گزشتہ برس ہم نے ایک کالم میں افضل راجپوت کی خوبصورت نظم ''اک دروازہ‘‘ کا حوالہ دے کر گزرے وقتوں کی اپنی کچھ '' واردات ہائے قلبی‘‘ کا اعتراف کیا تھا۔ نظم کے ابتدائی اشعار ہیں:
اک دروازے کولوں لنگھدیاں
اج وی قدم کھلو رہندے نیں
دل اندر ای ہس پیندا اے
نین اندر ای رو پیندے نیں
عرض کیا گیا کہ بہت ممکن ہے، بے پناہ مصروفیات کے باوجود افضل راجپوت کی طرح آپ بھی کبھی ایسی جذباتی کیفیت سے دوچار ہوتے ہوں مگر بال بچے داری کی مجبوریاں آپ کو اس دلی کیفیت کی منظر کشی کی اجازت نہ دیتی ہوں اور آپ چپ چاپ آنسو پی کر آگے بڑھ جاتے ہوں۔ البتہ ہم برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم بارہا مرتبہ ایسی جذباتی کیفیت سے گزرے ہیں اور اس کی منظر کشی کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ اس شہر کی گلیوں کے کئی دروازے ہیں، جن کے سامنے سے گزرتے ہوئے آج بھی زمین ہمارے پائوں جکڑ لیتی ہے اور دل کی دھڑکن بے ترتیب سی ہو جاتی ہے۔ دلفریب یادوں کی بارات اتر آتی ہے اور ماضی کے کتنے ہی خوش کن مناظر ذہن کے پردہ سکرین پر طوفان سا بپا کر دیتے ہیں۔ آغازِ جوانی میں ان ''اہل دروازہ‘‘ کے ساتھ ہمارا ایسا جذباتی تعلق رہا ہے کہ آج بھی وہاں سے گزرتے ہوئے دل اندر ہی ہنس پڑتا ہے اور نین اندر ہی رو پڑتے ہیں۔ یہ وہ دروازے ہیں صاحب، لڑکپن میں ہم جن کی گھنٹیاں بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے اور اس تیز رفتار سفر میں پس دروازہ رہنے والوں کی صلواتیں سنا کرتے تھے۔
آج ہم آپ کو اپنی ایسی ہی چند اور وارداتوں کے بارے میں بتائیں گے۔ خدا انہیں دیار غیر میں آباد و شاد رکھے، دروازوں کی گھنٹیاں بجا کر بھاگنے کے کار خیر میں ہمارے گروہ کے سرغنہ ملک شکیل بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ اپنی ان صلاحیتوں کو جلا بخشنے کی خاطر ہمیں شرارتوں کی نئی نئی جہات سے روشناس فرماتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ نے بڑا زرخیز دماغ پایا تھا اور اللہ جانتا ہے کہ اسے خرچ کرنے میں بھی انہوں نے کبھی بخل سے کام نہ لیا۔ ہمارے لڑکپن میں یہ شہر کافی پسماندہ تھا اور گرمیوں میں اکثر حضرات، خصوصاً دیہات سے آنے والے اپنے کندھے پر دھوتی (جسے مقامی زبان میں صافہ یا پرنا بھی کہتے ہیں) رکھ کر چلتے تھے۔ یوں سمجھیں کہ دھوتی سٹیٹس سمبل تھا اور صاحبِ دھوتی اسے اپنے کندھے پہ دھرے احساس تفاخر سے سرشار چلا کرتا تھا۔ یہ دھوتی اتنی مفید اور کثیرالمقاصد چیز ہے کہ دوستوں کی طرف سے پینڈو ہونے کے لاتعداد طعنوں کے باوجود خود ہم آج تک اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ آپ اس سے پسینہ اور گردوغبار صاف کر سکتے ہیں، پردیس میںکوئی مناسب جگہ میسر آ جائے تو اوڑھ کر قیلولہ کر سکتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کے کسی ناگہانی حادثے میں فریق مخالف کے گلے میں ڈال کر اسے قابو بھی کر سکتے ہیں۔ ایک ضمنی سا فائدہ یہ بھی ہے کہ گرمی میں یہی دھوتی باندھ کر نہر میں نہایا جا سکتا ہے۔ اس دوران اگر کوئی پوڈری آپ کے نہر کنارے پڑے کپڑے اٹھا کر بھاگ جائے تو ایسی نازک صورتحال میں آپ کو شرمندگی سے بچانے میں دھوتی کا کردار مسلمہ ہوتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
آمدم برسرِ مطلب! اعتراف یہ کرنا ہے کہ ہم ماضی میں نامور دھوتی چور بھی رہ چکے ہیں۔ میٹرک کے دور کا ذکر ہے، ایک دفعہ میں ملک صاحب قبلہ کے ذہن میں کیا سمائی کہ لوگوں کے کندھوں پر رکھی دھوتیاں چرانے کے مشن پر کمربستہ ہو گئے۔ اللہ معاف کرے، ہم لوگ ان کی قیادت میں فٹ پاتھ پر جاتے شکار کو تاڑتے اور پھرتی سے اس کے کندھے کی دھوتی پر ہاتھ صاف کر کے بھاگ جاتے۔ بعد ازاں کالج کے ابتدائی دور میں ہمارے ہاتھ لگنے والی دو عدد موٹر سائیکلوں نے اس شوقِ دھوتی چرائی کو اور بھی جلا بخشی۔ اثنائے واردات لطف اٹھانے کے وہی چند لمحے ہوتے جب ہمارا شکار اپنی خفت مٹانے کے لیے ہنس دیتا یا با آواز بلند صلواتیں سناتا ہمارے پیچھے لپکتا۔ ہم لوگوں نے بعد از واردات غائب ہونے کی خاطر شہر کی تنگ گلیاں اور غیر معروف رستے ازبر کر رکھے تھ، لہٰذا تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود شکار کے ہاتھ فقط راہگیروں کے قہقہے اور شرمندگی ہی آتی۔ دو برس تک ہم نے مناسب وقفوں سے سرقہ بالجبر کی متعدد کامیاب وارداتیں کر کے لوگوں کی بد دعائیں لیں‘ مگر غلطی یہ کی کہ دھوتیاں اپنے سرغنہ صاحب کے گھر جا کر چھپاتے رہے۔ ایک دن جب ہمارا گروہ ان کے دولت خانے پر اکٹھا تھا تو ان کی والدہ ماجدہ نے خاصے غصے کی کیفیت میں سب کو ملک جی کے کمرے میں بلایا۔ معلوم ہوا کہ وہ کئی دنوں سے اپنے گھر کے خفیہ گوشوں میں چھپائی گئی دھوتیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکٹھی کر رہی تھیں۔ انہوں نے وہاں پڑے رنگ برنگی دھوتیوں کے ڈھیر کی بابت ہم سے سخت الفاظ میں باز پرس کی تو ہمیں احساس ہوا کہ سیانے مالِ مسروقہ کو بروقت ٹھکانے لگانے پر کیوں زور دیتے ہیں۔ برآمدگی ہو گئی تھی، سو ہمارے پاس معافی مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ہم لوگوں نے صدق دل سے دھوتیاں چرانے سے توبہ کی اور پوری سنجیدگی کے ساتھ اس قماش کے کسی اور کام کے بارے میں سوچنے لگے۔
آج ہمیں اپنی بھولی بسری وارداتیں بے سبب یاد نہیں آئیں۔ جیسا کہ استادوں نے فرمایا ہے کہ یہاں جوتا چرائی کی رسم شادیوں کے علاوہ مساجد میں بھی ادا کی جاتی ہے، حالیہ انتخابات کے نتائج دیکھ کر ہمیں بھی احساس ہوا ہے کہ دھوتی چرانے کی رسم متروک نہیں ہوئی۔ یہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی ادا ہو رہی ہے۔ میلوں ٹھیلوں اور سڑکوں پر نہ سہی، پولنگ سٹیشنوں پر ہی سہی۔ ہمیں خیال آیا ہے کہ نادان بچوں کی طرح عوام بھی موقع ملنے پر ایسی وارداتوں سے گریز نہیں کرتے۔ احساس تفاخر سے چلتے کیسے کیسے شرفاء کی دھوتیاں لوگوں نے اڑا لیں کہ کوئی دل ہی دل میں انہیں صلواتیں سنا رہا ہے اور کوئی اپنی خفت مٹانے کے لیے دھاندلی کا واویلا کر رہا ہے۔ چوہدری نثار، شاہد خاقان، عابد شیر علی، طلال، دانیال، قمر زمان کائرہ، سعد رفیق، حنیف عباسی، منظور وٹو، سراج الحق، محمود اچکزئی، اسفند یار ولی اور سب سے بڑھ کر مولانا فضل الرحمٰن۔ ووٹروں نے ووٹ کی پرچی کے ہتھیار سے ایسی ایسی ارفع ہستیوں سے احساس تفاخر چھین لیا، جن کو یقین تھا کہ ان کے کندھوں کی دھوتیاں اڑانے کی کسی میں ہمت نہیں۔
ہمیں سب سے زیادہ افسوس ایم ایم اے‘ خصوصاً اپنے محبوب رہنما مولانا فضل الرحمٰن کی دھوتی کا ہے۔ خدا معلوم صاحبانِ جبہ و دستار کی دھوتیاں اڑانے والوں کے ایمان اور نکاح سلامت بھی رہے ہیں یا نہیں؟ البتہ ایک افسوسناک میڈیا رپورٹ کے مطابق ناقدری کے اس غم میں خود ایم ایم اے کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے اور وہ ایک مرتبہ پھر منتشر مجلس عمل بننے والی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں مایوس کن کارکردگی پر جماعت اسلامی نے اس اتحاد سے علیحدگی کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
ہماری طرح خود مولانا فضل الرحمن بھی اپنے دھوتی کے زیاں پر شدید غم و غصہ کی کیفیت میں ہیں۔ انہوں نے یوم آزادی منانے سے انکار کر دیا اور خدشہ ہے کہ شاید عید بھی نہ منائیں۔ دراصل وہ بھی اپنے اس ادنیٰ عقیدت مند کی طرح سمجھتے تھے کہ ان کا مرغ اذان نہیں دے گا‘ تو صبح نہیں ہو گی۔ صبح زرنگار تو خیر پھر بھی طلوع ہو ہی گئی۔ شرمندگی ہمیں اپنے ان تجزیوں پر ہے، جن میں ہم کہتے رہے کہ انتخابات کا میلہ نواز شریف کی دھوتی چرانے کے لیے لگایا جا رہا ہے۔ حقیقت تو اب سمجھ آئی کہ قومی خزانے سے زرِ کثیر خرچ کرکے اس میلے کا اہتمام محض مولانا کی دھوتی چرانے کے لیے کیا گیا تھا۔ لاحول ولاقوۃ۔