"ZFC" (space) message & send to 7575

فلمی پالیسی

سُنا ہے پاکستان کی پہلی فلم پالیسی بن رہی ہے۔ بہت خوش آئند خبر ہے۔ فلم انڈسٹری سے وابستہ شراکت داروں سے مشورہ جاری ہے۔ ایک طرف فلم ساز ہیں۔ فلم بنانے میں اُن کا ساتھ دینے کے لیے سکرپٹ رائٹر، میوزک ڈائریکٹر، ہدایت کار، سٹوڈیو کے مالک، تکنیکی ماہرین، سرمایہ کار، اداکار اور اداکارائیں ہیں۔ دوسری طرف حکومت ہے‘ جو انڈسٹری سے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ اس کی بھی ذمہ دار حکومت ہے کہ فلم ملکی مفاد کا تحفظ کرے اور اخلاقی اقدار کی حدود و قیود سے باہر نہ نکلے۔ اس تکون کی تیسری سمت فلم بین طبقہ ہے۔ اُس کی اپنی پسند، ناپسند ہے۔ اُسے دکھانے کے لیے حکومت جس فلم کی منظوری دیتی ہے، اُسے دیکھنے یا نظر انداز کرنے کا فیصلہ وہ اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے۔
جس طرح لکھاری اور قاری کے درمیان ایک نادیدہ کردار، چھاپنے والے کا ہے، اسی طرح فلم بنانے اور دیکھنے والے کے درمیان بھی ایک کردار ہے جس کے بغیر فلم دکھائی نہیں جا سکتی۔ وہ کردار تقسیم کار، نمائش کنندہ اور سینما کا مالک ہے۔ اگر سینما نہیں ہو گا تو فلم بین، ٹیلی وژن یا ڈی وی ڈی کے سہارے فلم دیکھ تو سکتا ہے مگر فلم سازی میں کی ہوئی سرمایہ کاری واپس نہیں آ سکتی۔ خدشہ یہ ہے کہ حکومت پالیسی بناتے وقت اِس اہم شراکت دار کو نظر انداز کر دے گی۔ جب بھی فلم پالیسی پر غور ہوا، میڈیا نے اداکار اور اداکارائوں کی خوبصورت تصاویر چھاپنے کے ساتھ اُن کے خیالات کو نمایاں کیا۔ اداکاروں سے ہٹ کر اگر نگاہ کسی اور طرف گئی تو چند فلم ڈائریکٹر اور فلم سازوں پر توجہ ہوئی۔ پاکستان میں فلم انڈسٹری کی زبوں حالی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے فلم انڈسٹری کا پس منظر دیکھنا ضروری ہے۔ 
فلم عوام کو تفریح فراہم کرتی ہے۔ انگریزی زبان میں اسے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انٹرٹینمنٹ یا تفریح کے دوسرے مطالب دیکھے جائیں تو اُن میں ''غمِ دور کرنا‘‘ ''دل بہلانا‘‘ ''دل لگی کرنا‘‘ یا ''ہنسی مذاق‘‘ شامل ہیں۔ ایک داستان ہے جو بڑی سکرین کے اوپر دکھائی جاتی ہے۔ اس صنعت کے سرمایہ کار کی نظر تو فلموں بینوں کی پسند ناپسند کا اندازہ لگانے پر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ نہ تو مخصوص نظریات کی ترویج چاہتا ہے نہ اُس کے کندھے معاشرے کا اخلاق سدھارنے کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں۔ سنسر بورڈ نے جو شرائط مقرر کی ہیں اُن کی پاسداری کرنا لازم سہی مگر وہ اِسے ایک ناروا پابندی سمجھتا ہے۔ 
برِصغیر پاک و ہند کی فلم انڈسٹری مشترکہ تھی۔ فلم بینوں کی پسند اور ناپسند کا خیال اِس حد رکھا جاتا تھا کہ مسلمان اداکار اور اداکارائیں بخوشی اپنے نام تبدیل کرکے ہندو نام رکھ لیتے تھے۔ یوسف خان پشاور سے آئے اور دلیپ کمار بن گئے۔ موسیٰ رضا نے سید زادہ ہونے کے باوجود سنتوش کمار کا روپ دھار لیا۔ ہزارہ کے تنولی خاندان کی مسلمان بیٹی، مدھو بالا کے روپ میں پردۂ سیمیں پر جلوہ گر رہی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی فلم انڈسٹری میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ اگر ہوئی تو بس اتنی کہ ہندوئوں کے چھوڑے ہوئے پنچولی فلم سٹوڈیو کو میڈم نور جہاں اور شوکت حسین رضوی کی ملکیت میں دے کر شاہ نور بنا دیا گیا۔ پاکستانی فلموں میں اسلامی مجاہد کا کردار ادا کرنے والے ہیرو نے اپنے ہندوآنہ نام ''سُدھیر‘‘ کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ عوام نے اُنہیں مجبور نہ کیا کہ وہ اپنے اصل اسلامی نام پر واپس آئیں۔ نہ کوئی اختلاف رائے تھا، نہ ردِ عمل کا خدشہ۔ پاکستان بننے کے بیس پچیس سال بعد بھی کوئی معترض نہ ہوا۔ ہندوستان سے فلمیں درآمد ہو رہی تھیں۔ نئے سینما گھر تیزی سے تعمیر ہوئے۔ اور جب ''جال ایجیٹیشن‘‘ کے نتیجے میں ہندوستان سے فلمیں آنا بند ہوئیں تو تب بھی پاکستان میں اتنے سینما تھے کہ فلم انڈسٹری اپنے پائوں پر کھڑی رہی۔ 
بھٹو کے دورِ حکومت تک اچھی فلمیں بھی کامیاب ہوتی تھیں اور بُری فلمیں بھی۔ جس طرح ایک زمانے میں ہالی وڈ کی فلمیں ایک بندوق بردار، ''کائو بوائے‘‘ کے گرد گھومتی تھیں اُسی طرح احمد ندیم قاسمی کے افسانے کا گنڈاسا بردار ہیرو، مولا جٹ کا رُوپ دھار کر عوام میں مقبول ہوا۔ اِس قسم کی تبدیلیاں عوامی پسند میں وقت کے ساتھ آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں۔ فلم انڈسٹری پر منفی اثرات ضیاء الحق دور میں شروع ہوئے۔ اِس صنعت کا تعلق دل لبھانے کے ساتھ ہے۔ پردۂ سیمیں پر موسیقی کے زیروبم کے ساتھ اعضا کی شاعری فلم کا لازم جزو تھا۔ ضیاء الحق کی سوچ مختلف تھی۔ ٹیلی وژن بے بس تھا۔ اس کا قبلہ اُنہوں نے درست کر دیا۔ انور مقصود کا یہ جملہ کہ 'ٹیلی وژن کی حیثیت گھر میں ایک بزرگ کی سی ہے جو شام چار بجے کے بعد چہرے سے کپڑا اُتارتا ہے اور نصیحتیں شروع کر دیتا ہے‘ اُس زمانے کے ٹیلی وژن کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ ٹیلی وژن پر اِس تبدیلی کو عوام نے بہ امر مجبوری قبول کیا مگر فلم بارے پالیسی نے نیا رنگ دکھایا۔ سینما سکرین پر ''کیا نہیں دکھایا جائے گا‘‘ کی فہرست طویل ہوئی تو عوام نے منہ موڑ لیا۔ ٹیلی وژن ہو یا فلم یا پرنٹ میڈیا ضیاء الحق کی سوچ کا اندازہ شکیل عادل زادہ کے اس قصے سے ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں نیوز پیپر ایڈیٹرز کی میٹنگ میں ضیاء الحق مہمان خصوصی تھے۔ شکیل عادل زادہ کا تعارف ہوا تو اُنہوں نے سب رنگ کی مقبولیت کا راز جاننا چاہا۔ اگلے روز بالمشافہ ملاقات میں سب رنگ کا پرچہ دیکھ کر ضیاء الحق نے پوچھا کہ اِس میں مذہبی مضامین کتنے فیصد ہیں۔ جواب ملا کہ ایک حصہ اس شعبے کے لیے بھی مختص ہے اور مضامین عام طور پر تصوف سے متعلق ہوتے ہیں۔ ضیاء الحق نے سرورق پر خواتین کی تصویر دیکھ کر پوچھا کہ مردوں کی تصویر کیوں نہیں چھاپی گئی۔ جواب میں مردِ قلندر کا سیدھا سادا ردِ عمل تھا۔ معصومیت سے وضاحت کی کہ عورت کی تصویر میں دلکشی زیادہ ہے۔ ضیاء الحق پھر گویا ہوئے اور کہا کہ سرورق پر مردوں کی تصویریں بھی چھاپا کریں۔ اس ہدایت کے بعد اُنہوں نے از خود ہنستے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میری تصویر چھپے۔
اُن دنوں سب رنگ کی اشاعت لاکھوں میں تھی اور اخباری کاغذ کا کوٹہ منظور تھا۔ مختصر ملاقات کا شاخسانہ تھا کہ اخباری کاغذ کا کوٹہ بند کر دیا گیا۔ بازار سے کاغذ خریدنے کے سبب سب رنگ کی اشاعت مہنگی ہوئی مگر خوش اطوار مدیر نے ضیاء الحق کے اس امتیازی سلوک پر نہ کوئی احتجاج کیا، نہ قارئین کو اپنی بپتا سنائی۔ اُنہوں نے پرچے کی ہیت اور آرائش میں تبدیلی نہ کرتے ہوئے کہانیوں کے معیار کو مزید بلند کرنے پر محنت کی۔ قارئین نے ساتھ دیا اور خدا خدا کرکے ضیاء الحق کا دور ختم ہونے پر اخباری کوٹہ بحال ہو گیا۔ 
فلم انڈسٹری کا آشیانہ تو عوامی پسند کی شاخِ نازک پر ہوتا ہے۔ نظریاتی فلمیں صرف مالی امداد سے بنتی ہیں۔ وہ میسر نہ تھی۔ اُسی زمانے میں وی سی آر کا نزول ہوا۔ وڈیوز کی کرائے پر دستیابی عروج پر پہنچی تو سینما کی مالی منفعت کا سورج غروب ہو گیا۔ دھڑا دھڑ سینما ہال گرا کر پلازہ بنے۔ سینما ہال اس حد تک کم ہو گئے کہ فلم کی لاگت وصول کرنے کا امکان ختم ہوا تو فلمیں بننا بند ہو گئیں۔
مشرف دور میں ہندوستان سے فلموں کی درآمد شروع ہوئی۔ اب شاپنگ پلازہ کے اندر یا نئی ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اِکا دُکا چھوٹے چھوٹے سنے پلیکس تعمیر ہو رہے ہیں۔ ایک سکرین کی لاگت پانچ کروڑ سے زائد ہے۔ لوگ سرمایہ کاری کا قدم پھونک پھونک کر اُٹھا رہے ہیں۔ 2006ء میں ''خدا کے لیے‘‘ فلم کی نمائش ہوئی تو صرف بیس سکرینیں دستیاب تھیں۔ آج اُن کی تعداد تین چار گنا بڑھ چکی ہے۔ اسی شرح سے فلم ساز کو فائدہ ہوتا ہے۔ اگر یہ تعداد بڑھتی رہی تو منافع بڑھے گا، سکرپٹ بہتر ہو جائیں گے اور فلموں کی کوالٹی بھی۔ حکومت کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ احساس ہونا چاہیے کہ سینما سکرین کی تعداد میں اضافے کی واحد وجہ ہندوستان سے فلموں کی بلا تعطل درآمد ہے۔ پچھلے چند ماہ یہ درآمد پابندی کا شکار رہی۔ لوگوں نے سینما آنا کم کر دیا۔ سینما کے مالک نقصان اٹھاتے رہے۔ ایک دفعہ پھر سینما کی منفعت پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ 
صرف مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے کہ فلم انڈسٹری میں جو صحت مند رجحان پیدا ہوئے ہیں اُس کی واحد وجہ سینما سکرین میں سرمایہ کاری ہے۔ صرف اُس پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اگر نئے سنے پلیکس بھی دکانوں میں تبدیل ہو گئے تو کوشش کے باوجود پاکستان میں فلم انڈسٹری کا دوبارہ احیا ممکن نہیں رہے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں