گزشتہ کالم میں ہم نے علامہ حکیم حلویؔنامرادآبادی کولاحق لاتعدادعوارض میں سے فقط ان کے دانشورانہ چال چلن کاتذکرہ کیاتھا۔ان کی عینک سے فکرِاقبالؔ کاجائزہ بھی لیاگیا۔اس پرقبلہ حلویؔ نے ازراہِ کرم ہمیں محبت نامہ بھیجاہے۔ عمیق مشاہدے اور وسیع مطالعہ کی چغلی کھا تا‘فہم و دانش میں گندھاان کا فکر انگیز مکتوب ملاحظہ فرمائیے :
محترم کالم نگار!آداب عرض ہے۔حکیم الامت کے افکار کی تعبیروتشریح اورصحت کی میری عاجزانہ کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنے پرآپ کاممنون ہوں۔ماشاء اللہ! خوبصورت الفاظ اور جملے تو آپ کے سامنے یوں ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ‘ جیسے کوئی لڑ کھڑاتا پوڈری خیرات مانگتے وقت ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ خدا کرے زو ر قلم اور زیادہ ۔
جناب من!اس جاہل معاشرے میں ناقدری کی انتہا ہے ورنہ دنیا کا کون سا مسئلہ ہے ‘ جس کا حل میرے پاس نہیں اور ''لغاتِ اردو‘‘ سے لے کر ''قبرستان کے جنات کی نفسیات‘‘ تک اور''ٹھگوں کے لطیفے ‘‘ سے لے کرہرنوع کی جنتریوںتک ‘وہ کون سی کتاب ہے‘ جو ناچیز کے مطالعہ سے بچ نکلی ہو ؟ اپنے علم و تجربے کی بنا پرجہان وجمہوریت کے فتنوں کی پیداوار ملکی و بین الاقوامی مسائل کے حل کے لیے اپنے گراں قدر خیالات ضبط تحریر میں لاتاہوں ‘مگر افسوس کہ ضبط ہی کرناپڑتا ہے کیونکہ قحط الرجال کے باوجود کوئی بھی اخباریاجریدہ میرے رشحات قلم شائع کرنے کا روادار نہیں ۔ صرف دوشر مناک مثالیں دو ں گا۔پچھلے ہفتے اپنے جواہر پاروں کا بھاری بھر کم بستہ اٹھائے ایک قومی اخبار کے ایڈیٹر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی زبان کی پیدائشی لکنت کے باوجود انہیں قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ‘ مگر موصوف علم و ادب سے پیدل نکلے ۔ ایک مضمون کا آدھا صفحہ پڑھنے کے بعد میرے بستے کو اپنے ہاتھوں سے باندھتے ہوئے کہنے لگے :علامہ صاحب! مجھے تو آپ کے دماغ میں بھی لکنت لگتی ہے ‘کسی ڈاکٹر سے رجوع فرمائیے۔ اورسنیے ‘ایک مرتبہ میں نے اپنی آزاد نظم ایک ادبی جریدے کے مدیر کو ارسال کی ۔ آپ بھی ادب کی باریکیوںسے بے بہرہ ثابت ہوئے۔ آزاد نظم کا عنوان تھا''میں کیوں زندہ ہوں؟‘‘ مدیر کا جواب آیا'' اس وجہ سے کہ تم نے یہ نظم ڈاک کے ذریعے بھیجی ہے ‘‘لاحول واللہ قوۃ۔
بس صاحب! اصلاح احوال کا جنوں سنڈی کی طرح کاٹتا ہے تو دوست احباب کو دعوت پہ بلاتا ہوں اور پر تکلف کھانا کھلانے کے بعد اپنے شہ پارے ان کو پڑھ کر سناتا ہوں ۔ خرچہ تو بہت اٹھتاہے مگرسوچتا ہوں کہ اگر چند لوگ بھی میرے قیمتی خیالات سے مستفید ہو کر اپنی اصلاح کرلیں تو سودا مہنگا نہیں۔چندعلم دوست حضرات کھانے کے بعد اپنے اس یقین کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ خدا میرے قلم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ میرے دسترخوانی رفقا کی غالب اکثریت ان کی بات کویوں بڑھاوادیتی ہے کہ کالم یا کتاب لکھنا تو بہرحال کوئی بڑا کام نہیں ‘ لہٰذا مجھے اپنے قلم کے استعمال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت میں اس سے کوئی بڑا کام لیا جا سکے ۔ میرے استفساپریہ مہرباں فرماتے ہیں کہ آخر حکما نے ازار بند ڈالنے کے لیے بھی تو قلم کو مفید قرار دیا ہے ۔ نا قدری اورجہالت کے اس گھٹن زدہ ماحول میںیہ لوگ میری خدادادصلاحیتوں اورفن کا مذاق اڑاتے ہیں ‘مگرمیری عقابی نظریں دیکھ رہی ہیں کہ مستقبل کا نقاد مجھے اپنے عہد کا عظیم دانشور ‘نامورمحقق ‘ ادیب‘ شاعر اور نجانے کیا کیا لکھتا پھرے گا۔
آپ یقین فرمائیں کہ میرے دل و دماغ پر غبار کا پہاڑ ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں اور اپنے کون کون سے احساس کی شدت اور حدت کو الفاظ کا جامہ پہنائوں ۔ عالم اسلام کے خلاف مغرب کی مکروہ سازشوں کا پردہ چاک کروں یا تہہ در تہہ بحرانوں میں گھرے ملک کا نوحہ لکھوں ؟قوم کے دامان صد چاک کی رفوگری پر توجہ دوں یا اس کی جہالت پر گریہ کروں؟ آن لائن بینکنگ فراڈکوسسٹم کے نامعتبر کمپیوٹرسے منسلک ہونے کاشاخسانہ ثابت کروں یا جادو ٹونے پر اپنی طویل تحقیق کا نچوڑ پیش کروں؟ نقاد بن کر بڑے بڑے ادیبوں اورشاعروں کی املا اور گرامر کی غلطیوں کی اصلاح کروں یا جگنو بن کر قوم کی درست سمت میں رہنمائی کروں؟واللہ‘اگرموقع دیاجائے توچٹکی بجاتے فحاشی اورکرپشن جیسے ناسور کیفرکردارتک پہنچادوں۔چندمنٹوںمیںلوٹی گئی ملکی دولت واپس لانے اورآسمان سے باتیں کرتے ڈالرکو گہری کھائی میں گرانے کاعقل شکن فارمولا بھی پیش کردوں۔آپ کے قیمتی وقت کااحساس کرتے ہوئے نمونے کے طورپرآج قوم کو درپیش فقط ایک نامرادمرض پر انتہائی مختصر الفاظ میں اظہار خیال کر کے اجازت چاہوں گا۔
عزیزم! یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اغیار کی جدید ابلیسی ٹیکنالوجی نے ہماری پر سکون اور با حیا زندگیوں میں ایسا اودھم مچا یا ہے کہ شرفاکے دماغ گھوم کر رہ گئے ہیں ۔بُراہواس انفارمیشن ٹیکنالوجی کا‘ انٹر نیٹ اورسمارٹ فون جیسی خرافات نے ہماری اخلاقیات اور اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ابھی کل کی بات ہے ‘میں اپنی زوجہ چہارم سے سب سے چھوٹے بچے کا فوٹو بنوانے کے لیے اسے اپنے ایک پرانے جاننے والے فوٹو گرافر کے پاس لے کر گیا۔ فوٹو گرافر نے کیمرے سے آنکھ لگائی اور پیار سے بچے کو مخاطب کیا کہ کیمرے کی طرف غور سے دیکھوبیٹا‘ اس میں سے کبوتر نکلے گا۔ دوسری جماعت کا بچہ کسی انڈین فلم کے ہیروجیسے لہجے میں تڑاخ سے بولا ''فوکس ایڈجسٹ کر فوٹو گرافر! جاہلوں والی بات مت کر ...اور ہاں! پورٹریٹ موڈ یوز کرنا‘ہائی ریزولیشن میں تصویر آنی چاہیے ...سالا کبوتر نکالتا ہے کیمرے سے ‘ تیرے باپ نے کبوتر ڈالا تھا اس میں؟‘‘ آپ یقین جانیں کہ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ اگر ہم اغیارکی دکھائی ‘بے حیائی کی اسی سمت چلتے رہے تو ہو چکی دنیا کی امامت اور پوری ہو چکیں اُمہ کی امیدیں‘اپنی امیدوں کے اس مرکز سے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے اپنی روایتی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھاپہ خانہ ‘ بلڈ ٹرانسفیوژن ‘ریڈیو‘ لائوڈ سپیکر اور ہوائی جہاز وغیرہ پر اپنے فتوے گول کر کے نا صرف انہیں تسلیم کیا ‘بلکہ ان کے استعمال میں بھی جُت گئے ۔ ہم نے بلب سے لے کر زندگی بچانے والی ادویات اور ٹیلی ویژن سے لے کر موبائل فون تک ازراہِ کرم ان کی ہر ایجاد کو خرید کر ان کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دیا‘ مگر اغیار کی ریشہ دوانیاں ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں ۔
حضرت ! آج ہمارے معاشرے کی رگوں میں سائنس پرست اور مغربی علوم کے دلدادہ دانشوروں کے بیمار چلن کی بدولت جو زہر پھیل رہا ہے ‘میرے پاس اس کا تریاق موجود ہے ۔ میں اپنی بات مختصر کرتے ہوئے اربابِ اختیار کو پیشکش کرتا ہوں کہ اگر مجھے میڈیا جیسے موثر فورم پر وافر وقت مہیا کیا جائے تو میں اپنی طویل تحقیق کے پر مغز نتائج فلاح انسانیت کی خاطر فی سبیل اللہ پیش کرنے کو تیار ہوں ‘ جن کے مطابق اس خادم نے ایسی تمام ایجادات کو جادو ٹونے کا شاخسانہ ثابت کیا ہے۔ اگر مجھے موقع دیا گیا تو میں یہ انکشاف کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گاکہ خلائی سفر کی ساری داستانیں ناسا وغیرہ کے ڈرامے ہیں ‘نیز نام نہاد مریخ کی تصویریں اصل میں غریب خانے کے پچھواڑے واقع بنجراراضی کے فوٹو ہیں ۔ اب اجازت چاہتا ہوں‘ اگر آپ نے حوصلہ افزائی فرمائی تو آئندہ بھی اپنے فکرانگیزخطوط ارسال کرتا رہو ں گا۔ دعا گو: علامہ حکیم حلویؔ نامرادآبادی۔
پس نوشتـ:گزشتہ کالم کاجومفہوم سمجھ کر قبلہ حلویؔ نے یہ نامہ ارسال کیاہے‘ اس پریہی عرض کیاجاسکتاہے کہ ''ہم دغالکھتے رہے‘ وہ دعاپڑھتے رہے ‘‘(کالم نگار)