انسان کو با وقار جنس بنانے والے ہر مہذب رویے اور معتبر نظام کی بھد اڑانا ہمارے ''فرائض منصبی‘‘ میں شامل ہے۔ جیسے وسیع القلبی، وسیع النظری، معقولیت، رواداری، برداشت، احترام انسانیت، جمہوریت، لبرل ازم اور سیکولرازم وغیرہ۔ روشن خیالی بھی ایسا ہی ایک مہذب مگر مظلوم رویہ ہے، جسے ہم لوگوں کی بے کراں دانش نے بے حیائی سے تعبیر کر رکھا ہے۔ اسے مسترد کرنے والوں کے علاوہ خود نام نہاد روشن خیالوں نے بھی مقدور بھر شکل بگاڑ کر رویہ ہٰذا کو رسوا کیا ہے۔ ہمارے ہاں کئی قسم کے روشن خیال پائے جاتے ہیں۔ چیدہ چیدہ اقسامِ روشن خیالاں ملاحظہ فرمانے کے دوران یاد رہے کہ یہ روشن خیالی کے اس غلط مفہوم کی حامل اقسام ہیں، جو ہماری دانش کی اختراع ہے۔
خفیہ روشن خیال: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ خفیہ طور پر روشن خیال ہوتے ہیں۔ ان کو منافق کہنا خطرے سے خالی نہیں، تاہم چھپے رستم کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ٹو ان ون ہوتے ہیں۔ بظاہر اچھی خصوصیات کے حامی مگر اندر وہی روشن خیالانہ چال چلن کے حامل ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں قدامت پسند اور مذہبی قسم کی شخصیات ہوتے ہیں مگر موقع کی تاڑ میں بھی رہتے ہیں۔ یہ بے حیائی، بے پردگی، فحاشی اور عریانی کے خلاف تقریریں کرتے ہیں‘ مگر چھپ کر اپنے ہینڈ سیٹ پر مجرے اور اس قماش کا دیگر مواد بھی دیکھتے ہیں۔ یہ بظاہر پرویز مشرفوں پر تنقید کرتے ہیں مگر دل ہی دل میں ان کی درازیٔ عمر کی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ ان کو سیاست سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے، لہٰذا نیوز چینلز پر کشمالہ طارق، ماروی میمن، شرمیلا فاروقی اور عائشہ گلالئی جیسی جید سیاست دان خواتین کی باتیں دھیان سے سنتے ہیں اور ان کے بیانات بھی غور سے پڑھتے ہیں۔ یہ بظاہر ''حدود آرڈیننس‘‘ جبکہ دل سے ''تحفظ حقوق نسواں ایکٹ‘‘ کے حامی ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے:
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
نیم روشن خیال: یہ بزدل روشن خیال بھی کہلاتے ہیں، جو آدھے تیتر، آدھے بٹیر واقع ہوئے ہیں۔ روشن خیالی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور احساس گناہ میں مبتلا بھی رہتے ہیں۔ یہ اپنی ذات کی حد تک روشن خیال ہوتے ہیں مگر بال بچوں کو نیکوکار دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر بیوی بچوں میں سے کوئی ان جیسی ''روشن خیالی‘‘ کر بیٹھے تو ان کی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی فیملی کو چھوڑ کر باقی سارا ملک روشن خیال ہو جائے۔ یہ روشن خیالیاں کرتے وقت اپنی عمر کا بالکل لحاظ نہیں کرتے۔ رات کو دیر تک گھر سے باہر رہتے ہیں اور بیگم سے دفتر میں کام کی زیادتی کا بہانہ کرتے ہیں۔ گاہے شام کو سر پر سفیدکپڑے کی ٹوپی پہن کر بیگم سے محفل نعت میں جانے کی اجازت مانگتے ہیں ۔گلی کا موڑ مڑتے ہی ٹوپی اتار کر، اسے تہہ کرکے جیب میں رکھتے ہیں اور تھیٹر میں دیدار کا دیدار کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ شریف لوگ کہلانا پسند کرتے ہیں، جو ''بالرضا‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
مجبور روشن خیال: یہ قابل رحم لوگ ہیں۔ عمر بھر ان کی روشن خیالی، خام خیالی ہی رہتی ہے۔ روشن خیالی پر ان کا ایمان پختہ ہوتا ہے مگر نگوڑی غربت اور وسائل کی کمی ان کے روشن خیالانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہیں۔ ان کی روشن خیالی دال روٹی کے چکر ہی میں پِس کر آٹا ہو جاتی ہے۔ یہ ''میرے خطوط سنبھال کر رکھنا‘‘ برانڈ نظمیں شوق سے پڑھتے ہیں لیکن ان کے یہی خطوط پکڑے جائیں تو صاف مکر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خطرناک بھی ہوتے ہیں، انہیں موقع مل جائے تو انھیاں ڈال سکتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ شعر ہے:
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب، اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
مہا روشن خیال: روشن خیالی جیسے مثبت رویے کو رسوا کرنے میں یہ طبقہ سرفہرست ہے، جو نام نہاد روشن خیالوں کی سب سے خطرناک قسم ہے۔ ان کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی آپ بے حیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ حقیقتاً مادر پدر آزاد واقع ہوئے ہیں۔ ان کے پاس حرام کی بے پناہ دولت ہوتی ہے، جو ان کی ''روشن خیالی‘‘ کی واحد ضامن ہے۔ مغربی تہذیب کے جزوی دلدادہ ہوتے ہیں، جن کی وارفتگی مغرب کی مخصوص آزادیوں تک محدود ہے۔ ان کی قانون پسندی اور ڈسپلن وغیرہ کے یہ قائل نہیں ہوتے۔ ان کی روشن خیالی قانون شکنی، جنسی آزادی اور پانی کا رنگ بدل کر پینے کے گرد گھومتی ہے۔ مغربی ملکوں کے پھیرے یوں لگاتے ہیں، جیسے عام آدمی کوٹ مومن سے سرگودھا جاتا ہے۔ یہ منافق نہیں ہوتے اور اندر باہر سے مع اہل و عیال روشن خیال ہوتے ہیں۔ یہ پوش سیکٹروں اور پنج تارہ ہوٹلوں میں پائے جاتے ہیں۔ نائٹ کلبوں، مساج سنٹروں میں جانا اور مخلوط محفلوں میں ناچنا ان کی اہم مصروفیات ہیں۔ ان کو یورپ کے کلبوں کے نام اور مقام ازبر ہوتے ہیں لیکن قائد اعظم کا اصلی نام پوچھا جائے تو انگریزی لہجے میں ''علی محمد‘‘ بتاتے ہیں یا سوچ کر کہتے ہیں ''آئی تھنک، مسٹر جناح‘‘ جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم روشن خیال ہیں تو غریب روشن خیالی بال کھولے بین کرتی ہے۔
سرکاری روشن خیال: یہ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں اور ''چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی‘‘ کے مقولے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ پرویز مشرف دور میں ساون کے حشرات الارض کی مانند دیوانہ وار نکل آئے تھے۔ ان میں سے کئی قدامت پسندانہ روایات کے امین ہیں مگر اپنی نوکری پکی کرنے کی خاطر روشن خیالی پر ایمان لے آئے، جیسے آج انہوں نے تبدیلی کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ ان میں وقت کے ساتھ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے اور یہ اس لحاظ سے روشن خیال ہیں کہ بوقتِ ضرورت کمال مہارت سے اسلام، روشن خیالی یا تبدیلی کے امین بن کر ابھر سکتے ہیں۔ فاضل روشن خیالاں کے نزدیک ملک و قوم کی خدمت ہی ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہے، چاہے وہ بذریعہ ضیاء الحقی ہو، بوساطت روشن خیالی یا بہانۂ تبدیلی۔ ان میں بے پناہ لچک ہوتی ہے، جو بوقت ضرورت جہادی کیمپ قائم کر لیتے ہیں اور موسم بدلنے پر ان کا صفایا کرنے والی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قدرت کا معجزہ دیکھیں کہ ''حدود آرڈیننس‘‘ والے بھی یہی اور ''تحفظ حقوق نسواں ایکٹ‘‘ والے بھی یہی۔ شریعت بل والے بھی یہی اور روشن خیالی کے ٹھیکیدار بھی یہی۔ قومی خزانے کے ساتھ بد معاملگی کرنے والے بھی یہی اور احتساب کے پُر جوش حامی بھی یہی۔ عوام کا معیار زندگی بلندکرنے والے بھی یہی اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ زنی کے مرتکب بھی یہی۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے والے بھی یہی اور چوروں کے سرپرست بھی یہی۔ ''باوردی صدر‘‘ منتخب کرانے والے بھی یہی تھے اور ''تبدیلی‘‘ کی اگلی صفوں میں بھی یہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں نعت سن کر کمالِ فن سے آنسو ٹپکا لیتے تھے، مشرفی دور میں بھنگڑے ڈالتے تھے، شریفی دور میں ترقی کے ڈھول بجاتے تھے اور آج تبدیلی کے گرد جھومر بھی ڈال رہے ہیں۔
حقیقی روشن خیال: یہ اعتدال پسند لوگ ہیں، جو کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں۔ ان کی بڑی خامی یہ ہے کہ سوچنے جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ نادان پورے ملک کو روشن خیال دیکھنا چاہتے ہیں اور تمام عمر ایک وسیع النظر سماج کے قیام کے لیے تبلیغ جاری رکھتے ہیں، جو نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوتی ہے۔ یہ پرویز مشرف سے پہلے بھی روشن خیال تھے، ان کے بعد بھی روشن خیال ہیں اور آئندہ بھی روشن خیال ہی رہیں گے۔ کم بخت ہوتے آٹے میں نمک جتنے ہیں۔