شوقِ سیاحت کا ایک ناخوشگوارقصہ شایدکبھی عرض کیاتھا۔ مسافروں کو تھائی لینڈ سے بذریعہ سڑک ملائیشیا کا طویل سفر درپیش تھا ۔ لگژری مسافر گاڑی میں درجن سے زائد سیاح سوار ہوئے ۔ ہم دو نیک روحوں کے سوا باقی سب مغربی ممالک کے اخلاق باختہ مردوزن ۔ حیا کے پتلے دونوں درویش لمبی مسافت سے کچھ لطف اٹھانے کے خواہاں تھے‘ مگر حیا سے عاری گور ی چمڑی والے اپنی ذات یا ساتھی میں گم۔ اپنا آپ منوانا پڑتا ہے ۔ ہمارے درویش دوست نے کہا ''کچھ ہنگامہ چاہیے خان جی !ہنگامہ ‘ کوئی سفرِ آخرت تو نہیں ‘‘۔ ہم نے ہمت کی اور سیٹ سے اٹھ کر ہمسفروں سے خطاب کیا کہ ساتھیو ! ہم سب اس دنیا میں مسافرانِ چند روزہ ہیں ‘ پس سفر یادگار ہونا چاہیے ‘ زندگی کا ہو یا لاری کا۔ گوری چمڑی والا تو ویسے ہی بے باک ہے ‘ سو انہیں یہ دعوت پسند آ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے برف پگھلنے لگی۔ پہلے ہم عاجزوں نے اپنا اور ملک ِ نیک کا تعارف کرایا ؛ چونکہ معاملہ اپنی عزت اور قومی وقار کا تھا ‘سو زیب داستاں دور تک دراز کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی گئی ۔ ولایتی سیاحوں کا جنرل نالج خاصا کمزور تھا ۔ انہوں نے ہماری ہر بات کی سر ہلا ہلا کرتائید کی اور متاثر ہوئے‘ پھر اہل مغرب اپنا اپنا تعارف کرا کے جو کھلے تو بے تکلفی کی آنچ پر ساری برف پانی بنا دی ۔ سیاہی مائل تھائی ڈرائیور کا نام خاصا مشکل تھا۔ ہم نے اس کا نام شوکت رکھ دیا‘ جو اس نے بخوشی قبول کیا ۔ گوریاں اسے مسٹر شوکت کہہ کے چھیڑتیں تو کم بخت کپڑوں سے باہر ہوجاتا اور گردن گھما کر بندر جیسے اپنے دانتوں کی نمائش کر کے کہتا '' می شوکت ‘ می شوکت‘‘ ۔
روایتی جذبہ ٔخدمت نے اکسایا تو ہم حاتم طائیوں نے سیاحوں میں فروٹ بھی تقسیم کیا۔ جب خوب دھاک بیٹھ گئی تو ہمیں رہبری کی ''فطری‘‘ خواہش نے آ لیا۔ ہمارے دوست نے ہمسفروں سے عاجزانہ خطاب کیا کہ ہم دونوں آپ کے خادم ہیں ‘ پس اگر کسی کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو بلا جھجک ہم سے رجوع کرے ۔ وہ تو جیسے پہلے ہی اس مہرباں رہبری کے سائے میں آنے کو تیار بیٹھے تھے ۔ اللہ معاف کرے ‘ بعد کے سفر میں ان خادموں کی ہدایت پر کسی نے مرغ کی آواز نکالی ‘کسی نے گانا سنایا اور کسی نے مجرا کیا۔ ایک نابغے نے تو چلتی بس کی چھت سے الٹا لٹک کر بھی دکھایا۔ دو برگزیدہ ہستیوں کی ولولہ انگیز قیادت میں زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور سفر جاری تھا کہ اچانک بارڈر آ گیا۔ تھائی امیگریشن سے فارغ ہوکر آگے نکلے تو ملائیشیا کے امیگریشن آفس سے ایک باوردی آفیسر نکلا اور نہایت شائستگی سے بولا کہ آپ لوگ گاڑی ہی میں تشریف رکھیں اور مجھے اپنے اپنے پاسپورٹ دے دیں‘ میں انٹری کی مہریں لگا کر واپس کر جاتا ہوں۔ قافلے کے دونوں ہر دلعزیز لیڈروں نے سب کے پاسپورٹس اکٹھے کیے اور آفیسر کو دیتے ہوئے تحکمانہ انداز میں کہا ''ذرا جلدی آنا‘ ہمیں دور جانا ہے‘‘ تاہم اس نے دیر لگائی تو ہم نے گورے سیاحوں کو تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں ‘ ہم ہیں نا ں! اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ وہی آفیسر دو عدد سبز پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑے تیزی سے آ رہا ہے ۔ آتے ہی کرخت لہجے میں گویا ہوا کہ یہ پاسپورٹ کس کے ہیں؟ نیکو کاروں کا پہلے ایمان خطرے میں تھا اور اب عزت ‘ مگر مجبوراً کھڑا ہونا پڑا ۔ کم بخت غیر مسلموں کے سامنے اپنے دونوں اسلامی بھائیوں سے درشت زبان میں بولا: پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تم دوپا کستانی مسافر بھی سوار ہو ؟ اب نیچے اترو اور اپنا سامان نکال کر دفتر کے اندر چلو ۔بس میں سکوت چھا گیا۔ ہر دو مسافران ِ چند روزہ اپنارخت ِسفر اٹھائے مشتبہوں کی طرح بھاری قدموں سے اندر چل دیئے ۔ دربار میں اربابِ امیگریشن نے درویشوں کو گھیر لیا اور سامان اور جامعہ تلاشی کے بعد سوال و جواب کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ اب بس چل رہا تھا نہ بس چل رہی تھی ۔ گھنٹے بعد لیڈران کلیئر ہو کر واپس آئے تو اپنے '' عوام ‘‘ سے آنکھیں ملانے کے قابل نہ تھے ۔ دھمال در دھمال یہ کہ اسی بے مروت آفیسر نے آ کر گوروں سے معذرت کی کہ ان دو مشکوک پاکستانی مسافروں کی وجہ سے آپ کو زحمت اٹھانا پڑی ‘ورنہ ہم تو آپ جیسے معزز مہمانوں کو چند منٹوں میں کلیئر کردیتے ہیں؛ اگرچہ ہم نے ''عوام‘‘ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ امیگریشن کے اعلیٰ حکام ہمیں مستقل اپنے وطن میں ٹھہرانے پر بضد تھے‘ تاکہ ان کے ملک میں قیادت کا بحران حل ہوسکے ‘ اسی لیے ہمیں دیر ہوئی‘ مگر اب فقیروں کی ذات اور بات میں کوئی وزن نہ رہا تھا‘ سو جو کبھی لیڈر تھے ‘ اب پناہ گزینوں جیسی صورت لیے سیٹوں میں دبک گئے ۔ برف پھر سے جم گئی ۔ اخلاق باختہ مردوزن دوبارہ اپنی ذات یا ساتھی میں گم ہو گئے اور بندر کے دانتوں والے ڈرائیور نے بھی شوکت سے تبدیل کر کے اپنا وہی اوٹ پٹانگ سا نام رکھنے کا اعلان کردیا۔ گوروں کی نظروں کا طنز سہنے کی ہمت نہ تھی ‘ لہٰذا ہر دو برگزیدہ ہستیوں نے باقی کا سفر ان سے آنکھیں چرا کر طے کیا؛ حتیٰ کہ سمندرپارکرنے کی غرض سے گاڑی کو فیری میں سوارکیاگیا‘تواس دلفر یب ماحول میں بھی‘جب خیرہ کن جزیرۂ پیناگ کے برقی قمقمے سمندرکے پانی میں جھلمل کرتے جادوئی منظرپیش کرتے تھے‘سمندرکاسکوت طاری رہا۔
شوقِ سیاحت کے مارے اس مسافرنے آج بحیثیت بدیانت اورشدت پسند قوم‘ اپنی شہرت پرنہیں کڑھنا ‘ اپنے بچوں کو دودھ تک خالص نہ پلانے کی بات بھی نہیں کرنی ‘ جعلی ادویات اوردو نمبر اشیائے خوردونوش کی بکواس بھی نہیں کرنی ۔ دل کے مریضوں کو جعلی سٹنٹ ڈالنے اور گردے چوری کرنے کے قصوں پر بھی وقت ضائع نہیں کرنا۔ ٹیکس چور کلچر کے خلاف بے مغز بھاشن بھی نہیں دینا ۔ دنیا میں دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے اپنا نام نامی‘ اسم گرامی نکل آنے کا ماتم بھی نہیں کرنا‘اپنی کرپشن ‘ کشکول گردی ‘ سمگلنگ اور جعلی ویزوں کی شہرت کا رونا بھی نہیں رونا؛حتیٰ کہ ایسی لاتعداد خصوصیات کی بنا پر دنیا کے کمزورترین پاسپورٹس کی فہرست میں سبزپاسپورٹ کی بے توقیری کا نوحہ بھی نہیں پڑھنا۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہم دو نیک سیرت دوست آج بھی سیاحوں کی اسی بس میں سوار ہیں ۔ ذلت کا احساس ہمیں اس گاڑی سے اترنے نہیں دیتااور ہمارا سفر آج بھی ملائیشیا کے امیگریشن آفس کے سامنے رُکا ہوا ہے ۔کچھ مسافروں کی قسمت ہی ایسی ہوتی ہے‘ جیسے قائداعظم کی رحلت کے بعد منزل کی جانب رواں ہمارا سفر رک گیا تھا اور آج بھی رکا ہوا ہے؛البتہ حالات وواقعات سے بے خبریہ مسافر آج نئی حکومت کے پہلے سودن کی کاردکردگی پراساتذہ کے تجزیے پڑھتاہے ‘توان کی روشنی میں لگتاہے کہ شایداس بداخترقوم کا رکا ہواسفررواں ہونے کوہے۔اس کارکردگی کوتسلی بخش تو قرارنہیں دیاگیا ‘تاہم روشن مستقبل کی جانب سفرکاآغاز ضرور کہا جا رہا ہے۔ عمران خان کو جو باتیں اپنے ہم عصررہنمائوں سے ممتازکرتی ہیں ‘ ان میں ملک وقوم کی ترقی کے لیے ان کاعزم اورولولہ اوریہاں کی مایہ نازکرپشن سے ان کا دامن پاک ہوناشامل ہیں۔وہ خوش قسمت ہیں انہیں اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے کے لیے ریاستی اداروں کا تعاون حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شدت پسندگروہوں پرکافی حدتک قابوپالیاہے ‘جو دنیامیں ہماری بدنامی کے علاوہ ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔انہیںاندرون ملک قابل لحاظ عوامی پذیرائی کے علاوہ اوورسیزپاکستانیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ملائیشیا ہمارے وزیراعظم کارول ماڈل ہے اوروہ اس کی تقلید میں وطن عزیزکوآگے لے جانے کے خواہش مندہیں۔اگروہ ملائیشیا کے اتباع اور اس کے تجربات کی روشنی میں وطن عزیزکاقائداعظم کی رحلت کے بعدعشروںسے رکاہواسفررواں کرنے میں کامیاب ہوگئے‘ توہم مہذب قوموں کی صف میں شامل ہوجائیں گے اورہردومسافرانِ خستہ کاملائیشیاکے امیگریشن آفس کے سامنے برسوں سے رکاسفر بھی رواں ہوجائے گا۔