مندرہ بھون ٹریک کی المیہ داستان

سپریم کورٹ میں ریلوے حکام کی ایک مرتبہ پھرسرزنش ہوئی ہے۔سینئرکالم نگارملک فداالرحمن کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے قراردیاہے کہ ریلوے کی سرکاری اراضی ریاست کی ملکیت ہے‘ جسے بیچنے کامحکمہ ریلوے کے پاس کوئی اختیارنہیں۔ عدالت میں ریلوے اراضی کے نیلام نہ کرنے اورمندرہ بھون ٹریک کی بحالی کے ایک عدالتی حکم کی خلاف ورزی پرتوہین عدالت کی درخواست کی سماعت ہورہی تھی۔
نادان گورے نے1916ء میں مندرہ چکوال ریلوے لائن مکمل کرکے اوپن کی تھی ۔یہ لائن یہاںکے بڑے تجارتی مرکزبھون کو کلکتہ سے ملاتی تھی۔ ربع صدی تک یہ ٹریک مسافروں کی سہولت اورسامان تجارت کی نقل وحرکت کے لیے استعمال ہوتارہا‘ پھرحالات نے ایسی الٹی قلابازی کھائی کہ1985ء کے غیرجماعتی انتخابات آگئے۔ ان انتخابات کے ہمارے معاشرے پر چھوڑے گئے انمٹ نقوش میںکرپشن کی نئی نئی جہات بھی شامل ہیں۔ ریلوے حکام کی شاطرانہ حکمت عملی کے تحت پہلے ٹرینوں کے او قات تبدیل کرکے ٹرین کوغیرموثراورغیر منافع بخش بنایا گیا اور پھر منصوبے کے مطابق اسے بندکردیاگیا‘تاکہ مقامی بااثرٹرانسپورٹروں کے کاروبارکو منافع بخش بنایاجاسکے۔ 90 ء کی دہائی کے وسط میںیہ شاندارمنصوبہ مکمل کرنے کی غرض سے ریلوے لائن کواکھاڑکربیچناشروع کردیاگیا۔ گویا گملوں میں لگی پنیری کی افزائش کے لیے برگد کے پیڑکوجڑسے اکھاڑ نے کاآغاز ہوا۔دوسروں کے علاوہ ارشاد احمدحقانی اورمنوبھائی نے اپنے تین تین کالموں میں مندرہ بھون کاتاریخی ٹریک اکھاڑنے کے ظلم پر نوحہ گری کی‘ مگرہونی کو کوئی نہ روک سکا۔اس وقت کے ضلع کے کرتادھرتااوروفاقی وزیرلیفٹیننٹ جنرل(ر)مجیدملک یہ قومی اثاثہ نہ بچاسکنے کی ‘بھاری تہمت اپنے کندھوں پردھرے دنیاسے رخصت ہوئے ہیں۔ تاریخ کے سینے میں یہ ٹریک اتفاق فائونڈری کوکوڑیوں کے بھائوبیچنے کی داستانیں بھی محفوظ ہیں۔
31جولائی2006ء کوسابق صدرپرویزمشرف نے چوآسیدن شاہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ ٹریک بحال کرنے کا وعدہ کیا‘مگر اس کے ایک ماہ بعدبچی کھچی لائن نیلام کرنے کا ٹینڈربھی آگیا۔یوں انگریزکی باقیات میںسے ایک اور 'برائی‘کیفرکردارتک پہنچی۔ہمارے محبوب رہنماشیخ رشیداحمدتب بھی ریلوے کے وزیرہواکرتے تھے۔ان سے یہاں کے عوام کی بے بسی دیکھی نہ گئی۔دلوں کوفتح کرنے کا فن تووہ خوب جانتے ہیں۔سو‘25 فروری2007ء کی سنہری سہ پہرچکوال کے ریلوے گرائونڈمیں منعقدہ جلسۂ عام میں انہوں نے یہ ریلوے لائن دوباہ بچھانے کا اعلان کرکے چکوالیوں کے دل جیت لیے۔اس مبارک موقع پرآپ نے ریلوے اسٹیشن پراس کارخیرکی تختی کی نقاب کشائی بھی کی۔اب کھنڈرنما اسٹیشن کی اس عمارت میں وہ تختی ہے‘ نہ شیخ جی کے اعلان کا کوئی نشان؛حالانکہ آپ نے جلسہ عام میں یہ مژدہ دینے سے قبل واضع طورپرفرمایاتھاکہ انہوں نے جھوٹ بولناچھوڑدیا ہے۔
اس ٹرین میں ہزاروںمسافرمحفوظ اورسستاسفرکرتے تھے ۔یہ سہولت چھن جانے کے بعدعام مسافروں کے لیے تنگ وینوں پرراولپنڈی اسلام آبادکا جاں سوزسفرہے‘ جوخصوصاًگرمیوں میں دہکتے صحرامیں برہنہ پا سفرکے برابرہے‘جبکہ موٹروے کی ایئرکنڈیشنڈبسوں کا مہنگاسفرغریب کے بس کی بات نہیں۔اس ٹریک پرریلوے کے اسٹیشنز اب کھنڈرات کامنظرپیش کرتے ہیں ‘ جبکہ اربوں کی قیمتی اراضی ‘دفاتر اوررہائش گاہوں پرسرکاری اداروں اورقبضہ مافیاکاراج ہے‘نیزریلوے کی عمارتوں سے لوہا‘اینٹیں‘ اورقیمتی سامان چوری ہوچکاہے۔2006ء میں محکمہ ریلوے نے ترقی کی جانب ایک قدم اوربڑھاتے ہوئے ریلوے کی یہ اراضی نیلام کرنے کااشتہاردیاتوملک فداالرحمن نے اس کے خلاف لاہورہائی کورٹ میں رٹ دائرکی۔تب ریلوے حکام نے اشتہارمنسوخ کردیااورٹریک بحال کرنے کاوعدہ کیامگربعدازاں بحالی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔
2009ء میں ملک صاحب نے یہ قومی اثاثہ اکھاڑبیچنے کی 'دلیرانہ واردات‘پرمعاصرمیں کالم لکھا‘جس پر اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمدچوہدری نے سوموٹوایکشن لیاتوچیئرمین ریلوے نے عدالت عظمیٰ کو بتایاکہ یہ ٹریک غیرمنافع بخش تھا‘ لہٰذابندکردیاگیا۔سابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انگریزنے ریلوے لائن مسافروں کوسہولت فراہم کرنے کے لیے بچھائی تھی ‘ اس کامنافع بخش ہو ناثانوی حیثیت رکھتاہے۔بعدازاں وفاقی سیکریٹری ریلوے نے عدالت میں تحریری وعدہ کیاکہ بہت جلدیہ ٹریک بحال کر کے ٹرین چلادی جائے گی۔ستمبر 2009ء میں سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے یہ سرکاری اراضی فروخت نہ کرنے اور نئی ریلوے لائن بچھانے کاحکم جاری کیا۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں‘مگراس حکم پرآج تک عمل نہ ہواہے۔اب اس عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں عظمیٰ کا بنچ توہین عدالت کی کارروائی کررہاہے۔جمعہ کے روزسماعت کے دوران عدالت کو معلوم ہواکہ ریلوے حکام نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے مختلف مقامات پر ریلوے کی اراضی کی فروخت جاری رکھی ہے تو چیف جسٹس نے برہمی کااظہارکرتے ہوئے قراردیاکہ سٹیٹ کی جائیدادکو بیچنے یالیزپردینے کا محکمہ ریلوے کے پاس کوئی اختیارنہیں۔ عدالت نے یہ بیش قیمت جائیداد قبضہ مافیاسے واگزارکرانے کاحکم بھی دیاہے۔
مزیدکارروائی تو اگلی پیشی پرہوگی ‘مگراب تک کے مختصراً عرض کردہ حالات کی بناپر بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ہمارے سرکاری ادارے قومی اثاثوں اورعوامی حقوق سے کھلواڑکرنے میں کتنے ماہر‘نڈراور بے باک ہیں۔ ملکی خزانے اورقومی اثاثہ جات کواپنے اجدادکی وراثت سمجھنااور'فرنگی کی متروکات‘ کومالِ غنیمت جاننایہاںکل بھی صاحبان اختیارکاوتیرہ تھااورآج بھی ہے۔یہ مثال محکمانہ غنڈہ گردی اورعدالتوں کو چکمہ دینے کی بدترین مثال ہے‘جو تبدیلی کے دعوے کا منہ چڑارہی ہے۔ارباب ریلوے بدستورجس روش پرقائم ہیں‘اس کا اندازہ ان کی اس رپورٹ کی صحت سے ہوتاہے ‘ جو گزشتہ سماعت پرعدالت عظمیٰ نے ان سے سرکاری اراضی بیچنے پرطلب کی تھی ۔ اسے پڑھ کرنہ صرف عدالت نے مستردکردیا ‘ بلکہ ریمارکس دیئے کہ ایسی غیرذمہ س دارانہ رپورٹ پر ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ 
دیکھتے ہیں کہ اب ریلوے حکام عدالت میں اپنے اس غیرقانونی فعل کی کیاتوجیح پیش کرتے ہیں۔ امیدہے کہ توہین عدالت کی اس درخواست کی آئندہ سماعت کے دوران مندرہ بھون ریلوے ٹریک کی بحالی پربھی بات ہوگی۔چونکہ عدالت عظمیٰ پہلے ہی یہ ٹریک بچھانے کا حکم دے چکی ہے ‘لہٰذاتوقع کی جارہی ہے کہ عدالت اس آرڈرپرعمل درآمدکی ہدایت بھی دے گی‘تاہم ہماری خواہش ہے ایسے کسی حکم سے قبل ہی ہمارے فیورٹ رہنماشیخ رشیداس کارخیر کا نعرہ مستانہ بلندکردیں۔ورنہ لوگ کہہ سکتے ہیںکہ اگرانتظامی اورترقیاتی کام عدالتوں کے احکامات پرہی ہونے ہیں تووزراء اوران کی وزارتوں کی فوج کے فرائض کیافقط قومی اثاثوں سے کھلواڑکرنے تک ہی محدودہیں؟ شیخ صاحب سے ہماری توقع اس لیے بھی بے جانہیں کہ 2007ء کے برعکس اب وہ تبدیلی کی دعویدار حکومت کے وزیرریلوے ہیں۔یقینااپنی دوراندیش طبیعت کی بناء پرانہیں اپناوعدہ وفاکرنے کے لیے بے چینی سے اسی وقت کاانتظارتھااوراب وہ کسی کوتبدیلی کے دعوے کامزیدمنہ چڑانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
یہ ٹریک بچھانااس لیے بھی ضروری ہے کہ چکوال کی سیمنٹ فیکٹریوں سے روزانہ ہزاروں ٹن سیمنٹ لے کرنکلنے والے ٹرالرزنے یہاں کی سڑکوں کو تباہ کرکے رکھ دیاہے۔اس ضلع میںپائے جانے والے تیل ‘کوئلہ ‘پتھراورنمک کے وسیع ذخائرکی پیداوارکی ترسیل کے لیے بھی یہ لائن ضروری ہے۔یہ پسماندہ ضلع قدرتی وسائل سے مالامال سہی ‘مگروہ جو احمدفرازؔنے کہاہے:سات قلزم موجزن چاروں طرف/اورتمہارے بخت میں شبنم نہیں ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں