ہمارے معاشرے میں اختلافات کا اپنا مقام ہے مگر کھل کر سامنے آنے والے اختلافات کی بات ہی کچھ اورہے۔ اگرچہ ہم لوگ اختلافات کی ٹوہ لگانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر سچی بات ہے کہ جو مزا مابین فریقین کھل کر سامنے آنے والے اختلافات میں ہے، وہ ڈھکے چھپے اور ٹوہ شدہ اختلافات میں بالکل بھی نہیں۔ حتیٰ کہ کوئی خفیہ شادی بھی منظرعام پر آکر وہ ریٹنگ نہیں لیتی، جو بعدازاں ان میاں بیوی میںکھل کر سامنے آنے والے اختلافات لیتے ہیں۔ جب دو اداروں، دو سیاستدانوں یا دو اداکارائوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آتے ہیں تو پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ہم لوگ میڈیا کی وساطت سے ان اختلافات کی باریکیوں کا خوب مزا لیتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر ایسے اختلافات کی بابت اپنے گراں مایہ خیالات کا شائستہ انداز میں اظہار کرنا بھی نہیں بھولتے۔
شریف برادران کے ساتھ چوہدری نثار کے کھل کر سامنے آنے والے اختلافات کے بعد اب دونوں بھائیوں کے درمیان بھی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ جائے وقوعہ کراچی کا ہوٹل تھی، جہاں منگل کو شہباز شریف نے پریس کانفرنس کی۔ نواز شریف کے بیانیے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بات خلائی مخلوق تک پہنچی تو سابق خادم اعلیٰ اور حال ن لیگ کے صدر نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ کسی خلائی مخلوق کو نہیں جانتے، قرآن میں صرف جنات کا ذکر ہے۔ گویا کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ قبل ازیں میاں صاحب اپنے بڑے بھائی کے بیانیے سے محتاط انداز میں اختلاف کرتے ہوئے صرف خلائی مخلوق کے وجود سے انکار کرتے رہے ہیں، مگر آج وہ اس کے مقابلے میں ایک اور مخلوق کو نکال لائے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ایک متضاد بیانیہ مارکیٹ میں لے آئے ہیں۔ اس بیانیے کی آسان فہم وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ ن لیگ کے خلاف کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ جنات مصروف عمل ہیں اور انتخابات میں اس کا مقابلہ انہی کے ساتھ ہے۔
اگرچہ شہباز شریف نے جنات کا ذکر بھی محتاط طریقے سے اشارتاً ہی کیا ہے، تاہم اس نئے بیانیے سے جہاں شریف برادران کے درمیان ایک بات پر ہم آہنگی ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی ان دیکھی مخلوق موجود ہے، وہاں مخلوق ہٰذا کی صنف پر واضح اختلافات بھی نظر آتے ہیں۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ اگر عام انتخابات 2018ء میں ن لیگ کو شکست ہوئی تو یہ اختلافات اور بھی گہرے ہو جائیں گے۔ نواز شریف اس شکست کا ذمہ دار خلائی مخلوق کو ٹھہرائیں گے اور شہباز شریف جنات کو۔ ایسے اہم ترین معاملے میں ہر دو متضاد بیانیے اس سیاسی جماعت میں ٹوٹ پھوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔ نیز شکست کی ذمہ دار قرار پانے والی دونوں پارٹیوں میں بھی سرد جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ جو مخلوق ن لیگ کو ہرانے کے لیے محنت کرے گی، وہ اس کارِ خیر کا کریڈٹ دوسری پارٹی کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یقیناً برا منائے گی۔ اگر یہ نیک کام خلائی مخلوق کر رہی ہے تو وہ شہباز شریف کی طرف سے اس کا کریڈٹ جنات کو دینے پر ناراض ہو گی اور اگر اس کارِ خیر کے پیچھے جنات کی محنت کارفرما ہے تو نواز شریف کی جانب سے اس کا ثواب خلائی مخلوق کے کھاتے میں ڈالنے پر اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ اگر یہ جنگ شدت اختیار کر گئی تو ہو سکتا ہے کہ شریف برادران کی طرح دونوں مخلوقاتِ شکست دہندہ کے درمیان بھی اختلافات کھل کر سامنے آ جائیں۔ بجا کہ مخلوقات مذکورہ کبھی بھی کھل کر سامنے نہیں آتیں مگر اختلافات کو کھل کر سامنے آنے سے کون روک سکتا ہے بھلا؟
ہمارے سیاستدان تو خیر ان کاموں کا بھی کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، جو انہوں نے کیے ہی نہیں ہوتے مگر ان دیکھی مخلوقات ایسی منکسرالمزاج واقع ہوئی ہیں کہ اچھا خاصا باریک کام کر کے بھی کسی داد و تحسین کی طلب گار نہیں ہوتیں۔ تاہم ہماری سرزمین پر سالہا سال سے انتخابات اور ریفرنڈمز میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتی، نظر نہ آنے والی مخلوقات ہم سے اتنا تو سیکھ چکی ہوں گی کہ کیسے کسی اچھے کام کا کریڈٹ بزورِ بازو حاصل کیا جاتا ہے اور مخالف پر کس طرح طعنہ فرسائی کر کے اسے بھگایا جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اپنی خدمات کے نتیجے میں عوامی مینڈیٹ کی طرح اپنا منقسم کریڈٹ دیکھ کر وہ بھی طیش میں آ سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے اختلافات متذکرہ کھل کر سامنے لانے کے پیچھے بھی برادران شریفہ کی کوئی مشترکہ حکمت عملی پوشیدہ ہو۔ کیا عجب کہ وہ اپنے خلاف صف آرا مخلوقات کے درمیان اختلافات پیدا کرکے انہیں آپس میں لڑانا چاہتے ہوں، تاکہ وہ خود بھی کھل کر سامنے آ جائیں اور ان کے اختلافات بھی۔ اس طرح نواز لیگ کے خلاف سازش کی گواہی خود اس سازش کے معمار دیں گے اور میاں برادران کے موقف کو تقویت ملے گی۔
ایسی صورت میں اگر ان دیکھی مخلوقات خلاف فطرت کھل کر سامنے آ گئیں تو وہ نیوز چینلز پر ٹاک شوز میں اپنے اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنے آ سکتی ہیں اور ایک دوسرے کا کچا چٹھا بھی کھول سکتی ہیں۔ مثلاً ایک مخلوق کا نمائندہ مخالف مخلوق کے نمائندے کو طعنہ دے سکتا ہے کہ تمہارے ذمے ضیاء الحق کا ریفرنڈم کامیاب کرانا تھا مگر تم نے ایسی بے حکمتی سے یہ کام کیا کہ دنیا میں بیچارے پاکستانیوں کی آج تک جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ جواب میں مخالف مخلوق کا نمائندہ کہہ سکتا ہے کہ تم نے آئی جے آئی اس بھونڈے طریقے سے بنائی اور اسے ایسے بچگانہ طریقے سے کامیاب کرایا کہ چند ٹکے لینے کی بنا پر شرفاء آج تک اصغر خان کیس کی صورت عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتاہے کہ اسی موسم گرما کی کسی شام کوئی تیز مزاج جِن خلائی مخلوق کے نمائندے کو طعنہ دے مارے کہ تم سے تو بھٹو کے خلاف ڈھنگ کا مقدمہ بھی نہ بنایا جا سکا۔
اگر اس طرح کے ٹاک شوز شروع ہو گئے اور خلائی مخلوق اور جنات نے اپنے کپڑے نیوز چینلز پر دھوئے تو جہاں ان شوز کی ریٹنگ آسمان کو چھوئے گی، وہاں ہماری شاندار تاریخ کے کتنے ہی راز کھل کر یوں سامنے آئیں گے، جیسے فلمی ہیروئنز اپنے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آنے پر ایک دوسرے کے کردارکے خفیہ گوشوں کو میڈیا میں بے نقاب کرتی ہیں اور ہمارے جنرل نالج میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان ٹاک شوز میں اگر ہردلعزیز رہنما شیخ رشید احمد بھی شامل ہوں گے تو مزا دوبالا ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کسی سنجیدہ اور نازک معاملے پر بات کرتے جنات اور خلائی مخلوق شیخ صاحب کے سامنے لاجواب ہو جائیں اور شو ادھورا چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ اس متوقع ناقابل رشک صورتحال کو میاں برادران کی گہری سازش اور '' قبل از الیکشن دھاندلی‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلی کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ میاں برادران کی کوشش ہے کہ ابھی سے دونوں طاقتوں کے درمیان سردجنگ شروع ہوجائے۔ ایک بھائی کی طرف سے خلائی مخلوق اوردوسرے کی جانب سے جنات کی دہائی دینے پرمخلوقِ مصروف عمل کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے اوردونوں بھائیوں کی طعنہ زنی سے ان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آسکتے ہیں، جس سے سیاسی فضاابھی سے ان کے حق میں ہوسکتی ہے۔
ہماری بات کو تقویت شہبازشریف کی طرف سے اپنے برادر بزرگ کے ساتھ اختلافات کو کھول کر سامنے لانے کی ٹائمنگ سے بھی ملتی ہے۔ عین اس وقت جب انتخابی مہم شروع ہوئی ہے اور سیاسی ماحول گرم ہو رہا ہے، شریف برادران چاہتے ہیںکہ نادیدہ مخلوقات کی توجہ ان کے مشن سے ہٹ جائے اوروہ ن لیگ کو الیکشن ہرانے پراپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے آپس میں صف آراء ہو جائیں۔ تاہم ہر بات کے دونوںپہلوسامنے رکھنا ضروری ہیں۔ حسن ظن رکھتے ہوئے یہ بھی سوچاجا سکتاہے کہ ایک نازک اور حساس مسئلے پر باہمی اختلافات کوکھول کر سامنے لانا دونوں بھائیوں کی کوئی سوچی سمجھی سازش تو نہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ضیاء الحق شہید کے دور میں جب انہیں لیڈر بنایا جا رہا تھا تو بڑے بھائی کی تربیت خلائی مخلوق اور چھوٹے کی جنات نے کی ہو اور اب دونوں کو اپنی اپنی متعلقہ مخلوق ہی اپنے خلاف مصروف عمل نظر آتی ہو۔
خیر!حقیقت جو بھی ہے، ہم نادیدہ قوتوںکو، چاہے وہ جنات ہیں یا خلائی مخلوق، مشورہ دیں گے کہ شریف برادران کے جھانسے میں نہ آئیں اورماضی کی طرح دلجمعی سے اپنافرض منصبی ادا فرمائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ باہمی اختلافات کے اس چکر میں ہمارے انتخابی نتائج ہی گڑبڑ ہو جائیں۔