تعلیمِ بالغاں کا کلاس روم

ماسٹر صاحب: ہاں تو پیارے بالغو! آج میں تمہیں فنون لطیفہ کے بارے میںکچھ بتائوں گا۔
بگا پٹھان: چلو جی، یہ ماسٹر آج پِر لطیپے سنائے گا۔
ماسٹر صاحب: میں کوئی لطیفہ سنائوں گا یا نہیں مگر تم نِرے لطیفے ہو بگے (کلاس میں قہقہہ گونجتا ہے)
شیرو مستانہ: اس جاہل کو چھوڑیں ، آپ وہ لطیفہ سنائیں، فنون لطیفہ والا۔ 
ماسٹر صاحب: لو جی، ایک عالم بولا ہے۔ شکر ہے تم بھی میری کلاس میں تھے۔ 
شیرو مستانہ: حوصلہ افزائی کا شکریہ ماسٹر جی۔ 
ماسٹر صاحب: (غصے سے) ابے تُو پاگل خانے میں جا کر کیوں نہیں داخل ہو جاتا مخبوط الحواس؟ 
فیقا ٹیڈی: غصہ جانے دیں سر جی! میں انہیں آپ کی بات سمجھاتا ہوں (کلاس سے مخاطب ہو کر) بے وقوفو! فنونِ لطیفہ کا مطلب ہوتا ہے لطیفے گھڑنے اور سنانے کے فن۔ ماسٹر صاحب اس کے ماہر ہیں اور وہ ہمیں یہ فن سکھانے والے ہیں۔
ماسٹر صاحب: (نم آنکھوں کے ساتھ) شاباش سیانے بچے، شاباش۔ تم نے مجھ سمیت ان بے وقوفوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔
فیقا ٹیڈی: دیکھا، میری ذہانت دیکھ کر خوشی سے ماسٹر جی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سب آپ کا سکھایا ہوا علم ہے ماسٹر صاحب، ورنہ اس ناچیز کی کیا اوقات ہے۔ 
ماسٹر صاحب: (ڈنڈا اٹھاتے ہوئے) میں تیرا سر پھوڑ دوں گا نجس، آخر تُو بنا سوچے کیوں اپنا یہ ٹرک کے بانٹ جیسا منہ کھول دیتا ہے؟
فیقا ٹیڈی: سوچ کے تو ملک چلانے والے نہیں بولتے ہمیں کیا ضرورت ہے ؟۔
ماسٹر صاحب: (ڈنڈا لہراتے ہوئے) نکل جا میری کلاس سے فیقے، نکل جا۔
بگا پٹھان: اس کو نکالو ماسٹر صیب (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: (نرمی سے) دیکھو پیارے بالغو، یہ لچر پن چھوڑو اور سنجیدگی سے اپنے سبق پر دھیان دو۔ میری بات کیوں نہیں سمجھتے کہ تم ایک غیور قوم کے افراد ہو۔
نورا دیوانہ: ہم تو خیر غیور قوم ہیں ہی مگر یہ ڈنڈے کی قوم کیا ہوتی ہے ماسٹر جی؟
ماسٹر صاحب: (اٹھ کر نورے کو ایک ڈنڈا رسید کرتے ہوئے) اب جو بولے گا، اس کے سر پر اسی طرح ڈنڈا پڑے گا (سب سہم کر خاموشی سے سر جھکا لیتے ہیں)
ماسٹر صاحب: یہ ہوتی ہے ڈنڈے کی قوم، اب سمجھ آئی؟
گاما کوچوان: سمجھ آ گئی ہے ماسٹر صاحب، آپ کا اشارہ اس طرف ہے کہ پھر ڈنڈا لہرانے والا ہے (قہقہہ)
شیرو مستانہ: ماسٹر صاحب! یہ جو لوگ اپنی جماعتیں چھوڑ رہے ہیں، کیا یہ کوئی ڈنڈا شنڈا لہرایا ہے؟
ماسٹر صاحب: اپنی کالی زبان بند رکھ شیرو، یہاںصرف سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے، کبھی کوئی ڈنڈا لہرایا ہے اور نہ آئندہ لہرائے گا۔
خیرو بھاگوان: آپ نے بالکل صحیح فرمایا ماسٹر صاحب۔ یہاں کبھی کوئی ڈنڈا نہیں لہرایا، بس عوامی مینڈیٹ پر تھوڑی بہت جوتا گردی ہوتی رہی ہے (قہقہہ)
نورا دیوانہ: ماسٹر صاحب! میں اس بے وقوف کلاس سے بہت تنگ ہوں۔ میں اس کلاس سے استعفیٰ دے کر اپنا آزاد گروپ بنائوں گا۔
فیقا ٹیڈی: یہ بڑا ہو کر عادی لوٹا بنے گا (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: پھر وہی بکواس، ارے جاہلو یہ تعلیم بالغاں کی کلاس ہے، کوئی سیاسی جماعت نہیں۔
بگا پٹھان: ایک ہی بات اے ماسٹر صیب! میں تو کہتا ہوں ان سب کو بی اِدھر ہی داخل کرا دو۔ ہم سب مل کر رونق لگائے گا (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: جب تو بالغ ہی نہیں ہوا تو بالغوں کی کلاس میں کیوں آ جاتا ہے ؟
شیرو مستانہ: ہماری تو ساری کلاس ہی ابھی بالغ نہیں ہوئی ماسٹر جی، آپ بگے بیچارے کو کیوں کوستے ہیں (قہقہہ)
شیدا جہاز: تم اپنے ملک کی کوئی کلاس بتا دو، جو بالغ ہو گئی ہو (قہقہہ)
بگا پٹھان: (جذباتی ہو کر) ماسٹر صیب! آپ بی ہماری بے عزتی خراب کرتا اے اور یہ ساری کلاس بی ہم کو چیڑتا اے، یہ سب چور اے، ہم ان کے خلاپ درنا دے گا، ہم ان کو بے نقاب کرے گا، ان کو سڑکوں پر گسیٹے گا...
ماسٹر صاحب: ابے سانس لے بگے، سانس لے۔ تُو بھی اسی کلاس میں ہے۔ کم بخت جو اعلیٰ زبان سیاسی جلسوں میں سن کر آتے ہیں، وہی کلاس میں آ کر دہرانا شروع کر دیتے ہیں۔
بگا پٹھان: اب یہ فیقا ہم کو پیدل خان بولتا اے، اس کو نکالو ماسٹر صیب۔
جمالا شرمسار: ویسے فیقا کہتا تو ٹھیک ہی ہے (قہقہہ)
شیدا جہاز: لیکن ماسٹرصاحب، بگا پیدل تو نہیں، یہ تو اپنی موٹر سائیکل پر آتا ہے۔
ماسٹر صاحب: (بگے سے) دیکھ لے میرے بچے، تُو اکیلا پیدل نہیں ہے۔ تیری ساری جماعت ہی پیدل ہے، تیرے یہ سب کلاس فیلوز پیدل ہیں۔
فیقا ٹیڈی: نابالغوں کے دیس میں جماعتیں پیدل ہی ہوتی ہیں ماسٹر جی (قہقہہ) میرا اشارہ اپنی کلاس کی طرف ہے۔
ماسٹر صاحب: تیرے بے ہودہ اشارے میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں پھٹیچر، تو مجھے نوکری سے نکلوانے پر تلا ہے مگر یاد رکھ، اس سے پہلے میں تجھے کلاس سے نکال دوں گا۔ 
فیقا ٹیڈی: آپ ہمیشہ مجھے ہی کیوں نکالتے ہیں ماسٹر صاحب، بگے کو کیوں نہیں نکالتے؟ 
ماسٹر صاحب: جو بھی میری روزی پر لات مارنے کی کوشش کرے گا، میں سزا کے طور پر اسے نکال دوں گا۔ میں سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہوں۔
خیرو بھاگوان: وہ تو اس لیے ماسٹر جی کہ آپ کی آنکھ ہی ایک ہے اور ایک آنکھ والے سزا و جزا کے لیے سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں (قہقہہ) 
خانو خاکسار: چاہے وہ کوئی سیاست کا ستارہ ہو یا شو بز کا (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: اپنی چونچ بند رکھ گھامڑ، میں ایک آنکھ سے تمہارے اندر کی خباثت بھی دیکھ سکتا ہوں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ میری نظر میں تمام طلبا برابر ہیں۔ میں سب سے یکساں سلوک کرتا ہوں۔
گاما کوچوان: لطیفے بہت ہو گئے ماسٹر ، اب آپ ہمیں پڑھانا شروع کریں۔
خیرو بھاگوان: ابھی تو لطیفے شروع ہوئے ہیں گامے، بس تُو سنتا جا...
شیدا جہاز: اور شرماتا جا (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: ابے شرم تو تمہیں چھوکر نہیں گزری کم بختو، تم کیوں شرمائو گے بھلا؟
شیرو مستانہ: وہ فنون لطیفہ والا لطیفہ تو بیچ میں ہی رہ گیا، سنائیں نا...
ماسٹر صاحب: مجھے دیواروں سے سر پھوڑنے اور بھینسوں کے آگے بین بجانے کا کوئی شوق نہیں۔ تم چھوڑو فنون لطیفہ کو، ابھی گرامر کے سبق پر دھیان دو۔
نورا دیوانہ: آپ بھی عجیب ہیں ماسٹر جی! کبھی ہمیں غیور قوم کہتے ہیں، کبھی ڈنڈے کی قوم اور کبھی دیواریں اور بھینسیں (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: فیقے، تم فعل حال کا کوئی جملہ بنائو۔
فیقا ٹیڈی: نئی گنگز پارٹی بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہے (قہقہ)
ماسٹر صاحب: جیسا منہ، ویسی بکواس۔ خانو، تم ایسا جملہ سنائو، جس میں حال اور مستقبل دونوں زمانے شامل ہوں۔
خانو خاکسار: پری پول دھاندلی ہو رہی ہے (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: لعنت ہے تم پر۔ جمالے تم ایسا جملہ بنائو، جس میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے پائے جائیں۔
جمالا شرمسار: کسی کے لیے بند گلی، کسی کو کھلی چھٹی (قہقہہ)
شیدا جہاز: میں جملہ سناتا ہوں سر جی... لوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی ہے... اس جملے میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے شامل ہیں (قہقہہ)
ماسٹر صاحب: تف ہے تم پر۔ تمہاری کھوپڑیوں میں صرف اور صرف بھس بھرا ہے اور بس... تم لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔
گاما کوچوان: کوئی بھس وغیرہ نہیں بھرا ماسٹر صاحب! ہمارے دماغ تو ملکی خزانے کی طرح خالی ہیں (قہقہہ)
بگا پٹھان: تم لوگ فکر مت کرو، جب انقلاب آئیگا تو ہم خزانہ اور جیلیں فُل کر دیگا۔
ماسٹر صاحب: تجھے کتنی دفعہ کہا ہے کہ پاجامہ سیدھا پہن کے آیا کر میرے پیارے بچے، اور یہ اپنا ازار بند بھی سنبھالا کر، ہمیشہ لٹکتا رہتا ہے (قہقہہ)

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں