نواز شریف نے بغاوت کو شعار کیا، اداروں کو بے قرارکیا، دوستوں کو شرمسار کیا، ساتھیوں کو لاچار کیا، پارٹی کو خوار کیا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں انہوں نے گھاٹے کا بیوپار کیا جبکہ کئیوں کے نزدیک فائدے کا کاروبار کیا۔ کئی تجزیہ نگاروںکے خیال میں اس کارِ خیر کے بعد وہ پہلے سے بھی زیادہ مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ہمیں ان سے اختلاف کا جمہوری حق حاصل ہے مگر اس کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
افتخار محمد چوہدری کوئی آئیڈیل جج نہیں تھے۔ ان کی عدالتی تاریخ قطعاً قبل رشک قرار نہیں دی جا سکتی مگر ان کے ایک علمِ بغاوت نے انہیں مقبولِ عام بنا دیا۔ انہوں نے اپنے آئینی اختیارات میں مداخلت اور جبراً استعفے کے مطالبے کے خلاف قیام کیا تو جیسے پورا ملک ان کے حق میں امڈ آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی بحالی کے بعد خود انہوں نے بھی آئینی اداروں میں مداخلت کی‘ وہی پالیسی اپنا لی اور پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کو جی بھر کے ناکوں چنے چبوائے۔
نواز شریف بھی کوئی غیر معمولی قابلیت کے حامل رہنما نہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ نمو پائی اور آج وہ جس خلائی مخلوق کی دہائی دیتے ہیں، اسی کی مہرباں چھائوں میں اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ گاہے اداروں اور ان کے سربراہان سے دو دو ہاتھ بھی کرتے رہے مگر پرویز مشرف کے انتہائی قدم اور 58/2-B کی تلوار کے سوا مجموعی طور پر حالات ان کے حق میں رہے۔ 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد غالباً انہوں نے سوچا کہ عوام میں ان کی پارٹی کی جڑیں گہری ہو گئی ہیں اور انہیں اب عوامی طاقت کے علاوہ کسی اور کی چھتری کی ضرورت نہیں رہی (یہ دماغی کیڑا بذات خود کسی سیاسی رہنما کی نااہلی کے لیے کافی ہے) انہوں نے اپنے آئینی اختیارات میں مداخلت کے خلاف مزاحمت شروع کر دی۔ نتیجہ سامنے ہے۔ نااہل ہو کر وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے تو احتجاج پر اتر آئے۔ حتیٰ کہ ممبئی حملوں والا خطرناک انٹرویو دے ڈالا۔ غدار قرار پائے۔ اندرونی اور بیرونی دبائو سہا مگر روش نہ بدلی اور مزید پیش قدمی کرتے ہوئے ''میرا جرم مشرف کے خلاف مقدمہ‘‘ اور ''دوران دھرنا ماتحت کا پیغام ملا کہ استعفیٰ یا رخصت‘‘ جیسی باتیں بھی کہہ ڈالیں۔ تاہم ان کے خلاف تمام تر مہمات کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہ آئی اور اگر عام انتخابات کسی بہانے سے ملتوی ہوئے تو یہ مقبولیت ہٰذا کا واضح ثبوت ہو گا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کا ''المیہ‘‘ ہے کہ جب انہیں عوامی حمایت حاصل ہو جائے تو ان کے اندر خود مختاری اور حقیقی اختیارات کے جراثیم سر اٹھانے لگتے ہیں، جو ہماری شاندار اقدار کے خلاف ہے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور بے نظیر بھٹو کو بھی اسی عارضے نے آ لیا اور وہ اپنے اپنے ''منطقی انجام‘‘ سے دوچار ہوئے۔ اگر ان انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ہو گی کہ ایک مرتبہ پھر سیاسی عمل کے ذریعے انتقال اقتدار ہوا ہے مگر ہمارا عاجزانہ سا دعویٰ ہے اقتدار ملنے کے بعد عمران خان کو بھی اسی بیماری سے واسطہ پڑے گا۔ نواز شریف کو تو برسوں بعد یہ جن چمٹا ہے مگر عمران خان کا مزاج گواہ ہے کہ وہ شاید ایک سال بھی صحت مند نہ رہ سکیں۔ وہ ہر لحاظ سے بااختیار وزارت عظمیٰ چاہیں گے اور اس خواہش کے نتیجے میں جلد ہی ان کی کشمکش شروع ہو جائے گی۔
ہمارے بھائی سردار غلام عباس خان کہتے تھے کہ بغاوت نواز شریف کی سرشت میں نہیں تھی مگر جب اس نے خلاف فطرت یہ قدم اٹھایا تو یہی ادا لوگوں کو پسند آ گئی۔ یاد آیا، ان کے بارے میں ن لیگ کو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کہنے والے سینئر تجزیہ نگار جناب نصرت جاوید نے اپنے کالم میں طنزاً لکھا ہے کہ چکوال کے سردار غلام عباس نے نواز شریف کے حالیہ انٹرویو کے بعد ''وطن کی محبت میں‘‘ مسلم لیگ نون چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے سردار صاحب کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کے حوالے سے لکھا ہے کہ عمران خان صاحب کو مگر یہ بات بھولنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ چکوال کے اس ہیوی ویٹ Electable نے 2013 کے انتخابات سے صرف ایک مہینہ قبل ان کی جماعت کو چھوڑ دیا تھا۔ ہم سینئر تجزیہ نگارکی بات جھٹلا نہیں سکتے۔ دلوں کے بھید تو مالک حقیقی ہی جانتا ہے، البتہ ہم اتنا عرض کر سکتے ہیں کہ ن لیگ کی مقامی قیادت نے عباس خان کو قبول نہیں کیا تھا اور اندر خانہ پارٹی کے ساتھ ان کے معاملات ٹھیک نہیں چل رہے تھے۔ اوپر سے بغاوتِ متذکرہ ترقی کرتے نواز شریف کے ''بدنام زمانہ‘‘ متنازعہ انٹرویو تک پہنچی تو سردار عباس کے دل میں پارٹی کے لیے خلیج اور بھی گہری ہو گئی اور انہوں نے احتجاجاً ن لیگ چھوڑتے ہوئے کہا کہ میرا ضمیر اب نواز شریف کا دفاع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اب تحریک انصاف ذاتی ووٹ بینک رکھنے والے اس مضبوط رہنما کو قبول کرے گی‘ اور وہ اسی کے ٹکٹ پر چکوال سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ کر ن لیگ کے اس قلعے میں دراڑ ڈالنے کی سعی کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو سردار عباس کے حوالے سے کچھ تحفظات ہوں مگر سب جانتے ہیں کہ دوسرے رہنمائوں کی طرح وہ بھی ووٹ بینک رکھنے والے لیڈروں کو بخوشی اپنی جماعت میں قبول کرتے ہیں اور اس کار خیر سے قبل وہ لیڈر کی شہرت بھی نہیں دیکھتے۔ جبکہ سردار عباس تو اپنی اچھی شہرت کی بنا پر ضلع بھر میں قابل لحاظ ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں اور گزشتہ انتخابات میں انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے ن لیگ کے امیدوار کے مقابلے میں ایک لاکھ سات ہزار حاصل کیے تھے، جبکہ 2015ء کا بلدیاتی انتخاب بھی آزاد حیثیت میں ان کے گروپ نے جیتا۔ بات دوسری طرف نکل گئی، ہم اصل موضوع پر آتے ہیں۔
عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور آج نگران وزیر اعظم جناب ناصرالملک عنان حکومت بھی سنبھال لیں گے۔ اگرچہ آمریت کے گہرے گھائو سہنے والے اور ناپختہ سیاسی شعورکے حامل ہمارے جیسے ملکوں میں مستقبل کے سیاسی نقشے کے بارے میں حتمی طور پر کوئی بھی بات کہنا مشکل ہوتا ہے کہ یہاں راتوں رات بساط الٹ جاتی ہے، تجزیئے خاک میں جا ملتے ہیں اور منظرنامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہاں کے شہریوں نے ایسی کئی مجہور صبحیں دیکھی ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے جیل اور غیرنمائندہ طاقتیں ایوانوں میں براجمان تھیں۔ البتہ ایک خوش فہم قوم کے طور پر حالات و واقعات کی روشنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ مطلع صاف ہوتا جا رہا ہے اور ملکی سیاسی فضا میں چھائے بے یقینی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ تجربات کی روشنی میں ہمارے دلوں سے خدشات بھی نہیں جاتے۔ متعدد اضلاع میں حلقہ بندیاں کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے نے بروقت انتخابات کے انعقاد پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مردم شماری کے لوازمات پورے نہ ہو سکنے کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ نواز شریف کیمپ کسی بھی صورت انتخابات کا التوا نہیں چاہتا مگر یہاں ہونی کو کب کوئی ٹال سکا ہے بھلا؟ اس کیمپ کا خیال ہے کہ اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو اس سے مراد یہ ہو گی کہ نواز شریف کو شکست دینا فی الحال ممکن نہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کا اصل المیہ یہ رہا ہے کہ وہ باری باری مار کھانے کے شوقین ہیں جبکہ باقی ان کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ نہ صرف تماشہ دیکھتے ہیں بلکہ مارے والوں کے مہرے بھی بن جاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت سے کچھ امید بندھی تھی مگر یہ بھی وقتی خوش فہمی ثابت ہوئی۔ آج نواز شریف نشانہ ہیں تو کل خان صاحب ہوں گے۔ اپنی سیاسی ناپختگی کی بنا پر مل کر اپنی اور سیاست کی آبرو بچانے کا تو شاید انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ تاہم اگر سیاسی نظام عدم مداخلت کے اصول کے تحت مستقل چلنے دیا گیا تو ان کے رویوں میں ضرور بہتری آئے گی۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہم نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو یا مریم نوازکو بے نظیر بھٹو کے ہم پلہ قرار دے کر تاریخ کے ساتھ ناانصافی نہیں کرنا چاہتے، مگر وہ جو فیضؔ نے کہا ہے کہ:
یاں اہل جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیش ہوس تیغ بکف درپئے جاں ہے
اب صاحب انصاف ہے خود طالب انصاف
مہر اس کی ہے، میزان بدست دگراں ہے
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے