گزشتہ کالم میںان ''مارشلائی عوامل‘‘ پرچندگزارشات پیش کی گئیں‘ جن کے طفیل ہماراموجودہ بیمار سیاسی کلچر وجود میں آیا۔ آج اس مسئلے پر اہل دانش کی آرا کی روشنی میں اپنے اس نظامِ جمہورکی حقیقت جاننے اور اس کی صحتیابی پرکچھ عرض کریں گے۔ ہمارے دانشوروں کے دو طبقے اس جمہوری نظام پر دو مختلف آراء رکھتے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسی جمہوریت کے تسلسل میں پنہاں ہے۔ یہ لوگ رائج الوقت نظام کو آئیڈیل تو نہیں سمجھتے‘ لیکن اسے مصنوعی‘ دو نمبر یا فراڈ جمہوریت بھی نہیں کہتے۔ وہ خلوص نیت سے سمجھتے ہیں کہ بیڈ گورننس اور عوامی مسائل سے عدم توجہی جیسے مسائل کی ذمہ دار سیاسی قیادت سے زیادہ جمہوری نظام کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہیں۔ ان ''رکاوٹوں‘‘ نے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا اور روزِ اول سے ریاستی امور میں حدود سے تجاوز ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ مراد یہ ہے کہ سیاسی قیادت کو کبھی کھل کر پرفارم کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ورنہ حالات اتنے دگرگوں نہ ہوتے ۔ ان کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے جمہوریت کے پانی کو گدلا کیا جاتا ہے ‘تاکہ وہ دبائو میں رہیں ‘ نیز ملکی حالات اتنے بھی خراب نہیں ‘جتنا شور برپا کروایا جاتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان کے نقطہ نظر کی رو سے اگر عدم مداخلت کی پالیسی کے تحت موجودہ جمہوری نظام کو جاری رہنے دیا جائے تو معاملات خود بخود سدھرتے چلے جائیں گے ۔
دانشور وںاوررہنمائوں کے دوسرے طبقے کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ تو وہ ہے جو اس نظام کو '' مغربی جمہوریت ‘‘کا نا م دے کر سرے سے ہی اس کا منکر ہے۔اس طبقے نے کبھی جمہوریت کو معتبرسمجھاہے ‘نہ عوام نے اسے اپنی نمائندگی کے قابل ۔پس یہ بادلِ نخواستہ جمہوری نظام کاحصہ رہتے ہوئے بھی ہمہ وقت اس کی بساط لپیٹنے والے کسی ''مردصالح‘‘ کی راہ تکتاہے‘ کہ اس کے دال دلیے کے لیے ایوانوں کے درمرگِ جمہوریت پرہی کھلتے ہیں۔ ان لا علاج ہستیوں کا مزیدتذکرہ وقت کا ضیاع ہے ۔ دوسرا حصہ جینوئن دانشوروں کا ہے۔یہ لوگ جمہوریت کے حامی ہیں‘ مگر اس کے حقیقی ثمرات سے بہرہ مند‘ ترقی یافتہ ملکوں کی طرز کا جمہوری نظام چاہتے ہیں ۔ وہ صدقِ دل سے ہمارے موجودہ نظام کو مصنوعی ‘ فراڈ‘ لولی لنگڑی ‘ چیچک زدہ اور موروثی جمہوریت سمجھتے ہیں ‘ جو حقیقی جمہوریت کا بھونڈا اور بد ترین چربہ ہے ۔ وہ اسے جمہوریت سے زیادہ بادشاہت کہتے ہیں ‘ جس میں باپ کے بعد بیٹی اور ماں کے بعد بیٹا یہ لیڈر شپ سنبھالتا ہے ‘ کوئی دوسر اپارٹی لیڈر یا ورکر اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان کے خیال میں موجودہ نام نہاد جمہوری نظام قومی وسائل کی لوٹ مار کا لامتناہی سلسلہ ہے ‘ جس میں دھونس دھاندلی سے برسرِ اقتدار آنے والے اپنی اپنی باریاں لیتے ہیں اور ایک دوسرے کی چوریوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ اس کوڑھ زدہ نظام میں امیر ‘امیر تر اور غریب ‘ غریب تر ہوتا جا رہا ہے ‘جہاں اختیارات کا ارتکاز ''شاہی خاندانوں‘‘ تک محدود ہے ۔ ان کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ جب تک بے رحم احتساب اور انقلابی قسم کی انتخابی ریفارمز نہیں ہوتیں ‘ تب تک اگر ہزاروں سال بھی ایسی مکروہ انتخابات کی پریکٹس جاری رہی‘ تو بھی ان کی کوکھ سے نسل در نسل یہی لٹیرے برآمد ہوتے رہیں گے اور قوم کا خون چوستے رہیں گے ۔
یہ ادنیٰ قلم کار ذہنی طور پر طبقۂ اول کے قریب ہے اور فقط اس جمہوریت (چاہے جیسی بھی ہے ) کے تسلسل ہی کو ملک و قوم کے ہر درد کا درماں ‘ نیز بہترین آمریت کے مقابلے میں بد ترین جمہوریت ہی کو بہتر سمجھتا ہے ‘ تاہم ایک متوسط دیہاتی طبقے کا فرد ہونے کی حیثیت سے روزمرہ زندگی میں بے شمار ایسے سوالات اٹھتے ہیں ‘ جن کے جواب کے لیے یہ کج فہم اپنے استاد دانشوروں کا محتاج ہے ۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ضیاء الحق کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت نے خود اب تک کتنا ڈیلیور کیا ہے ؟ بجا کہ منتخب حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی اور ان کی کارکردگی میں رکاوٹیں بھی حائل تھیں ‘نیز درمیان میں پرویز مشرف کا مارشل لاء بھی آیا ‘تاہم دورانِ اقتدار ہماری منتخب سیاسی قیادت کو عوامی فلاح و بہبود سے کس نے روکے رکھا ہے اور سیاست کو تجارت بنانے اور میگا کرپشن سے سرے محل ‘ مے فیئر فلیٹس ‘ دبئی محلات‘ آف شور کمپنیاں‘ منی لانڈرنگ اور سوئس اکائونٹس جیسے اعمال پر انہیں کس نے مجبور کیا ؟ پرویز مشرف کے بعد تو پیپلز پارٹی اورن لیگ کی حکومتوں نے اپنی اپنی آئینی مدت بھی پوری کی ‘کیا اس عرصے کے دوران انہیں سب سے بڑے عوامی مسئلے یعنی لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کے لیے کسی مقتدر ادارے نے روکے رکھا ہے ؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر بھی انتخابات طاقتور حلقے نہیں ہونے دیتے‘ اور باپ کے بعد بیٹی کو جانشین بنا کر موروثی جمہوریت کی راہ بھی وہی ہموار کرتے ہیں ؟ عوامی ٹیکسوں سے شاہانہ زندگی اور کروفر بھی کسی سازش کا نتیجہ ہے‘ اوراپنے بچوں اور رشتہ داروں کو قومی خزانے میں حصہ دار بنا لینا بھی کسی ایسی سازش کا شاخسانہ ہے ؟ لوگ پوچھتے ہیں کہ ریاستی اداروں کی یہ کیسی '' رکاوٹیں‘‘ ہیں جو سرکاری دفتروں اور ہسپتالوں میں عوام کی عزت نفس مجروح کرنے اور شہریوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کی راہ تو ہموار کرتی ہیں مگر اپنی نا پسندیدہ سیاسی قیادت کو عوامی ٹیکسوں سے کھلواڑ کرنے سے نہیں روکتیں؟ وہ کہتے ہیں کہ عوام نے اگر آمریت میں جوتے کھائے ہیں تو جمہوریت میں بھی پیاز ہی ان کے حصے میں آئے ہیں ۔
ہم جمہوریت کا مقدمہ لڑتے رہیں گے اور آمریت سے انکار کا پرچم بلند رکھیں گے۔جمہوریت پسندوں نے پانچ برس تک ن لیگ کودیے جانے والے عوامی مینڈیٹ کے احترام کی بات کی ہے ‘ تواب پی ٹی آئی کے حق میں بھی یہی راگ الاپتے رہیں گے کہ اس ملک میں حکمرانی کا حق صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندوںکو حاصل ہے ۔ تاہم ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہر دفعہ نئے ولولے اور امیدوں کے ساتھ ووٹ ڈالنے کے بعد یہ جمہوریت ہمارے لیے سوہانِ روح کیوں بن جاتی ہے ؟ اگر جمہوریت عوام کے فیصلے کا نام ہے تو پھر آمریت کے ظہو رپذیر ہونے پر عام آدمی اور ملک کی خاموش اکثریت احتجاج کرنے کی بجائے سکھ کا سانس کیوں لیتی ہے ؟ یہ ہمارے جمہوری رہنمائوںاوردانشوروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے ۔ لوگوں کی اس سوچ کو جاہلیت قرار دے کر اس سے صرفِ نظر کرنا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
عمران خان تبدیلی کانعرہ لے کراقتدارتک پہنچے ہیں۔آج ان کے کندھوں پربیمارجمہوری کلچرتبدیل کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے۔بدقسمتی سے اپوزیشن میں رہ کرپی ٹی آئی نے اسی ٹانگ کھینچ کلچرکوفروغ دیاہے اوراب اپوزیشن جماعتوں کے اتحادکے تیوربھی بتاتے ہیں کہ وہ ایساہی کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔کیاتبدیلی کے داعی عمران خان جواب میں اپنے پیشرورہنمائوں کی وہی انتقامی کارروائیاں دہرائیں گے یااپوزیشن جماعتوں کوپچھلی کوتاہیاں بھلا کرملک کے وسیع ترمفادمیں حقیقی اوروسیع النظر جمہوری کلچرکو فروغ دینے کی دعوت دیں گے؟کیاملک کے جمہوری کلچرمیں کوئی تبدیلی بھی آئے گی ؟سیاسی رہنمائوں کی طرف سے کسی بالغ نظری کا مظاہرہ بھی ہوگا‘یااس ملک کے سوختہ بختوں کو اس دکان میں بھی خسارہ ہی ہوگا؟ (ختم)