میرے خان جی
''میرے خان جی‘‘ بہ وزنِ ''مینڈا سائیں‘‘ خود نوشت نما، خوش نما و خود نما کتاب جلد ہی مارکیٹ میں آ کر تہلکہ مچانے والی ہے۔ بہ وزن اس لیے کہا گیا ہے کہ ہر دو کتب کا نہ صرف وزن برابر ہے بلکہ نفس مضمون میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے، نیز دونوں کتابیں کتابی چہروں نے لکھی ہیں۔ کتاب ہٰذا لکھنے میں دوست احباب کا مشورہ شامل ہو سکتا ہے مگر عملاً یہ مصنفہ محترمہ کی خالصتاً ذاتی کاوش ہے، جس میں جی تھری آٹو میٹک قلم سے اپنے سابقہ خان جی پر سیدھی فائرنگ کی گئی ہے۔ کتاب میں خان جی کے رابطہ ہائے آشنائی کے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ''میرے خان جی‘‘ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہونے سے قبل ہی میلہ لگ چکا ہے۔ کتاب کو قبل از الیکشن دھاندلی قرار دینے والی ایک جماعت کا بس چلے تو وہ فاضل مصنفہ کا گلا دبا دے جبکہ کتب بینی کے شائقین اسے پڑھ کر دانتوں میں انگلیاں دبانے کے لیے بے چین ہیں۔
دیوانِ دیوانہ
یہ منفرد لہجے کے شاعر جناب دیوانہؔ پوڈری کا مجموعہ کلام ہے۔ شاعر کا ادبی مقام جاننے کے لیے اتنا کافی ہے کہ حاضرین کے پُر زور اصرار پر انہیں مشاعرے کے سب سے آخر میں پڑھوایا جاتا ہے۔ اتنا آخر میں کہ جب منتظمین قالین وغیرہ سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ قبلہ دیوانہؔ کے اندر کا شاعر اسی سال دریافت ہوا، جب انورؔ مسعود صاحب نے فرمایا تھا کہ اس سال خربوزے اور شاعر زیادہ ہوئے ہیں۔ خربوزے تو خیر اسی سال ختم ہو گئے تھے، البتہ اس ماڈل کے شعراء میں سے فقط چند دانے ہی راہیٔ عدم ہو سکے‘ جبکہ باقیوں نے مشقِ سخن جاری رکھی، جو کسی قومی المیے سے کم نہیں۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ''دیوانِ دیوانہ‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہو کر منصۂ شہود پر آنے کو پا بہ رکاب ہے۔ دیوان اتنا ضخیم ہے کہ لڑائی جھگڑے کے کسی وقوعہ میں بطور ہتھیار استعمال کرنے پر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 337-Aii بھی لگ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے کتاب کو قابل دست اندازیٔ پولیس شاہکار بھی کہا جا سکتا ہے۔ بعض نقاد صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر حضرت شاعر نہ ہوتے تو مشاعروں میں انڈے اور ٹماٹر ہمراہ لے جانے کا رواج فروغ نہ پاتا۔ دیوان اپنے وزن کی بنا پر منی بیک گارنٹی کے ساتھ دستیاب ہو گا، یعنی اگر پسند نہ آئے تو ردی والے کو دینے پر دس بیس ہی کا گھاٹا پڑے گا۔ دیدہ زیب سرورق جناب پوڈری کی پوڈریوں والے حلیے کی تصویر اور ان کے اس آفاقی شعر سے مزین ہے:
اگر بے وفائی دیوانےؔ سے کرنی تھی، پہلے ہی بتا دیتے
دنیا بہت بڑی تھی، کسی اور سے دل لگا لیتے
یادداشت نامہ اور خواب نامہ
ان دونوں کتب کا اکٹھا اس لیے ذکر کیا جا رہا ہے کہ نہ صرف عنوانات کے لحاظ سے بہ وزن ''شہاب نامہ‘‘ ہیں بلکہ دونوں عالم رویا میں لکھی گئی ہیں۔ پہلی کتاب ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ جناب ایل ڈی کے سلمانی اور دوسری ایک ریٹائرڈ جنرل بوٹا گل صاحب کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے آپ پر منکشف ہو گا کہ یہ ملک اب تک کیوں قائم ہے۔ مصنفین نے نہایت سادہ انداز میں ہماری تاریخ کے کئی پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے کہ کس طرح انہوں نے فی سبیل اللہ متعدد مرتبہ اپنے وقت کے نا اہل سول اور فوجی حکمرانوں کو قیمتی مشورے دے دے کر ملک بچایا۔ نیز دوران سروس انہوں نے کیسے کیسے جابر سلطانوں کے سامنے بلا خوف کلمۂ حق بلند کیا، کتنی دفعہ اصولی اختلاف پر استعفیٰ ان کے منہ پر دے مارا، کیسے اپنے لیے آئوٹ آف ٹرن ترقیوں کو بہ نوکِ جوتا مسترد کیا‘ اور کیسے پرلے درجے کی دیانتداری اور دلیری سے ملک کی اور ملکی خزانے کو قومی امانت سمجھ کر اس کی حفاظت کی؛ تاہم مصنفین نے اپنی ذاتی تشہیر اور سچ سے ہر ممکن گریز کیا ہے۔ چونکہ مصنفین دولت کو ہاتھوں کی میل سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور ان کے خیال میں اربوں کی بے وقعت جائیدادوں نے بھی یہی رہ جانا ہے۔ لہٰذا ان چیزوں پر ایک لفظ بھی ضائع نہیں کیا کہ وہ کس قومی خدمت کے عوض اور کہاں سے اُن کے حرم میں در آئیں؟ قارئین کے لیے انتباہ ہے کہ ان کتابوں کو ایک ہی نشست میں ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جب بھی بلڈ پریشر ہائی ہونا شروع ہو جائے، کتاب بند کر دیں اور فشارِ خون نارمل ہونے کا انتظار کریں۔
چِٹیاں کلائیاں وے
یہ کتاب اور صاحبۂ کتاب بھی مارکیٹ میں آنے کو بے چین ہیں۔ حاسدین کے مطابق اگر کتاب کا عنوان چربہ ہے تو کلام بھی سرقہ کے شکوک و شبہات سے بالا تر نہیں۔ تاہم اسے سرقہ بالجبر نہیں، سرقہ بالرضا کہنا مناسب ہو گا۔ یہ نڈر، بے باک اور خوبصورت شاعرہ '' منی بدنامؔ‘‘ کا شعری مجموعہ ہے۔ مجموعہ تو خیر مہربانوں اور قدر دانوں کی مشترکہ کاوشوں کا ہے بلکہ اجتماعیت کی بہترین مثال ہے؛ تاہم کتاب میں شاعرہ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ اس کے ذاتی ہنر کا شاہکار ہے۔ نقاد لاکھ شکوک و شبہات کا اظہار کریں‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ سرِ ورق کی شاعری خالصتاً منی بدنامؔ کی اپنی ہے۔ یہاں کی تصویر میں انہوں نے اپنی دودھیا کلائیوں پر ادائے ناز سے جھکتے ہوئے اُن پر ریشمی زلفیں بکھیر کر اعضا کی ایسی غضب کی شاعری کی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ اگر آپ شاعرہ کا حسن ''حسنِ بیاں‘‘ تک دیکھنا چاہتے ہیں تو آج ہی اپنی کتاب بک کرا لیں، ورنہ وہ مارکیٹ میں آتے ہی یوں ہاتھوں ہاتھ بکے گی کہ آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ قیمت زیادہ ہے لیکن اللہ مالک ہے۔ رائیگاں نہیں جائے گی۔
ہم الیکشن کیوں ہارے؟
یہ آئندہ کے چند دنوں کی تاریخ ہے، جس کا خاکہ مصنف محترم اپنی وجدانی قوت کی بنا پر ایڈوانس تیارکر رہے ہیں۔ مصنف کا ارادہ ہے کہ اس کتاب کو جیل میں مکمل کیا جائے کیونکہ غور و فکر اور کتاب لکھنے کے لیے اس سے بہتر ماحول کسی دوسری جگہ میسر نہیں آ سکتا۔ ایڈوانس تاریخ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ صاحب کتاب اپنے تجربے اور تخیلاتی قوت کی بنا پر خوب آگاہ ہیں کہ آئندہ انتخابات میں اس کی پارٹی کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ اتفاق سے کتاب کا خاکہ تیار کرتے وقت مصنف اصغر خان کیس بھی بھگت رہے ہیں، جس نے ان کی یادداشت کو جلا بخشی ہے اور انہیں اپنی بات واضح کرنے میں آسانی ہو رہی ہے کہ انتخابات میں زیر عتاب لوگوں کے ساتھ ''عوام‘‘ کیا سلوک کرتے ہیں۔ کتاب میں ان عوامل پر تفصیلی روشنی ڈالی جا رہی ہے ، جن کی بنا پر ایک مقبول لیڈر غیر مقبول ہو جاتا ہے اور زمینی مخلوق کا مہرباں ہاتھ میسر آتے ہی خلائی مخلوق اس کے سر سے اپنا دست شفقت اٹھا کر کہیں اور رکھ دیتی ہے۔ کتاب میں اپنے آئندہ الیکشن ہارنے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس کو دلائل کے ساتھ سرا سر دھاندلی ثابت کیا جا رہا ہے۔ نیز اس راز سے بھی پردہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ان کی حکومت کی طرف سے پوری کی گئی بجلی چوری کر کے کس مقصدکے لیے اور کہاں لے جائی گئی؟
دیوان اتنا ضخیم ہے کہ لڑائی جھگڑے کے کسی وقوعہ میں بطور ہتھیار استعمال کرنے پر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 337-Aii بھی لگ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے کتاب کو قابل دست اندازیٔ پولیس شاہکار بھی کہا جا سکتا ہے۔ بعض نقاد صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر حضرت شاعر نہ ہوتے تو مشاعروں میں انڈے اور ٹماٹر ہمراہ لے جانے کا رواج فروغ نہ پاتا۔