ان کے احسانوں کا خیال کئے بغیر چپ چاپ ان کی بے توقیری کا تماشا کیا۔ انگریز نے ہندوستان میں ہماری خاندانی محنت سے قائم کردہ شاندار روایات اور اقدار میں نقب لگانے کیلئے گھنائونا کھیل کھیلا۔ تخت نشیں ہمارے آبا امورِ سلطنت کی اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے مضمرات پر غور نہ کر سکے اور یہ اقدام ہندوستان کی تقسیم اور تباہی کی بنیاد بن گیا۔ خوئے غلامی کی عادی قوم بھی اس زہریلے بیرونی حملہ آور کے خلاف قیام کرنے کی ہمت نہ کر سکی اور چپ چاپ فرنگی کو بھی اپنا آقا مان لیا۔
مؤرخ کہتا ہے کہ 15ویں اور 16ویں صدی میں یورپ کو تاریک دورسے نکال کر شعور و آگہی کے رستے پرگامزن کرنے والی علم کی نشاۃ ثانیہ کی روشنی ہندوستان کے ساحلوں تک نہ پہنچ سکی کہ مغلوں کو دوسری دنیائوں میں جھانکنے کی عادت نہ تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ مغلوں کی دوسری دنیائوں میں جھانکنے بلکہ انہیں فتح کرنے کی عادت نہ ہوتی تو وہ برصغیر پر حملہ آورکیوں ہوتے؟ یورپ کی طرف نہ دیکھنے میں یہ حکمت عملی پوشیدہ تھی کہ احیائے علوم اور صنعتی انقلاب کی یہ تحریک ان کی لاعلمی سے فطری محبت کی ضد تھی۔ ان کی عقابی نگاہیں اس نام نہاد ترقی کی آڑ میں یورپی معاشروں میں پھیلتی بے راہروی اور فحاشی کو دیکھ رہی تھیں۔ اسی خدشے کی بنا پر ہمارے مغل حکمرانوں نے تویہاں پر نٹنگ پریس بھی نہیں لگنے دیا۔ پھر بدقسمتی سے جو انگریز نے یہاں بدنام زمانہ ترقی کا سفرشروع کیا تو دور اندیش اہل منبر کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود بات پرنٹنگ پریس سے اڑان بھر کر بجلی، ہوائی جہاز، موٹروں، فریج، اے سی، انگریزی ادویات، سرجری، ریڈیو، ٹی وی اور وی سی آر سے ہوتی ہوئی آج کی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی تک آ نکلی ہے، جس نے ہماری مایہ ناز اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔
ہم سات سمندر پار بھی اغیارکی سازشوں کی بو سونگھ لینے کی خداداد صلاحیت کی بنا پر سمجھتے ہیںکہ انگریزکی سب سے بڑی دو نمبری اصفیا کی اس سرزمین پر جمہوری نظام کی راہ ہموارکرنا تھی، جس کا خمیازہ آج ہم عظیم مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے اور اپنی تباہی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ آپ جو بھی کہیں مگر لاعلمی سے ہماری خاندانی بے کراں محبت آئین یا پارلیمنٹ کی بالادستی کو نہیں مانتی۔ ہمارا بادشاہ ان سے بلند ہے۔ ہمیں آج بھی ''ایک تھا بادشاہ‘‘ کی کہانیوں سے قلبی لگائو ہے مگر ''ایک تھی پارلیمان‘‘ جیسی لغو کہانیاں شروع ہوتے ہی ہمارا خون کھول اٹھتا ہے۔ ہمارے اجداد کا فوری اور سستا انصاف جمہوری بندوبست کے طویل اور مہنگے نظام انصاف کی طرح قانونی موشگافیوں میں ماہ وسال ضائع نہیں کرتا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اہل برصغیر نے بیرونی جمہوری نظام کو مجبوراً قبول کیا ہوا ہے، ورنہ اس خاکستر میں ابھی چنگاریاں موجود ہیں۔ اگر آج بھی کوئی جلیل القدر فاتح حکمران کمر سے تیغ آبدار لٹکائے، اپنا نیزہ لہراتا، اسپ تازی کو اپنی رانوں سے مہمیز دیتا طلوع ہو تو آداب غلامی سے آشنا یہ رعایا اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں دیرنہیں کرے گی کہ اس کا ماضی جنگجو اور فاتح بادشاہوں کی ذرہ پوش یادوں کا اسیر ہے۔ مجبوری اپنی جگہ، مگرہمارے دلوں میں قانون ساز اداروں اور منتخب حکمرانوں کی کوئی گنجائش نہیںکہ:
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
اگر یہاں کے باسی جمہوریت کے پیاز کھا کھا کر تنگ آچکے ہیں اور ان کے دل میں بادشاہت کے جوتے کھانے کی تڑپ ہے تو ہمت کریں اور کوڑھ زدہ اس فرنگی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں۔ ان کی قیادت کا بار گراں اٹھانے کو مغلوں کے وارث موجود ہیں۔ (ختم)