حشر گلفشانی کا بہرہ پن

حشر گلفشانی: (ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گھٹنوں پر طبلہ بجاتے گنگنا رہا ہے) لو، تبدیلی آئی ہے، تبدیلی...
سلمیٰ: (کچن سے) ٹھنڈا کرکے کھائیں تبدیلی کے چیمپئن جی۔
حشر گلفشانی: ہائیں! کس نے شیمپئن پی؟ ارے یہ کیسا غیر پارلیمانی الزام لگا دیا تم نے بہو۔
سلمیٰ: (ٹی وی لائونج میں آ کر) غیر پارلیمانی الزام تو آپ لگا رہے ہیں ابا جی! کب سے تبدیلی کا بے سُرا راگ چھیڑ رکھا ہے آپ نے۔
حشر گلفشانی: ارے ہم کیوں بھیروی کا بے سُرا راگ چھیڑیں گے بھلا؟ ہم تو راگوں کو سمجھتے ہیں بیٹا۔ 
سلمیٰ: آپ نے مجھے جلانے کے لیے راگ چھیڑوی چھیڑ رکھا ہے قبلہ۔
بلال: یہ کون سا راگ ہوتا ہے امی؟
سلمیٰ: یہ دیپک راگ جیسا ہوتا ہے بیٹا! آپ اپنا ہوم ورک کرو دھیان سے۔
شاہانہ: (ہوم ورک کرتے ہوئے) اس گھر کے بڑے کبھی اپنے بچوں کو مطمئن نہیں کر پاتے۔ اُس دن ہم خلائی مخلوق کا پوچھتے رہے مگر...
حشر گلفشانی: صحیح کہا بیٹا! ہم بالائی مخلوق کو پوجتے رہے، مگر اب کوئی بالائی مخلوق، کوئی پروٹوکول نہیں۔ تبدیلی آ گئی ہے بچے۔
سلمیٰ: جی تبدیلی آ گئی ، ڈالر ریکارڈ مہنگا ہو گیا ہے۔
حشر گلفشانی: ارے، یہ لہنگا کہاں سے آ گیا بیچ میں، کیا پھر نیا لہنگا درکار ہے؟ شاوش اے بھئی۔
سلمیٰ: (اونچی آواز میں) عوام کے لہنگے کی فکر کریں حضور! ضمنی بجٹ میں نئے ٹیکس اور مہنگائی کا سیلاب...
حشر گلفشانی: ہاں ہاں، توانائی کا سیلاب۔ توانائی کا تو اب ایسا سیلاب آئے گا کہ ہم بجلی ایکسپورٹ بھی کریں گے، دیکھنا تم۔
سلمیٰ: (چلّاتے ہوئے) میں معاشی بحران کی بات کر رہی ہوں بزرگو! معاشی بحران کی ...
حشر گلفشانی: (اسی لہجے میں) میں بھی نئے پاکستان کی بات کر رہا ہوں جوانو!
سلمیٰ: (ہنستے ہوئے) رنگ لائے گی یہ فاقہ مستی، آئی ایم ایف سے قرضہ اور سعودیہ سے ادھار تیل...
حشر گلفشانی: دولت کی ریل پیل؟ ہاں، ضرور ہو گی اب دولت کی ریل پیل۔
بلال: دادا جان! یہ توآپ نے کوئی خواب دیکھا ہے۔
حشر گلفشانی: سب نے احتساب دیکھا ہے دادا کی جان! چوروں کا بے رحم احتساب، جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔
سلمیٰ: (فکرمندی سے) ہمارا تو گھر انتظار علی کی تنخواہ سے چلتا ہے، پتا نہیں اب یہ سرکاری ملازموں کو تنخواہیں بھی دے سکیں گے یا نہیں؟
حشر گلفشانی: ارے کیوں سرکاری ملازموں کو سزائیں نہیں دے سکیں گے؟ جب انہوں نے مگرمچھوں کو نہیں چھوڑا تو یہ ملازم کس کھیت کی مولی ہیں بھلا؟
سلمیٰ: (اونچی آواز میں) میں مہنگائی کا رونا رو رہی ہوں ابا جی! میں کہہ رہی ہوں کہ ہم متوسط طبقہ ہیں اور مہنگائی کا تیز کلہاڑا ہے۔
حشر گلفشانی: کس کا تیز دھارا ہے؟... ہاں میں سمجھ گیا، جمہوری دھارا ہے، ٹھیک کہا تم نے، یہی تو جمہوریت کا اصل دھارا ہے۔
سلمیٰ: (ہنستے ہوئے) مگر تیل ادھارا ہے۔
حشر گلفشانی: ہاں، اب پانی کھارا ہے، جیل کا پانی کھارا ہے۔ جب صاف پانی سکینڈل میں ہاتھ مار رہے تھے، تب بڑا میٹھا تھا۔
سلمیٰ: خدا کا خوف کریں ابا جی! میں کہہ رہی ہوں کہ مہنگائی اب اور بھی بڑھے گی، جب آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ میں توسیع ہو گی تو...
حشر گلفشانی: ضرور ہو گی، جسمانی ریمانڈ میں توسیع ضرور ہو گی بیٹا! انہوں نے کچھ کم تو نہیں لوٹا ملک کو۔
سلمیٰ: آپ باقی تبدیلیوںکو چھوڑیں ابا جی! صرف یہ بتائیں کہ کیا ہمیں پینے کا صاف پانی مل گیا ہے؟
حشر گلفشانی: ارے میں صاف پانی کیس کی بات ہی تو کر رہا ہوں سلمیٰ! تم دیکھ لینا، سب کھایا پیا باہر آئے گا اب‘ بیرون ملک اثاثے...
سلمیٰ: (اسی لہجے میں) اور اب اندرون ملک تماشے (بچے ہنستے ہیں)
شاہانہ: امی! یہ آئی ایم ایف کیا ہے؟
سلمیٰ: عالمی مالیاتی ادارہ ہے بیٹا۔ انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (بڑبڑاتی ہے) ہم جیسے بدنصیب اسی کی مدد سے تو بھوک کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔
حشر گلفشانی: (کان پر ہاتھ رکھ کر) جنگ، کس کے ساتھ جنگ؟... اچھا اچھا، اب میں سمجھا، بد عنوانی سے جنگ؟ ارے میں بھی تو کب سے تمہارے آگے یہی بین بجا رہا ہوں کہ ہم کرپشن کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ گھمسان کی جنگ ہے بیٹا یہ، گھمسان کی۔
بلال: (دادا کی نقل اتارتے ہوئے) نقصان کی جنگ ہے بیٹا یہ، نقصان کی۔
سلمیٰ: توبہ توبہ، آپ دوسروں کی بات سے اپنا من پسند مطلب کیسے نکال لیتے ہیں ابا جی! اللہ معافی، شکر ہے کہ مجھے ایسی عادت نہیں۔
حشر گلفشانی: ہائیں! شہادت نہیں، کیوں ان کے خلاف شہادت نہیں؟ ارے اب تو ان کے اپنے ہاتھ پائوں بھی ان کے خلاف شہادت دے رہے ہیں بیٹا۔ بچوں کے سامنے جھوٹ مت بولو۔
سلمیٰ: اچھا آپ بچوں کے سامنے سچ بول دیں کہ سزا کس بنیاد پر معطل ہوئی؟
حشر گلفشانی: کیا کہا، کون قتل ہوئی؟
سلمیٰ: اگر میں نے بتا دیا کہ کون قتل ہوا ہے تو میرے شوہر کی نوکری چلی جائے گی۔
انتظار علی: (گھر میں داخل ہوتے ہوئے) اجی کیوں نوکری چلی جائے گی؟ ہم سچ بولیں گے تو نوکری جائے گی ناں...
سلمیٰ: (انتظار علی کے ہاتھ سے بریف کیس لیتے ہوئے) مگر مجھے جھوٹ بولنے کا کوئی شوق نہیں۔
حشر گلفشانی: یہی تو میں تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ اب ہمارے گلے میں کوئی طوق نہیں، ہم آزاد ہیں اور کرپٹ پابند سلاسل۔
انتظار علی: آپ توکب سے ہمیں سمجھا رہے ہیں ابا جی، مگر ہم کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئے بھی تو...
سلمیٰ: (انتظار علی سے) آج آپ نے بہت دیرکردی۔
انتظار علی: ہاں، وہ کیا ہے کہ آج کل آفس میں کام بہت ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ زندگی بھی پن چکی ہو گئی ہے۔
حشر گلفشانی: ہائیں، ضیاء الحقی ہوگئی ہے؟ ارے اب کوئی ضیاء الحقی نہیںہو سکتی ہمارے ساتھ (انتظار اور سلمیٰ قہقہہ لگاتے ہیں)
انتظار علی: ضیاء الحقی تو ہو گئی ہے ابا جی! ہم مانیں یا نہ مانیں...
سلمیٰ: ارے چھوڑیں، انہیں چھوڑیں جو تاریخ کے پچھلے چیپٹر میں رہ گئے۔
حشر گلفشانی: کون تاریخ کے گٹر میں بہہ گئے؟
شاہانہ: اف اللہ، اس گھر کے بڑوں کی نہ سمجھ میں آنے والی گفتگو۔
سلمیٰ: تم اپنا کام کرو شاہانہ، اور یہ قالین پر پانی کس نے گرایا ہے؟ یہ تمہاری ہی کارستانی ہوگی۔
حشر گلفشانی: نظرثانی ہوگی، ٹھیک کہا تم نے بہو! سی پیک پر نظرثانی ہوگی، اب یہ منصوبہ عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ہوگا، صحیح معنوں میں۔
انتظارعلی: (سلمیٰ سے) ارے ہاں، آج اس لیے بھی دیرہوئی کہ رستے میں پولیس مقابلہ ہو رہا تھا اور سڑک بند تھی۔ 
حشرگلفشانی: ہیں؟پولیس نے مک مکا کے بعد ڈاکوچھوڑدیے؟
انتظارعلی: (اونچی آوازمیں) چھوڑے نہیں اباجی، پکڑلیے ہیں۔
حشرگلفشانی: اچھااچھا، تبھی میں کہوں کہ جب تبدیلی کی پولیس ریفارمز زوروں پر ہیں تووہ ڈاکوئوں کو کیسے چھوڑ سکتی ہے؟
سلمیٰ: (طنزیہ لہجے میں) جی، یہ ریفارمزکامیابی سے مکمل ہونے کے بعدہی توپولیس ریفارمزکمیشن کے سربراہ نے استعفیٰ دیا ہے۔
شاہانہ: یہ پولیس ریفارمزکیاہوتی ہیں؟
سلمیٰ: یہ کچھ بھی نہیں ہوتیں، تم اپناکام کرو۔
شاہانہ: اگر نہیں پتا تو نہ بتائیں، ڈانٹیں تو نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں