دو سال سے زائد ہونے کو آئے، وزیر اعظم ہائوس میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی بجلی کے منصوبوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ اسی میٹنگ میں دو اشعار اور ایک محاورہ پڑھا گیا۔ شہباز شریف کا ایک محاورہ میرے دونوں اشعار پر کیسے غالب آیا اور اُس سے عوام کی زندگی اور پاکستان کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟ اُس کا ذکر پس منظر کے بغیر ادھورا رہے گا۔
2013ء کا الیکشن جیتنے کے بعد نئی حکومت کوشش کر رہی تھی کہ بجلی کا بحران آئندہ الیکشن سے پہلے ختم ہو جائے۔ اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اگر اُس وقت تک لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوئی یا اُس میں نمایاں کمی نہ آئی تو عوام نے پیپلز پارٹی کے ساتھ جو سلوک کیا تھا، وہی اِن کے ساتھ ہو گا۔ اربابِ اختیار کے لئے لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سامری جادوگر کے اُس طوطے کی طرح تھا جس میں حکومت کی جان تھی۔ اس کمیٹی میں تمام وزرا شامل تھے جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق بجلی کی معاشیات سے جڑا تھا۔
2012ء کے وسط میں راقم سیکرٹری پانی و بجلی تعینات ہوا۔ چند دنوں میں یہ تلخ حقیقت آشکار ہوئی کہ نہ وزارت میں اور نہ ہی پلاننگ منسٹری میں لوڈ شیڈنگ کا جن قابو کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا۔ اُن دنوں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔ گرمی کے موسم میں لوڈشیڈنگ عروج پر تھی، عوام سڑکوں پر جلوس نکال رہے تھے۔ ممبران پارلیمنٹ نے میڈیا کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوڈشیڈنگ پر سوال و جواب شروع کر دیئے۔ ایک سول سرونٹ ہونے کے ناتے میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ حکومت کو شرمندگی سے بچایا جائے۔ مگر ایک سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا پڑا کہ حکومت کے پاس لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا کوئی پلان موجود نہیں ہے۔ اخباروں میں یہ بیان شہ سرخی کے ساتھ چھپا اور ریٹائرمنٹ سے چند ماہ پہلے مجھے او ایس ڈی کے عہدے سے سرفراز کر گیا۔
کسی قابلِ عمل پلان کی عدم موجودگی میں نئی حکومت کا پہلا سال مختلف تجاویز پر غور کرتے گزر گیا۔ نئی حکومت اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی تھی۔ نئے منصوبوں سے بجلی پیدا کرنے کے لئے ایک مخصوص مدت درکار ہوتی ہے۔ پن بجلی پیدا کرنے کے لئے دریائے سندھ پر داسو کے منصوبے کے لئے مالی انتظام تو ہوا مگر اس کی تکمیل آئندہ الیکشن کے بہت بعد ہونا تھی۔ بجلی پیدا کرنے کے جو منصوبے ماضی میں مکمل ہوئے تقریباً اُن سب کے لئے تیل (فرنس آئل) درآمد کرنا پڑتا ہے۔ عالمی منڈی میں فرنس آئل کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے تھے اورمہنگی بجلی صارفین کی جیب پر بھی بھاری تھی۔ فرنس آئل کے پلانٹ جلد مکمل ہو جاتے ہیں، مگر خوش قسمتی سے اس تجویز کو قبولیت نہ ملی کہ معیشت پر مزید بوجھ آ پڑے گا۔
کچھ چھوٹے منصوبے گیس سے بجلی پیدا کرتے ہیں، مگر کمی کے باعث گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی حکومت کے لئے ایک مسئلہ تھا۔ ایران سے گیس لی جا سکتی تھی مگر پائپ لائن کی تکمیل کے لئے درکار مالی وسائل کی راہ میں ایران پر لگی معاشی پابندیاں حائل تھیں۔ ایک اور راستہ تھر کے کوئلے کا استعمال تھا۔ کم مدت میں تکمیل کے لئے کان کے قریب بجلی کے بہت سے کارخانے لگائے جانے کے امکان کا جائزہ بھی لیا گیا۔ مقصد تھا کہ کوئلہ نکالنے کے انتظام کے ساتھ ہی کارخانے بھی تیار ہو جائیں۔ ایک مشکل تھی کہ کوئلہ سے چلنے والے پاور پلانٹ کو وافر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اتنا پانی تھر کے صحرا میں دستیاب نہ تھا۔
دوسرا امکان درآمدی کوئلے کا استعمال تھا۔ کراچی کے قریب کے ٹی بندر کے منصوبے پر بہت دیر تک کام ہوتا رہا۔ ساحل سے بہت دور بحری جہازوں سے اتارے جانے والا کوئلہ خشکی پر لگے کارخانوں میں استعمال ہوتا۔ تقریباً ایک سال کے بعد یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔ بنیادی وجہ تھی کہ کے ٹی بندر کے منصوبے میں تکنیکی دشواریوں کے علاوہ بجلی کو پاکستان کے شمال میں بھی پہنچایا جانا تھا۔ اگر بہت مقدار میں بجلی پیدا ہو تو ٹرانسمشن لائن بچھانے کا انتظام اور اس کے لئے درکار رقم کا بندوبست کیسے ہو گا۔
جس میٹنگ کا میں ذکر کر رہا ہوں، اُس میں مجھے بھی پن بجلی کے منصوبوں پر بریفنگ دینا تھی۔ رقم کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے نیلم جہلم منصوبہ مالی مشکلات کا شکار تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ملک تھوڑی رقم دینے پر رضامند تھے۔ کچھ رقم کا بندوبست صارفین سے نیلم جہلم سرچارج کے ذریعے ہونا تھا، مگر وسائل کم تھے اور ہم چینی کمپنی کے بڑھتے ہوئے واجبات ادا کرنے کے قابل نہ تھے۔ مالی وسائل کی اشد ضرورت پر زور ڈالنے کے لئے میں نے وزیراعظم کی اجازت سے اپنی بریفنگ فیض کے شعر سے شروع کی: ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمارے درد کوئی لا دوا نہ تھے
شعر کی زبان میں گلہ کرنے کے بعد شرکا کے نوٹس میں لایا گیا کہ چینی کمپنی‘ جس کے واجبات دس ارب سے زائد ہو چکے ہیں‘ اگر کام بند کرکے واپس چلی گئی تو یہ منصوبہ کم از کم مزید ایک سال کی تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لئے صوفی تبسم کا شعر پڑھا: ؎
ایسا نہ ہو کہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
اس قسم کی سرکاری میٹنگز میں‘ جہاں منصوبوں کی تکمیل کے لئے رقم کا حصول ایک اہم مسئلہ بن جائے تو اپنا نقطۂ نظر پوری قوت کے ساتھ پیش کرنا پڑتا ہے۔ میرا اشارہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی طرف تھا۔ اُن کا ردِ عمل بعد میں بیان کروں گا۔ پہلے اُس محاورے کا ذکر کر دوں جس کا استعمال وزیر اعلیٰ پنجاب، شہباز شریف نے کیا۔ ان کا خیال تھا کہ منصوبے پنجاب میں لگائے جائیں تاکہ ایک تو بجلی کی ترسیل لمبے فاصلے تک کرنے کی ضرورت نہ رہے‘ دوسرے وہ اپنی نگرانی میں سرمایہ کاروں کے لئے جگہ کی فراہمی اور دوسری سہولتوں کا بندوبست فوراً کر سکیں گے۔ بریفنگ دی گئی تو پتہ چلا کہ اگر ان کارخانوں نے الیکشن سے پہلے پیداوار شروع کرنی ہے تو منصوبوں کا فنانشل کلوز یا مالیاتی انتظام آئندہ چند مہینوں میں کرنا پڑے گا، ورنہ 2019ء سے پہلے بجلی کی فراہمی ممکن نہ ہو گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے اندر ایک منتظم تو ہر وقت بے چین رہتا ہے مگر یہ سُن کر اُن کے اندر کا سیاست دان بھی یکایک متحرک ہو گیا۔ اُنہوں نے فوراً کہا ''جناب وزیر اعظم آئندہ الیکشن کے بعد ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ کہا جائے گا کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘۔ اس محاورے کے استعمال سے آئندہ الیکشن کی لٹکتی تلوار سب سیاست دانوں کو واضح دکھائی دینے لگی۔ آئندہ الیکشن کے سیاسی دبائو کو اِس شدت سے محسوس کیا گیا کہ مشکل فیصلے منٹوں میں ہو گئے۔ صوبائی حکومتوں کا ترقیاتی فنڈ محدود ہوتا ہے۔ سیاست دان تمام علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ طے پایا کہ پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں میں کمی کی جائے۔ اُس سے کچھ سیاسی نقصان ہو گا مگر آئندہ الیکشن میں عوام لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں کریں گے۔ فیصلہ ہو گیا کہ حویلی بہادر، بلوکی، بھکی، ساہیوال، رحیم یار خان اور بہاولپور میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لئے بیشتر مالی وسائل پنجاب حکومت کے ترقیاتی فنڈ سے فراہم کئے جائیں گے اور کچھ مالی وسائل وفاقی ترقیاتی فنڈ سے فراہم ہوں گے۔ ان حالات میں نیلم جہلم پیچھے رہ گیا۔ میرے دونوں اشعار ناکام ثابت ہوئے۔ ڈار صاحب نے نیک نیتی سے وعدہ فرمایا کہ وہ بیرونی ذرائع سے ہماری امداد کریں گے۔
مجھے یہ دن اِس لئے یاد رہا کہ اُسی روز شام کے وقت میں نے ایک سیاسی شخصیت کو بتایا کہ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ 2017ء کے آخر یا 2018ء کے شروع میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ یہ خوشخبری سن کر وہ خوش ہونے کی بجائے گہری سوچ میں کھو گئے۔ کہنے لگے: اگر لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی تو آئندہ الیکشن کوئی تبدیلی نہیں لا سکے گا۔ اُن کے چہرے پر تفکرات کی لکیریں گہری ہوتی گئیں۔ میں اُن کا رد عمل سمجھنے سے قاصر تھا۔ کچھ دیر کے بعد اُنہوں نے آنکھیں کھولیں اور ایک عجیب لہجے میں کہا ''اب مکافات عمل کو کسی اور شکل میں ظاہر ہونا پڑے گا‘‘۔