چچا سام! پاکستانی قوم بہت خوش گمان ہے۔ آپ کے نئے صدر نے الیکشن کے دوران اعلان فرمایا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات طے کروائینگے۔ جب صدر ٹرمپ نے الیکشن جیتا تو ہماری توقعات اور بڑھ گئیں۔ یہ سوچ کر آپ کو خط لکھے کہ نئے صدر غیر روایتی انداز میں سوچتے ہیں ،ممکن ہے جو کہتے ہیں وہ کر دکھائیں۔ خط کا جواب تو آپ دیتے نہیں۔ میری گزارشات پر اپنا ردِ عمل دینے کیلئے میرے خواب میں تشریف لائے۔ میں نے وضاحت کی کہ دنیا کی دوسری قومیں‘ جن کے عوام غربت کا شکار ہوں‘غیر ضروری محاذ آرائی پر وسائل برباد نہیں کریں گی‘ مگر پاکستان اور ہندوستان کئی دہائیوں سے قیمتی وسائل اس بے آب وگیاہ برفانی تودے پر قربان کر رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ آپ صدر ٹرمپ سے سفارش کرینگے کہ وہ ہندوستان کی قیادت کو ثالثی پر رضامند کر لیں‘ مگر آپ خواب میں آئے، آپ کیساتھ سیاہ چشمے پہنے لمبے تڑنگے امریکیوں نے میری خوب خبر لی۔ یوں لگا جیسے میں کسی امریکی ''جے آئی ٹی‘‘ کے سامنے پیش ہوا ہوں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ صدر مودی کی امریکہ یاترا کے دوران آپ کا رویہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔
انکل سام! یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہم آپ کے تابع فرمان رہے‘ مگر پوری کوشش کے باوجود ہماری شکر گزاری آپ کی توقعات پر پوری نہیں اُتری۔ پچاس کی دہائی میں پاکستان غذائی قلت کا شکار ہوا تو آپ نے ہمیں مفت امریکی گندم کا تحفہ بھیجا۔ ہم احسان مند ہوئے۔ منٹو نے اپنے خط میں اس بات کا ذکر اس طرح کیا ''میرے پاکستان کو آپ نے مفت گندم بھیجا۔ یہ غریب بھی تسلیم کرتا ہے۔ کراچی میں ہم لوگوں نے اونٹوں کا جلوس نکالا اور باقاعدہ اشتہار بازی کی کہ آپ نے ہم پر بہت بڑا کرم کیا ہے۔‘ ‘ منٹو اس واقعہ کا ذکر کر رہا تھا جس میں ہم نے اونٹوں کے گلے میں ''تھینک یو امریکہ‘‘ کی تختیاں لٹکا کر پاکستان کے دارالحکومت میں جلوس نکالا۔ وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ تیسری دنیا کے زیادہ تر ممالک دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ پاکستان آپ کی گود میں آبیٹھا مگر ہندوستان اپنی غیر جانبداری کی ڈفلی بجا تے ہوئے دونوں گروہوں سے فائدے حاصل کرتا رہا۔
اور جب اکتوبر 1958ء میں سیاسی حکومت کی بساط لپیٹی گئی تو سرد جنگ کے تناظر میں آپ کو پاکستان کا جغرافیہ بہت دلکش محسوس ہوا۔ اب نہ پارلیمنٹ میں کسی منظوری کی ضرورت تھی اور نہ کوئی سیاسی مجبوری، جو سیاست دانوں کے ہاتھ باندھ دیتی۔ انکل سام! تمام فیصلے ایک ڈکٹیٹر بیک جنبش قلم کر سکتا تھا۔ یہ ''ون ونڈو آپریشن‘‘ آپ کو بہت بھایا۔ جب سوویت یونین نے یکم مئی 1960ء کو امریکی جاسوس طیارہ ''U-2‘‘ مار گرایا تو اُس کے زندہ گرفتار ہونے والے پائلٹ، گیری پاور کے بیان سے پاکستانی قوم کے سامنے یہ انکشاف ہوا کہ پشاور کے قریب مملکتِ خداداد پاکستان کی ارضِ پاک کا ہوائی اڈہ امریکہ کے زیرِ استعمال ہے۔ اِس واقعہ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں درجہ حرارت بڑھ گیا۔ سوویت یونین کے صدر خروشیف نے کھلے بندوں دھمکی دی کہ اُس نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے۔ انکل سام! بڑی طاقتوں کی جنگ میں پاکستان جیسے چھوٹے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑی مگر ہماری تابع فرمانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ پاکستان میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل اور صدر، ایوب خان کی مردانہ وجاہت اور اُن کے چوڑے چکلے فوجی سینے پر چمکتے دمکتے میڈلز سے بہت مرعوب تھی۔ یہ درست ہے کہ جب وہ امریکہ کی یاترا کرتے تو صدر آئزن ہاور اور اُن کے بعد صدر کینیڈی بذات خود اُن کی پذیرائی فرماتے۔ اُن کی قائدانہ صلاحیت کا برملا اعتراف ہوتا۔ایسا کیوں نہ ہوتا؟ قومی مفاد کی سوداگری اتنی ارزاں تھی کہ پاکستان امریکہ کی آنکھ کا تارا بن چکا تھا۔ اِس رشتۂ الفت کی ایک مثال امریکی نائب صدر لنڈن جانسن کے دورۂ پاکستان کے دوران دکھائی دی۔ وہ کراچی تشریف لائے تو بظاہر ایک سڑک پر گاڑی سے اُتر کر، رکی ہوئی ٹریفک میں ایک اونٹ گاڑی کے ساربان کو امریکہ سے دوستی کی دعوت دی۔ ''بشیر ساربان‘‘ پاکستان کا عوامی نمائندہ بن گیا۔ اُسے امریکہ بلایا گیا اور سرکاری مہمان کے طور پر مختلف شہروں کی سیر کروائی گئی۔ اور امریکی نائب صدر کے سرکاری ڈنر میں وہ کھانا پیش کیا گیا جو صرف ہاتھوں سے کھایا جا سکتا تھا۔ مقصد تھا کہ چھری کانٹے کے استعمال سے ناواقف، بشیر ساربان سبکی محسوس نہ کرے۔ انکل سام! اُن دنوں نہ صرف عسکری اداروں بلکہ پاکستان کی کابینہ میں بھی آپ کا اثرورسوخ پوری طرح قائم تھا۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ کی آشیر باد کے بغیر ''آپریشن جبرالٹر‘‘ شروع ہوتا‘ مگر شاید آپ منٹو کے اُس مشورے پر عمل کر رہے تھے۔ اُس نے آپ کو لکھا تھا ''آپ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ شروع کر دیجئے۔ کوریا کی جنگ کے فائدے اس جنگ کے سامنے ماند نہ پڑ گئے تو میں آپ کا بھتیجا نہیں۔ قبلہ! ذرا سوچیے یہ جنگ کتنی منفعت بخش تجارت ہو گی۔ آپ کے تمام اسلحہ ساز کارخانے ڈبل شفٹ پر کام کرنے لگیں گے۔ بھارت بھی آپ سے ہتھیار خریدے گا اور پاکستان بھی۔ آپ کی پانچوں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہی میں۔‘‘
انکل سام ! پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بارے صدر ایوب خان کی امیدیں پوری نہ ہوئیں تو وہ آپ سے نالاں ہوئے اور اُنھوںنے انگریزی زبان میں (Friends not Masters) ''دوست ہیں، مالک نہیں‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھ کر آپ سے شکوہ کیا۔ اُنھوں نے اِس آپ بیتی کے اردو عنوان کے لئے اقبال کے اس شعر سے استفادہ کیا۔
اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
میرے خیال میں کتاب کے عنوان کے لئے ساحر لدھیانوی کا یہ شعر زیادہ مناسب تھا۔
کیسے بازار کا دستور تجھے سمجھائوں
بک گیا جو وہ خریدار نہیں ہو سکتا
انکل سام! ایوب خان، ناکارہ اور بیکار ٹھہرا تو تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوا۔ آئندہ حکومتی انتظام میں بھی آپ کے لئے ''ون ونڈو آپریشن‘‘ کی سہولت قائم رکھی۔ یحییٰ خان کو ملک کے دونوں حصوں کے درمیان دوستانہ روابط اور اعتماد کے رشتے قائم کرنے کی اتنی پروا نہ تھی جتنی فکر اُسے چین کے ساتھ آپ کے تعلقات استوار کرنے کی تھی۔ پاکستانی عوام تو ایک طرف، پوری دنیا میں کسی کو خبر نہ ہوئی کہ امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر، نا سازی طبع کی وجہ سے کوہ مری کے ریسٹ ہائوس میں آرام کرنے کی بجائے پیکنگ میں چینی قیادت کے ساتھ نئے تعلقات کی شروعات کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اِن خدمات کا صلہ کس صورت ملا، کیسے ملا؟ اس بارے یحییٰ خان یا اُس کے ساتھیوں کو علم ہو گا مگر عوام کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
انکل سام! بھٹو کی جمہوریت آپ کو شروع سے ناپسند تھی۔ اسلامی ممالک کی آزادانہ گروہ بندی آپ کو ایک آنکھ نہ بھائی اور جب پاکستان نے فرانس سے ایٹمی ری پروسسنگ پلانٹ کی خرید کا معاہدہ ختم نہ کیا تو آپ نے اُس کی عبرت ناک مثال بنا ڈالی۔
اور انکل ! پھر ہماری دوستی کا ایک دور آیا۔ منٹو نے پچاس کی دہائی میں آپ کو ایک خط میں لکھا تھا ''فوجی امداد کا مقصد جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اِن ملائوں کو مسلح کرنا ہے۔ میں آپ کا بھتیجا ہوں اور آپ کی تمام رمزیں سمجھتا ہوں۔ ملائوں کا یہ فرقہ امریکی سٹائل میں مسلح ہو گیاتو سوویت یونین کو یہاں سے اپنا پان دان اُٹھانا پڑے گا۔‘‘ انکل سام !دل بڑا کر کے منٹو کی دور بینی کو داد دیں جس نے پچیس سال پہلے ملائوں کو مسلح کرنے کی پالیسی بھانپ لی تھی۔ ضیاء الحق کے گیارہ سالوں میں ''ون ونڈو‘‘ کے تحت پیار اور محبت کے نئے تعلقات استوار ہوئے۔ اِن ''قربت کے تعلقات‘‘ سے ضیاء الحق کی حکومت کو تو استحکام نصیب ہوا ،مگر پاکستانی عوام نے جو ''فیض‘‘ پایا اُس کے نتائج سے قوم آج تک نبرد آزما ہے۔
پاکستان کے ''مردِ مجاہد‘‘، ضیاء الحق کی ضرورت نہ رہی تو الوداع ہوا۔ آئندہ چند سال سیاسی پتلی تماشے میں گزر گئے۔ تا وقتیکہ آپ کو پھر پاکستان کی ضرورت آن پڑی۔ آپ کی خوش قسمتی دیکھئے کہ نائن الیون سے پہلے ہی ''ون ونڈو آپریشن‘‘ کی سہولت موجود تھی۔ آپ کو نہ کوئی ذہنی پریشانی ہوئی ، نہ کوئی اور تردد۔ ایک دفعہ پھر قوم کو پتا بھی نہ چلا کہ ارضِ پاک سے کون گرفتار ہوا اور کتنی رقم کے عوض کس کے حوالے کیا گیا۔ اہلِ صحافت بھی لا علم رہے کہ جیکب آباد کا ہوائی اڈہ کس کے زیرِ استعمال تھا۔ ہماری خدمات قائم دائم رہیں مگر انکل سام! آپ کی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن پاکستان کی ساس بن کر، ہمیشہ ''ڈو مور‘‘ (Do more)کا تقاضا کرتی رہی۔
انکل سام! پاکستان کی سیاسی تماشہ گاہ میں ایک دفعہ پھر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اِن دنوں آپ کو افغانی دلدل سے نکلنے کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ میں نے استخارہ تو نہیں کیا مگر دل میں وسوسے ہیں کہ کہیں آپ پھر سے ''ون ونڈو ‘‘ کا امکان تلاش نہ کر رہے ہوں۔