مارکیٹ میں بیانیہ ہی یہی چل رہا ہے صاحب۔ آتش بجاں تحریک دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ آدھی گواہی والیاں ہمیں ملک بدر کرکے ہی دم لیں گی۔ غضب خدا کا، پہلے جنت سے نکلوایا اور اس پہ بھی چین نہ آیا تو ہم پر زمین بھی تنگ کرنے کے درپے ہو گئیں۔ ان کی باتیں سنو تو لگتا ہے کہ اس مملکت خداداد میں مردوں کو انہیں ہراساں کرنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں۔ خدا کی زمین پر کوئی کمزور بھی نہ ہو۔ فیض ؔ نے کہا تھا:
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
ماضی کی بات ہے، پی ٹی وی کے ایک ادبی پروگرام میں بانو قدسیہ نے دعویٰ کیا کہ مرد نے کبھی عورت سے محبت نہیں کی۔ اشفاق احمد نے اپنی بیگم کی بات کی تردید کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ کہا ''مرد انار کلی میں ایک سرے سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے سرے تک وہاں موجود تمام عورتوں سے محبت کرتا چلا جاتا ہے‘‘... آج مغرب کی عطا جدید زبان میں اس محبت کو جنسی ہراسانی کہا جاتا ہے اور اسی کی آڑ میں شرفاء کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں۔ کہیں گلالئی بولتی ہے تو کہیں میشا طرح مصرع اٹھاتی ہے، اور پھر می ٹُو کے دیوان در دیوان۔ بیبیوں کو شاید اندازہ نہیں کہ وہ مغرب کی اندھی تقلید میں اپنی تحریک سے ملک کو کتنا کمزور کر رہی ہیں؟
ماضی کے انہی دنوں میں ہمارے ایک پڑوسی انگلینڈ سے گوری بیاہ لائے۔ گوری ایک اوباش اور حیا سوز معاشرے سے براہ راست سنجیدہ و برگزیدہ معاشرے میں پہنچی تو پریشان سی رہنے لگی۔ ایک غیر نظریاتی ریاست سے نظریاتی مملکت میں آنے والی کو یہاں کی پاکیزہ اور لازوال محبت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اکثر شکایت کرتی کہ وہ گھر سے نکلتی ہے تو مرد اسے گھورتے ہیں اور موقع ملے تو چھیڑ چھاڑ کی جملہ کارروائیوں سے بھی گریز نہیںکرتے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ ''ہر ملکے و ہر رسمے‘‘... ہر سرزمین کے اپنے تقاضے اور روایات ہوتی ہیں، لہٰذا وہ دل چھوٹا نہ کرے اور اس معاشرے کی بے شمار مثبت سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اس ماحول کی عادی ہو جائے گی مگر گوری اس تواتر سے ایسی شکایات کرنے لگی تو ہمیںشک ہونے لگا کہ وہ کسی بین الا قوامی ایجنڈے کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بدنام کرنے کے خاص مشن پر ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا شک یقین میں بدلنے لگا کہ وہ واپس جا کر ''ایک غیر مہذب معاشرے میں چند دن‘‘ برانڈ کوئی کتاب لکھنے والی ہے، تاکہ یورپ میں اس کی خوب تشہیر کرکے وطن عزیز کی نیک نام شہرت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ غالباً اپنے اسی مشن کی تکمیل کی خاطر ایک دن گوری شاپنگ کے بہانے راولپنڈی کی کسی مارکیٹ میں جا گھسی۔ واپس آ کر پھٹ پڑی۔ کم بخت بڑے ٹھنڈے مزاج کی مالک تھی مگر آج اس کے لہجے سے لگتا تھا کہ اسے انار کلی والی پرجوش محبت سے بھرپور واسطہ پڑا ہے۔ گوری کو بلا اجازت گھر سے نکلنے پر شوہر کی طرف سے ہلکے پھلکے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ اب خدا معلوم کہ گوری کا سازشی کام مکمل ہو گیا تھا یا اس کے اپنے نئے خاوند، نئے مذہب اور نئے وطن کے حوالے سے سہانے خواب چکنا چور ہو گئے تھے۔ ایک دن وہ خاموشی سے اپنے حیا سوز معاشرے میں واپس چلی گئی، جس کا ہم سب کو بہت دکھ ہوا اور شرفائے محلہ میںغم و غصے کی لہر دوڑ گئی؛ تاہم وقت ہر زخم کا مرہم ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ لہر بھی غائب ہو گئی۔ یہ مردوں ہی کا حوصلہ تھا، جنہوں نے دلوں پر بھاری پتھر رکھ کر آبلہ پائی کے لیے پھر سے دیسی خارستان چن لیے۔
تھوڑی بہت ہراسمنٹ تو ہر زندہ معاشرے میں ہوتی ہی ہے مگر اس کو جواز بنا کر اپنے ہی وطن کی عزت کے درپے ہو جانا کونسی عقلمندی ہے؟ ایک خاتون نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ مرد ہمیں ہراساں کرنے کے لیے جتنے حربے استعمال کرتے ہیں، اگر وہ اتنی ریاضت ملکی ترقی کے لیے کریں تو ہم ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہو جائیں۔ حد ہوتی ہے ہرزہ سرائی کی۔ گویا اس ملک نے اب تک جو خیرہ کن ترقی کی ہے، وہ خواتین کی مرہون منت ہے، مرد تو صرف انہیں ہراساں کرنے میں وقت ضائع کرتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا نے اس ملک کے مردوں کو اتنی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑانے کے علاوہ فحاشی اور سازشیں بھی ان کی عقابی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتیں۔ ہم فحاشی شٹل کاک سے بھی برآمد کر لیتے ہیں اور سازشیں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اغیار کی موجودہ چال بھی ہم خوب سمجھتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کی آڑ میں یہ اس واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو اخلاقی اعتبار سے تباہ کرنے کی گہری سازش کے سوا کچھ نہیں۔ سات سمندرپار سے آئی اس نام نہاد شعوروآگہی کے نتیجے میں حیا سوز لباس فروغ پاتے ہیں، جو جنسی ہراسانی کے واقعات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بے پردگی، مخلوط تعلیم اور مردوزن کا آزادانہ اختلاط ہی ریپ کے کیسوں کے حقیقی اسباب ہیں، ورنہ تو ہم دامن نچوڑ دیں تو پتہ نہیں کیا ہو۔
ان بھاگ بھریوں کو کون سمجھائے کہ صدیوں پہلے جب ان کا پسندیدہ یورپ تاریکیوں میں ڈوبا تھا، ہم ترقی یافتہ اور علم و تحقیق کی معراج پر تھے۔ تب ہم عورتوں کے تحفظ کی خاطر لونڈیوں کے پرشکوہ حرم سرا رکھتے تھے۔ آج بھی ہمارے ہاں جو حقوق خواتین کو حاصل ہیں، کسی دوسرے ملک کی عورتیں ان کا خواب ہی دیکھ سکتی ہیں۔ اللہ کے کرم سے ہمارے ملک میں صنف نازک کی حفاظت کی خاطر ہراسمنٹ ایکٹ2010ء نافذ ہے۔ یہاں کی خواتین خوش قسمت ہیں کہ محترمہ کشمالہ طارق جیسی دبنگ خاتون وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت مقرر ہیں، جو انہیں ہراساں کرنے کی ہر واردات کے آگے ڈھال بن کرکھڑی ہوجاتی ہیں۔ تاہم اس ایکٹ میں مردوں کو حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور انہیں ہراساں کرنے والیوں کے خلاف کوئی شق شامل نہیں کی گئی۔ مصیبت یہ ہے کہ اس مصر میں فقط زلیخا ہی کی سنی جاتی ہے، ورنہ ہراساں کرنے میں خواتین بھی کچھ کم نہیں۔ ایلیٹ کلاس میں تو چلتی ہی بیگمات کی ہے۔ ہم مڈل کلاسیے بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں۔ کوئی بھی خاتون جب چاہے، جہاں چاہے ہمیں بلاخوف ہراساں کر سکتی ہے۔
مثلاً گھر میں ٹینڈے پکانا ہراسمنٹ کی بدترین شکل ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچاکہ جس دن موسم کی خرابی یا موٹر سائیکل پنکچر ہونے کی بنا پرآپ دوستوں کے ساتھ باہر جاکر کچھ زہرمار کرنے کے قابل نہ ہوں، اسی دن گھر میں ٹینڈے کیوں پکتے ہیں؟ حالانکہ آپ تو صبح چکن لے کر آئے ہوتے ہیں مگر اس دن ٹینڈے ٹنڈوآدم سے بھی منگالیے جاتے ہیں۔ آپ کبھی چھٹی کرکے یا جلدی گھر آکرٹی وی دیکھنے، اخبار یا کتاب پڑھنے یا کالم لکھنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ آپ کوئی فضول کام کر رہے ہیں، لہٰذا وقتاً فوقتاً اس طرح کے تکلیف دہ جملے سننے کو ملتے ہیں ''برآمدے کا پنکھا نہیں چل رہا...کچن کی ٹیوب لائٹ خراب ہے...پانی کی موٹر رک گئی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ کبھی آپ گھر سے باہرجمالیاتی ذوق سے مالامال کسی تخلیق کارخاتون سے ساتھ ادب پر تبادلہ خیال میں مصروف ہوتے ہیں، یا دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مگن ہوتے ہیں۔ اچانک آپ کے موبائل پر ایک خاص نمبرکے لیے مخصوص کی گئی خوبصورت سی ٹون بجتی ہے ''چول دافون آگیاای‘‘ آپ کے تبادلہ خیال یا خوش گپیوں کا بیڑاغرق ہوجاتاہے۔ تب آپ کے موبائل پر ابھرنے والی بلنداورکرخت آوازدوسرے بھی سنتے ہیں''دہی بھی لیتے آنا، اورذرا جلدی گھر آنا، چکی سے دانے بھی پسوا کر لانے ہیں‘‘ اس وقت جب آپ کی عزت خاک میں مل چکی ہوتی ہے،آپ کی شکل دیکھنے والی ہوتی ہے۔کبھی دفتر کی کوئی خوش شکل کولیگ آپ کو منہ بھر کے بھائی کہہ دیتی ہے توبھی آپ کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ فریق مخالف کی طرف سے مردوں کو ہراساں کرنے کی چند خوفناک مثالیں ہیں مگران پرقانون انسدادہراسیت کی کوئی دفعہ نہیں لگتی۔
دیکھیں، دکھلائے ابھی گردش دوراں کیاکیا...لگتاہے کہ دوطرفہ ہراسمنٹ کے اس دنگل میں آخری فتح خواتین کی ہوگی اوروہ مردوں کو دیس نکالادے کر ہی دم لیں گی۔ہم یہ شکست کھلے دل سے قبول کرنے کو تیارہیں۔شرط فقط یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی اس تحریک میں ہوابھرنے والے اہل مغرب ہمیں اپنے ممالک کی شہریت دے دیں۔ ہم بادل نخواستہ اپنا ملک ''میراجسم، میری مرضی‘‘ والیوں کے حوالے کرکے وہاں آجائیں گے اورگوریوں کے ساتھ روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرلیں گے۔اللہ مالک ہے۔