رسوماتِ جوتا…(2)

کھڑاواں سے شروع ہونے والا جوتوں کا سفر جدت کی طرف جاری ہے۔ جوتا پائوں کے لیے ایجاد ہوا تھا مگر جدت کے اس سفر میں وہ پائوں سے نکل کر ہاتھ میں آ گیا۔ زیادہ تر رسوماتِ جوتا اس کے ہاتھ میں آنے ہی سے شروع ہوئیں۔ گزشتہ کالم میں چند رسومات پر روشنی ڈالی گئی۔ آج مزید رسوم ملاحظہ فرمائیے۔
جوتے سنگھانا: مرگی کے دورے میں یہ رسم مفید تصور کی جاتی ہے۔ اکثر عامل حضرات مریضوں کو جن پڑ جانے پر جوتا سنگھاتے ہیں۔ اگر مریض کو افاقہ نہ ہو تو عامل یہ کہتے ہوئے اسی جوتے سے مریض کی مرمت شروع کر دیتے ہیں کہ جن بہت طاقتور ہے۔ حالانکہ جن یا بھوت کبھی بھی عاملوں سے طاقتور نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو جن وہی جوتا لے کر عامل صاحب کی خیر خیریت دریافت کرنا نہ شروع کر دے؟
جوتا اچھالنا: یہ ایک بین الاقوامی رسم ہے جو گزشتہ کالم میں بیان کی گئی ایک رسم ''جوتا پھینکنا‘‘ سے مماثلت رکھتی ہے اور ایک خاص قسم کی محبت کے اظہارکا مؤثر ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں مگر ہم فقط دو پر اکتفاکریں گے۔ یادش بخیر! 2008ء میں بغداد میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پریس کانفرنس کے دوران عراقی صحافی منتظر الزیدی نے ان کی طرف دو جوتے اچھالے۔ پہلا جوتا اچھالتے ہوئے کہا ''یہ تمہارے لیے عراقی عوام کی طرف سے الوداعی بوسہ ہے‘‘ دوسرے جوتے پر جانکاری دی ''یہ عراقی شہیدوں، بیوائوں اور یتیموں کی طرف سے ہے‘‘۔ 2011ء میں لندن میں پرویز مشرف کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ان کے ساتھ یہی حرکت سندھ ہائیکورٹ کے احاطے میں بھی ہوئی۔ اس رسم کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ قانونِ فطرت ہے کہ انسانوں کے جذبات کو جوتے کی نوک پر رکھنے والوں کا مقدرجوتے ہی ہوتے ہیں۔
جوتا دینا: یہ بڑی ذومعنی رسم ہے۔ اسے جوتا پیش کرنا بھی کہتے ہیں؛ تاہم جوتا دینے اور پیش کرنے میں باریک سا فرق ہے۔ اکبر الہ آبادی نے کہا ہے:
یار آیا ہے چل کے ننگے پائوں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا
اس رسم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کم و بیش ہر دل میں اسے ادا کرنے کی تڑپ موجود ہے۔ روز مرہ زندگی میں کبھی کسی کو رانگ سائیڈ سے موٹر سائیکل یا گاڑی کراس کرنے پر، کبھی کسی کو لائن توڑنے پر اور کبھی کسی سرکاری دفتر میں سائلان کی جوتیاں گھستے دیکھ کر۔ وطن عزیز میں چند دانشور، لیڈر، عہدے دار وغیرہ ایسے ہیں کہ جنہیں جوتیاں پیش کرنے کو دل کرتا ہے جبکہ کئیوں کو تو دیکھتے ہی جی میں آتا ہے کہ...
جوتوں کا ہار پہنانا: عوامی دلوں میں یہ رسم بھی ادا کرنے کی بڑی حسرت ہوتی ہے۔ گاہے لوگ جب کسی کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں تو ان کے دل میں خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ کاش یہ ہار جوتوں کا ہوتا۔ کئی رہنمائے کرام کی شیریں گفتاری دیکھ کر بھی جی کرتا ہے کہ ان کے گلے میںخوبصورت سا ہار پہنایا جائے جو پھولوں کا نہ ہو۔
جوتے پڑنا: یہ بھی ذومعنی رسم کہی جا سکتی ہے۔ محمود الحسن شیرانی انارکلی میں جوتوں کی ایک دکان پر گئے۔ انہیں کوئی جوتا پسند نہیں آ رہا تھا۔ دکاندار نے کہا ''حضور! اتنے جوتے پڑے ہیں، آپ کو کوئی پسند ہی نہیں آ رہا‘‘ انہوں نے ایک جوتا پائوں میں ڈال کر جواب دیا ''اس کی صحیح صحیح قیمت بتائو، ورنہ اتاروں جوتا‘‘ کئی ممالک میں لیڈر اقتدار میں آکر عوام کے خلاف یہ رسم اداکرتے ہیں اور جواب میں عوام انتخابات کے دوران لیڈروں کے خلاف یہ رسم دہراتے ہیں۔ جن جماعتوں کے منشور بنیادی حقوق کی سرکوبی جیسے مقاصد پر مشتمل ہیں‘ ووٹر الیکشن میں ان کے خلاف بھی یہی رسم ادا کرتے ہیں، جس پر ان جماعتوں کے اکابرین کہتے ہیں کہ عوام میں شعور ہی نہیں۔
جوتا اتارنا: اس رسم کے بارے میں اوپر شیرانی صاحب کی زبانی اشارتاً عرض کیا جا چکا ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے یہ بھی جوتا دینے جیسی رسم ہے۔ کبھی کوئی زور آور یہ رسم ادا کرتا ہے اور کبھی تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر عام آدمی۔ جیسے کبھی کبھار پبلک مقامات پر خواتین کو نہ چاہتے ہوئے بھی بھونڈ حضرات کی شان میں یہ رسم ادا کرنا پڑتی ہے۔
جوتا اٹھانا: بنیادی طور پر جوتا اتارنا اور جوتا اٹھانا ایک ہی رسم کے دو نام ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں جوتا پائوں سے اتارا جاتا ہے جبکہ ثانی الذکر میں نیچے پڑا ہوا اٹھایا جاتا ہے۔ باقی کا کام سیم سیم ہے۔ کبھی ان رسوم کا ایک سائیڈ ایفیکٹ بھی سامنے آتا ہے اور کسی زور آور کا جوتا خود کار طریقے سے واپس آ جاتا ہے، جیسے ہم پارسا زور آوروں کی طرف سے آنجہانی سٹیفن ہاکنگ کی طرف اٹھائے گئے جوتے...
جوتا بدلنا:یہ ایک مقبول عام رسم ہے، جسے ہر خاص و عام اپنی استطاعت کے مطابق ادا کرتا ہے۔ امیر آدمی نئے ڈیزائن آنے پر جوتا بدلتا ہے جبکہ غریب جوتا پھٹ جانے پر ایسا کرتا ہے۔ کئی حضرات اس رسم کو دوسری شادی کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔
جوتوں کی زبان بولنا: بعض لوگ فطرتاً جوتوں کی زبان بولتے ہیں اور کئی فطرتاً جوتوں یا لاتوں کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ اکثر رسماً بھی یہ کارِ خیر انجام دیا جاتا ہے۔ جب کوئی چور یا بھونڈ وغیرہ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے تو لوگ یہ رسم ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں کہ رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔
جوتے چلانا: یہ رسم اس وقت ادا کی جاتی ہے جب مذاکرات ناکام ہو جائیں۔ جرگوں سے لے کر اسمبلیوں تک، جب مسائل گفت و شنید سے حل نہ ہو سکیں تو جوتے چل جاتے ہیں۔ اپنے مؤقف کے حق میں دلائل کی عدم دستیابی پر بھی یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں جوتا ہی دلیل قرار پاتا ہے اور جوتا جتنا مضبوط ہو، دلیل اتنی ہی بھاری ہوتی ہے۔ مذکورہ رسم کی ادائیگی سے قبل گالم گلوچ لازمی ہے۔
جوتا کاری کرنا: کاری کرنا، ونی کرنا، کم عمری کی شادیاں، بوڑھوں کے ساتھ بچیوں کی شادیاں اور زبردستی کی شادیاں وغیرہ انسانیت کے خلاف جوتا کاری کہلاتی ہیں۔ قرضوں سے ملک چلانا اور بیرون ملک جائیدادیں بنانا وغیرہ بھی جوتا کاری کی رسم میں شامل ہیں۔ رسم کی یہ شاخ عوام کے خلاف ادا ہوتی ہے۔
جوتے مارنا: اس رسم نے ہمارے ہاں سات دہائیوں میں جو پذیرائی حاصل کی ہے، وہ کسی دوسری رسم کے حصے میں کم ہی آئی ہے۔ قائداعظم کی ایمبولینس سڑک پر ''خراب‘‘ ہونے سے لے کر بھٹو کی پھانسی تک، اسکندر مرزا کے مارشل لاء سے لے کر پرویز مشرف کے شب خون تک، جسدِ فاطمہ جناح کے زخموں سے رسنے والے خون سے لے کر راولپنڈی کی سڑکوں پر بہتے بینظیر بھٹو کے خون تک اور مادرِ ملت کو صدارتی الیکشن ہرانے سے لے کر بھانت بھانت کی سیاسی جماعتیں اور اتحاد بنوانے اور انہیں انتخابات میں کامیاب کرانے تک، لا تعداد جوتے ا س قوم کے مینڈیٹ کے سر پر توڑے جا چکے ہیں؛ تاہم ضیاء الحق دام برکاۃ نے جس لگن اور دلجمی کے ساتھ یہ رسم ادا فرمائی، اس معراج تک کوئی نہ پہنچ سکا... جوتے ہی جوتے۔ آمریت کے جوتے، جمہوریت کے نام پر جوتے، انصاف کے نام پر جوتے، ترقی کے نام پر جوتے، روزگار کے نام پر جوتے، تعلیم کے نام پر جوتے، آئینی بحرانوں کے جوتے، لوڈ شیڈنگ کے جوتے، مہنگائی کے جوتے، گندے پانی کے جوتے، جعلی ادویات کے جوتے، بم دھماکوں کے جوتے، ٹارگٹ کلنگ کے جو تے سرکاری دفتروں میں جوتے، پولیس ناکوں پر جوتے، ہسپتالوں میں جوتے... جوتے ہی جوتے... جوتے ہی جوتے۔
جوتے کا کاٹنا: یہ رسم خود وہ جوتے ادا کرتے ہیں جو تنگ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ تنگ جوتے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب اسے اتاراجاتا ہے تو سکون محسوس ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کی رفاقت کے خاتمے پر بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں